Nasihatenکتب اسلامی

کرامتِ انسانی

سوال ۱۲ : ۔ قرآن میں انسان کرامت رکھتا ہے اور خداوندِمتعال نے اسے کریم موجود کے طور پر متعارف کرایا ہے (وَلَقَدْ کَرَّمْنٰا بٰنٖی آدَم) حقیقت جو ذہن، انسان سے سوال کرتا ہے کہ انسان کیوں کریم ہے ؟ اس کی کرامت کس لیے ہے ؟
کرامتِ انسانی کرامتِ الٰہی کی وجہ سے ہے جیساکہ فرمایا:
اِنَّی جٰاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً
میں(اپنا) ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں
پس انسان کی کرامت اس کے خلیفۃ اللہ ہونے کی وجہ سے ہے، اگر انسان خلیفۃ اللہ ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جس خدا کی طرف سے خلیفہ ہے اس کی بات کرے، اسے ارادہ، علم، سیرت، سنت، منطق اور روش خدا کی تقدیس کرنی چاہیے نہ یہ کہ روٹی تو خلافت کی کھائے اور بات اپنی کرے، اگر خدا نہ کرے کوئی اپنی بات کرے اور خلافت کی روٹی بھی کھائے تو وہ غاصب ہے، ایسا انسان پھر خلیفہ نہیں، جب خلیفہ نہیں ہو گا تو پھر کریم بھی نہیں ہو گا، جب کریم نہیں ہو گا تو پھر ان حقوق و خصوصیات کا مستحق بھی نہیں ہو گا، جب واجدِ حقوق و خصوصیات نہیں ہو گا تو (إِنْ ہُمْ إِلَّا کَالْأَنْعَام)(۱) اور (شَیَاطِیْنَ الإِنسِ وَالْجِنِّ)(۲) کا تازیانہ کھائے گا، یہ ہماری بات کا مقدمہ ہے یعنی اگر حقوق و خصوصیات ہیں تو درج بالا مذکورہ مسائل کی وجہ سے ہیں۔

آٹھویں امام ؑ تحف العقول میں فرماتے ہیں:
قال الرضاؑ: لا یکون المؤمن مؤمنا حتی یکون فیہ ثلاث خصال:سنۃ من ربہ و سنۃ من نبیہ و سنۃ من ولیہ فاما السنۃ من ربہ فکتمان السرواما السنۃ من نبیہ فمداراۃ الناس واما السنۃ من ولیہ فالصبر فی الباساء والضراء۔(۳)
مومن اس وقت مومن ہے جب ایک سنتِ الٰہی رکھتا ہو اور ایک سنت پیامبرِ اکرم ﷺاور ایک سنت امام کا حامل ہو، جب خلیفہ خدا ہوا اور سنت خدا کا حامل ہوا تولازمی طور پر خلفائے الٰہی کی سنت کا بھی حامل ہوگا، مومن میں سنت خدا کا ہونا یعنی اخلاق الٰہی کا ہونا ہے۔
مومن کی خلافت جنت میں اچھی طرح واضح ہو گی یعنی جس طرح خدا کا کام:
(اِنَّمٰا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْْئاً أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ)(۴)
اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو (فوراً) ہوجاتی ہے۔
کی بنیاد پر ہے اور نظامِ کائنات عمل مادی کے بغیر اور ارادہ الٰہی سے کام کرتا ہے تو جنت میں مومن بھی اسی طرح ہے یعنی جو کام بھی چاہے گا، مشیت و ارادہ سے انجام پائے گا ۔ (لَہُم مَّا یَشَاؤُونَ فِیْہَا وَلَدَیْْنَا مَزِیْدٌ )(۵)
اس (جنت) میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لیے حاضر ہے اور ہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔
جنت میں مومن ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اچھی طرح آثارِ خلافت کو رکھتا ہے یعنی تمام نعماتِ بہشتی بہشتیوں کی خواہش سے پیدا ہوں گی، جو چیز بھی چاہیں گے، حاصل ہوگی، البتہ کبھی برا نہیں چاہیں گے اور طغیانگری نہیں کریں گے ۔
مرحوم طبرسی ذیل آیت (یُفَجِّرُونَہَا تَفْجِیْراًً)(۶)کے ذیل میں مجمع البیان میں نقل کرتے ہیںکہ بہشتی چشمے جنتیوں کی خواہش کے تابع ہیں، دنیاوی چشموں کی طرح نہیں، دنیا میں جہاں چشمہ ہوتا ہے، لوگ وہاں چادر ڈالتے ہیں لیکن جنت میں چشمہ کا جاری ہونا جنتیوں کے ارادہ کے تابع ہے، جس طرح وہ چاہیں گے چشمہ پھوٹ پڑے گا اگر کوئی درخت یا پھل ہے اگر شربت، شہد، پانی ہے:
(أَنْہَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشَّارِبِیْنَ وَأَنْہَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی و۔۔۔(۷)
شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے(سراسر) لذت ہے اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں۔
ان سب نہروں کو خود جنتی جاری کریں گے۔
جنت میں انسان ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خلیفۂ خدا ہو جاتا ہے اور قدرتِ کن فیکون سے کام انجام دیتا ہے، اسی کام کو اولیائے الٰہی دنیا میں انجام دیتے ہیں۔

گوشہ بی گوشہ دل شھر ہی است
تابہ لاشرقی و لاغربی معی است
جناب مولانا رومؒ کی بات یہ ہے کہ گوشۂ دل، دل گوشہ نہیں رکھتا کیونکہ مجرد ہے، شاہراہ ہے کہاں تک؟ لا شرقی و لاغربی ہے یعنی اب بالآخر آپ یا زمین میں ہیں یا آسمان میں یامشرق میں ہیں یا مغرب میں ہیں، اس گوشۂ دل سے لامکان تک بہت بڑا راستہ ہے، لامکان ہی لاشرقیہ و لاغربیہ ہے۔
اچھا، ہم کیا کریں کہ خلیفہ خدا بن سکیں ؟ کیونکہ وہ ہستی جس کے ہم خلیفہ ہیں وہ لاشرقی و لاغربی ہے ۔
اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَأَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُوقَدُ مِن شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْْتُونِۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ یَکَادُ زَیْْتُہَا یُضِیْء ُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُّورٌ عَلَی نُورٍ یَہْدِیْ اللَّہُ لِنُورِہِ مَن یَشَاء ُ وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (۸)
خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق(سینہ) ہے جس میں ایک روشن چراغ(علم شریعت) ہو اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل (دل) میں ہو (اور) قندیل (اپنی تڑپ میں) گویا ایک جگمگاتا ہوا روشن ستارہ(وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے (تیل ) سے روشن کیا جائے جو نہ پورب کی طرف ہو اور نہ پچھم کی طرف (بلکہ بیچوں بیچ میدان میں،اس کا تیل(ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ آپ ہی آپ روشن ہوجائے گا (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علی نور (نور کی نور پر جوت پڑ رہی ہے) خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور خدا لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے مثالیں بیان کرتا ہے اور خداتو ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
ہم اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، نہ شمالی ہے، نہ جنوبی، نہ آسمانی ہے نہ ارضی ہے، حدیثِ قدسی میں آیا ہے، آسمان و زمین مجھے برداشت نہیں کر سکتے اور میں اپنے صالح بندہ کے دل شکستہ میں ہوں،اس سے مرادیہی ہے، ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس خلافت کو محفوظ کریں یعنی اپنی بات نہ کریں، بالآخر خلیفہ صاحب خلافت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے یا صاحب خلافت خلیفہ کے پاس حاضر ہوتا ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی خلیفۂ خدا ہو اور خدا اپنے خلیفہ کو تنہا چھوڑ دے، کبھی خلیفہ کو وہ اپنی خدمت میں لے جاتا ہے تو وہ میزبان ہوتا ہے اور خلیفہ مہمان اور کبھی وہ خود آتا ہے اور خلیفہ میزبان ہوتا ہے اور وہ مہمان(اَنا عِنْدَ المُنْکَسِرَۃِ قُلوبِھِم)(۹)جب کسی کا دل ٹوٹ جاتا ہے تو انسان میزبان ہوتا ہے اور خدا مہمان ۔
