محمود غزنوی کا انصاف
سلطان محمود غزنوی ایک رات سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹا تو کوشش کے باوجود سو نہ سکا،اسے خیال آیا کہ ہو نہ ہو کوئی مظلوم داد رسی کے لیے آیا ہوا ہے۔
اس نے غلام کو بلا کر کہا:باہر جا کر اچھی طرح دیکھو،اگر کوئی فریادی ہو تو اسے ابھی میرے سامنے پیش کرو۔
غلام نے واپس آکر کہا:سلطان معظم!باہر تو کوئی نہیں ہے۔
سلطان نے دوبارہ سونے کا ارادہ کیا مگر اسے نیند نہ آئی،اس کو یقین ہوگیا کہ غلام نے ٹھیک سے نہیں دیکھا ہوگا،وہ مسہری سے اٹھ کر باہر آیا اور قرب و جوار میں فریادی کو ڈھونڈنے لگا،اسے محل کے قریب کی مسجد سے ایک شخص کی آواز سنائی دی۔
سلطان مسجد میں آیا تو دیکھا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے:اے میرے وہ خدا جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگھ،سلطان نے مظلوموں کے لیے اپنے دروازے بند کر لیے ہیں۔
یہ الفاظ سن کر سلطان نے کہا:میں آگیا ہوں،تم اپنا مسئلہ بتائو۔
اس نے کہا:سلطان معظم !آپ کا ایک افسر میری عزت سے کھیل رہا ہے۔
سلطان نے کہا:اس وقت وہ کہاں ہے؟
اس نے کہا:میرا خیال ہے اس وقت وہ جا چکا ہوگا۔
سلطان نے کہا:جب وہ دوبارہ تیرے گھر آئے تو مجھے فوراً آگاہ کرنا۔
پھر سلطان نے اپنے دربانوں سے کہا کہ تم اس شخص کو اچھی طرح دیکھ لو،یہ جس وقت بھی مجھ سے ملنا چاہے اسے میرے پاس لے آنا۔
اگلی رات وہ فوجی افسر اس کی ناموس برباد کرنے کے لیے پھر اس کے گھر پہنچا تو وہ فوراً سلطان کے پاس آیا اور اس کی اطلاع دی۔
سلطان نے اپنی تلوار اٹھائی اور آن کی آن میں اس شخص کے گھر پہنچ گیا،فوجی افسر اس شخص کے گھر میں پہلے ہی موجود تھا،سلطان نے فریادی سے کہا کہ تم چراغ بجھا دو،اس نے چراغ بجھایا تو سلطان نے اس ظالم کو قتل کردیا،پھر فریادی کو حکم دیا کہ اب دوبارہ چراغ جلائو،اس نے چراغ جلایا تو سلطان نے غور سے مقتول کے چہرے کو دیکھا اور فوراً سجدے میں گر گیا،پھر اس سے کہا کہ تمہارے گھر میں کھانے کے لیے جو کچھ ہے لے آئو۔
اس نے کہا:سلطان معظم!آپ ہم غریبوں کے گھر کا کھانا کیسے کھائیں گے؟
سلطان نے کہا:بندہ خدا!جو کچھ بھی تمہارے گھر میں ہو کھانے کے لیے لے آئو، وہ شخص سوکھی روٹی لے آیا ،سلطان نے وہی سوکھی روٹی کھائی۔
اس نے کہا:سلطان معظم!یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ نے چراغ بجھانے کا حکم کیوں دیا اور پھر مقتول کو دیکھ کر سجدہ شکر کیوں ادا کیا اور ایک غریب کے گھر کا کھانا کیوں کھایا؟
سلطان نے کہا:بات یہ ہے کہ جب میں نے تیری فریاد سنی تھی تو میں یہ سمجھا تھا کہ میرے افسروں میں سے کسی کو ایسی جرأت نہیں ہوسکتی،ہو نہ ہو یہ میرے کسی بیٹے کا کام ہے،اسی لیے میں نے تجھے چراغ بجھانے کا حکم دیا تھا تاکہ اگر مجرم میرا بیٹا ہوتو شفقت پدری انصاف کی راہ میں حائل نہ ہو اور جب تو نے دوبارہ چراغ جلایا تو میں نے دیکھا کہ مقتول میرا بیٹا نہیں ایک فوجی افسر تھا،اسی لیے میں نے سجدہ شکر ادا کیا کہ میرے کسی بیٹے نے یہ جرم نہیں کیا اور کل رات سے میں نے یہ منت مانی تھی کہ جب تک میں ظالم کو سزا نہ دوں گا اس وقت تک کھانا نہیں کھائوں گا،اسی لیے میں کل سے بھوکا تھا اور تجھ سے کھانا لانے کوکہا۔