سب خلفاء کو یا لے گئے ہیں یا انہیں کہا ہے کہ آئو، حضرت موسیٰ ؑ مہمان خدا تھے لیکن اسے کہا گیا کہ آئو۔
وَلَمَّا جٰائَ مُوسَیٰ لِمِیْقٰاتِنٰا (۱۰)
اور جب موسیٰ ہمارے وعدہ پورا کرنے (کوہ طور پر) آئے۔
وہ اپنے پائوں سے چل کر گئے، رسولِ خدا ﷺ بھی مہمان تھے لیکن انہیں کہا کہ آئو بلکہ کہا ہم آپ کی خدمت میں مامور بھیجیں گے اور آپ کو لے آئیں گے، پیامبرِاکرم ﷺ کے معراج پر جانے اور حضرت موسیٰ ؑکے میقات میں بہت فرق ہے، اس قدر جتنا وجود مبارک پیامبر ﷺ اور حضرت موسیٰ ؑ میں فرق ہے ایک کو کہتے ہیں آئو۔
(وَلَمَّا جٰائَ مُوسَیٰ لِمِیْقٰاتِنٰا ) اور دوسرے کو لے جاتے ہیں (سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَیٰ) (۱۱)
بہرحال یہ راستے چلنے کے قابل ہیں اور اگر کوئی اس سے کم تر پر قناعت کرے، اس نے خود کو دھوکہ دیا ہے، جو کچھ ہم سب اپنے ذہن میں دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کبھی ممکن ہے جاہل مر جائیں کیونکہ ہماری پچاس ساٹھ سالہ تحصیلات مجموعہ مفاہیم ہے، ہم نے کتاب لکھی، درس دیا، یہ الفاظ تھے اور مفاہیم اور یہ سب علم حصولی ہیں، ان میں کوئی بھی ہمارے ذہن سے باہر نہیں، اچھا اگر ہمارے ذہن سے باہر نہیں تو اس کا پشت پناہ کیا ہے ؟ اور ان کے اجراء و نفاذ کا ضامن کیا ہے؟
حالتِ پیدائش میں ہم سب جاہل تھے۔
وَاللّٰہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئا۔(۱۲)
اور خدا ہی نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹ سے نکالا(جب) تم بالکل ناسمجھ تھے۔
ممکن ہے ہم میں سے بہت سے اسی طرح جاہل مر جائیں۔
وَ مِنکُم مَّن یُتَوَفَّیٰ وَ مِنکُم مَّن یُرَدُّ اِلَی أَرْذَلِ اَلْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمِِ مَنْ بَعْدِ عِلْمِ شَیئَاً وَ۔۔۔ (۱۳)
اور تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جو (بڑھاپے سے پہلے) مرجاتے ہیں اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو ناکارہ زندگی(بڑھاپے) تک پھیر لائے جاتے ہیں تاکہ سمجھنے کے بعد سٹھیا کے کچھ بھی (خاک) نہ سمجھ سکے۔
بعض لوگوں کو بڑھاپے میں سب کچھ بھول جاتا ہے، شاید ہم سب نے ایسے بوڑھوں کو دیکھا ہے جو ایک سطر عبارت پڑھنے سے عاجز ہیں، یہ جو کہتے ہیں روزِ قیامت علماء حق ِشفاعت رکھتے ہیںاس سے مراد وہ شخص ہے جو عالمانہ زندگی بسر کرے اور عالمانہ طور پر برزخ میں وارد ہو اور عالمانہ طور پر مبعوث ہو، وہ قدرتِ شفاعت رکھتا ہے نہ وہ شخص جو معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ رکھتا ہے۔
وہ شخص جو دنیا میں عالم تھا اور آخرت میں عالم نہیں وہ شفاعت نہیں کر سکتا، قرآن نہیں کہتا کہ جس نے اچھا کام کیا، خدا اس کو جزائے خیر دے گا بلکہ کہتا ہے جو بھی اچھا کام لائے گا وہ جزائے خیر رکھتا ہے ۔ مَنْ جٰائَ بِالْحَسَنَۃِ اچھا کون حسنۃ لا سکتا ہے؟
ہم میں سے بہت سے لوگوں نے تجربہ کیا ہے کہ ٹائیفائیڈ کا مرض یا دیگر مشکلات انسان کی محفوظات و حافظہ کو بھلانے کا باعث بنتی ہیں، موت کی سختی سرطان یا ٹائیفائیڈ جیسی نہیں، کیا موت کی سختی علمی مراکز و یونیورسٹی کے علوم کو انسان کے لیے باقی رہنے دیتی ہے؟
وہ علوم جوحال ہے وہ جانے والا ہے، وہ علوم جو ملکہ ہو جائے، کچھ مدت تک باقی رہتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے لیکن وہ علم جو انسان کی حقیقت کی فصلِ مقوم ہو جائے وہ باقی رہتا ہے اور یہ درس، بحث سے حاصل نہیں ہوتا، علمِ با عمل ہمارے اندر ایک حقیقت پیدا کرتا ہے اور ہماری حقیقت کو بناتا ہے، جب علم نے ہماری حقیقت بنا دی تو پھر ایسے عالم بنیں گے جو عالمانہ مریں، عالمانہ برزخ میں داخل ہوں، عالمانہ داخل قیامت ہوں اور عالمانہ جنت میں داخل ہوں، یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کے بارے میں فرمایا:
بَعَثَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الِقیامَۃِ فَقیھاً
پس ہمیں چاہیے کہ خلافت سے رابطہ پیدا کریں تاکہ ایسے علم حاصل کریں اور یہ ممکن ہونے والی بات ہے، قرآنِ کریم نے ہمیں فرمایا کہ کوشش کرو، جو کچھ تمہیں معلوم ہوا ہے وہ آپ کے لیے شہود ہو جائے ۔
خدا رحمت کرے مرحوم علامہ طباطبائی پر انہوں نے بار بار فرمایا :
ہماری پوری کوشش یہی ہے کہ معلوم کو حاصل کر لیں لیکن ہمیں علم نصیب نہیں ہوتا، وہ کچھ جو ہمیں نصیب ہوتا ہے وہ کچھ مفاہیمِ ذہنی ہیں۔
اگر کسی جگہ معلوم ظہور کرے تو خداوندمتعال فرماتا ہے، اگر قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ بکھر جاتے۔
لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ (۱۴)
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر بھی نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے جھکا اور پھٹا جاتا ہے
پہاڑ قرآن کا متحمل نہیں، درج بالا آیت میں جس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی ہر وہ چیز جس پر قرآن صادق ہے خواہ کل قرآن ہو، خواہ دس سورتیں، خواہ ایک سورۃ، خواہ ایک آیت، اگر ایک آیت قرآن پہاڑ پر نازل ہو تو پہاڑ بکھر جائیں، اس کی علامت یہ ہے جس کا ایک رخ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو دکھایا ۔
فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکّاً وَخَرَّ موسَی صَعِقا (۱۵)
پھر جب ان کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ چکنا چور ہوگیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
تو موسیٰ ؑ بے ہوش ہو گئے، پس علم ِحصولی کے دائرہ میں الفاظ، مفاہیمِ قرآن سے سروکار رکھتے ہیں، کیا کریں کہ یہ مفاہیم ’’علم سے حقیقت میں آئیں اور کان سے آغوش میں؟‘‘ یہ صرف درس وبحث سے ممکن نہیںہے، فقط عمل سے ممکن ہے کہ انسان شواہد تک رسائی حاصل کرے ۔ اس مقام پر خداوند متعال فرماتا ہے اگر تم نے علم الیقین تک رسائی حاصل کر لی تو آپ کے لیے مفاہیم و معلومات کے مشہود ہونے کا ماحول فراہم ہو جاتا ہے اور اسی جگہ سے جنت و جہنم کو دیکھو گے۔
کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِo لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ۔(۱۶)
دیکھو تم کو اگر یقینی طور پر معلوم ہوتا (تو ہرگز غافل نہ ہوتے)تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکو گے۔
اگر کوئی علم الیقین تک رسائی حاصل نہ کرے تو وہ وہم، خیال، قیاس، گمان سے روبرو ہے، اگر ہم چاہیں کہ صاحبِ نظر بنیں، تو ضروری ہے کہ غیب سے مرحلۂ حضور میں داخل ہوں، اگر ہم چاہیں کہ ظاہری نظر سے باطنی بصارت تک پہنچیں تو ضروری ہے کہ مقامِ حضور سے مقامِ فنا تک پہنچیں، مقامِ فنا وہی ہے کہ امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں:
اَناَ ابن مَکَّۃَ و مِنَی، اَنَاابُنُ عَلِیََّ المرتضٰی،اَنَاابُنُ فَاطِمَۃُ الزَّھراَء
تمام مکہ و مدینہ کو ہم نے زندہ کیا ہے۔
اگر خلافت تمام حقیقتِ انسانی کو پُرکر دے تو جب وہ اپنا تعارف کرانا چاہتا ہے تو کہتا ہے:

اَنَااَقَلُّ اُلاَقَلَّینَ واَذَلُ اُلاَذَلَّین مِثْقَالُ ذرۃٍ۔۔۔۔
اے اللہ (دنیا میں) مجھ سے پست تر کوئی نہیں
اگر وہ چاہے کہ اس ہستی کی زبان سے بات کرے جس کی طرف سے وہ خلیفہ بنا ہے تو کہتا ہے، مکہ، مدینہ ہمارا ہے، ہم نے ان سب کو زندہ کیا ہے، یہ جو خداوندِمتعال نے فرمایا:
کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْم
یہ موت کے بعد سے متعلق نہیں، کیونکہ مرنے کے بعد کفار بھی کہہ سکتے ہیں :
رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا (۱۷)
پروردگار ہم نے (اچھی طرح)دیکھ لیا اور سن لیا۔
کافر جہنم کو دیکھتا ہے لیکن جنت، انبیاء، اولیاء کی نسبت نابینا ہے، وہ فقط جہنم کو دیکھتا ہے کیونکہ دنیا میں برُائی کے علاوہ اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔
وہ لوگ جنہوں نے تمام مظاہر حسن و فضیلت جیسے مساجد، مراکز مذہبی، صحف انبیاء الٰہی اور تمام حقائقِ عالم کو نہیں دیکھا، ان کے بارے میں خداوندمتعال نے فرمایا:
وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی(۱۸)
اور روز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔
یعنی اعمٰی عن الحق حقائق سے اندھا، یہ جو اندھے ہیں صرف جہنم کو دیکھتے ہیں، پس جہنم کو دیکھنا تمام کفار کو نصیب ہو گا، یہ جو فرمایا : اگر تم علم الیقین رکھتے ہو تو جہنم کو دیکھو گے یعنی اس دنیا میں جہاں پر بھی جہنم کو دیکھو گے، حضرت امیر المومنین ؑفرماتے ہیں کہ:
متقین گویا جنت و جہنم کو دیکھتے ہیں، گویااہل جہنم اور اہل جنت کو دیکھتے ہیں ۔
فَھُمْ وَالْجَنَّۃُ کَمَنْ قَدْرَآھَا فَھُمْ فِیھَا مُنَعَّمُونَ وَھُمْ وَالنَّارُکَمَنْ قَدْرَآھَا فَہُمْ فِیھَا مُعَذَّبُونَ (۱۹)
ان کو جنت کا ایسا ہی یقین ہے جیسے کسی کو آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتا ہے تو گویا وہ اسی وقت جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہیں اور دوزخ کا بھی ایسا ہی یقین ہے جیسے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہاں عذاب ان کے گرد پیش موجود ہے۔

(حوالہ جات)
(۱)سورہ فرقان آیت ۴۴
(۲)سورہ انعام ۱۱۲
(۳)تحف العقول،ص۴۴۲
(۴) سورہ یٰسین آیت ۸۲
(۵) سورہ ق آیت۳۵
(۶) سور ہ انسان آیت۶
(۷)سورہ محمد آیت ۱۵
(۸)سورہ نور آیت۳۵
(۹)الدعوات ص ۱۲۰
(۱۰) سورہ اعراف آیت ۱۴۳
(۱۱)سورہ اسراء آیت ۱
(۱۲)سورہ نحل آیت ۷۸
(۱۳)۔ سورہ حج آیت۵
(۱۴)سورہ حشر آیت ۲۱
(۱۵)سورہ اعراف آیت ۱۴۳
(۱۶) سورہ تکاثر آیت ۵،۶
(۱۷)سورہ سجدہ آیت ۱۲
(۱۸) سورہ طہ آیت ۱۲۴
(۱۹)نہج البلاغہ خطبہ متقین

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button