تعلیم اسماء
سوال ۷ : ۔ آیتِ شریفہ (وعلم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکۃ فقال انبئونی باسماء ھولاء ان کنتم صادقین ) میں تعلیم ِ اسماء سے مراد کیا ہے ؟
تعلیم کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ علم رسمی جو حوزۂ علمیہ دین یا یونیورسٹی میں حاصل کیا جاتا ہے، استاد بات کرتا ہے یا کتاب لکھتا ہے اور مخاطب سنتا ہے یا مطالعہ کرتا ہے، یہاں پر علم کے انتقال کا ذریعہ الفاظ، مفاہیم، نقوش و امثالھمہیں، یہ علوم کبھی عمل کے ہمراہ ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے، کبھی آخرِ عمرتک باقی رہتے ہیں اور کبھی بھول جاتے ہیں، یہ علم خود فھم حقائق کا ذریعہ ہے
۲ ۔ وہ علم جو لفظ و مفہوم کی نوع سے نہیں، آواز نہیں کہ کان سن سکیں، نقش و نگار نہیں کہ آنکھ دیکھ سکے، مفہوم نہیں کہ ذہن دریافت کر سکے، یہاں راستہ دل ہے، کبھی انسان کلمہ سورج کو لکھتا ہے یا سورج کی تصویر کشی کرتا ہے تاکہ دوسرے کو سمجھا سکے کہ سورج کیا ہے، کبھی بچے سے کہتا ہے کہ سورج کو دیکھو اور کبھی سورج کے سامنے ایک آئینہ رکھتا ہے تاکہ سورج کی صورت آئینہ میں منعکس ہو اور آنکھ تک پہنچ سکے ۔
یہ شخص اگرچہ بلاواسطہ سورج کو نہیں دیکھتا لیکن انعکاس آئینہ سے نور کو دیکھتا ہے، ممکن ہے کہ کلمہ سورج کو نہ لکھ سکے یا سورج و آفتاب جیسے الفاظ سے نا آشنا ہو، لیکن اس نے حقیقت ِ نور کو درک کر لیا ہے، وہ علوم جو خداوندِمتعال اپنے اولیاء کو عطا کرتا ہے، عربی و فارسی کی نوع سے نہیں اور لفظ و مفہوم کی قسم سے بھی نہیں، وہ حقیقت انسانِ کامل کو دکھاتا ہے، اگر انسان اعلیٰ صلاحیت رکھتا ہو تو اسے عین حقیقت دکھاتا ہے اور اگر اعلیٰ صلاحیت نہیں رکھتا تو اسے آئینہ میں وہ حقیقت دکھاتا ہے اگر کوئی قدرت رکھتا ہو تو بلاواسطہ آنکھ سے سورج کو دیکھتا ہے اگرچہ وہ نہ جانتا ہو کہ فارسی میں اس نورانی جسم کو آفتاب اور عربی میں شمس کہتے ہیں، اگر اتنی قدرت نہ رکھتا ہو تو مخصوص عینک سے سورج کو دیکھتا ہے اور سورج کی تصویر کو دیکھتا ہے، اس طرح کے علوم کو علم ِ شہودی یا حضوری کہتے ہیں یعنی خود واقع کی شہود کے ذریعے نشاندہی کی جاتی ہے، یہ علم روحِ انسانی میں باقی رہتا ہے اور ختم ہونے والا نہیں ہوتا ۔
علم حصولی جیسے علومِ حوزہ و مراکز دینی و یونیورسٹی ہیں، انسان جانتا ہے کہ سورج کن نوروں سے تشکیل ہوا ہے، کلمہ سورج کو کیسے لکھتے ہیں، سورج کا طول، عرض کس قدر ہے لیکن یہ علوم انسان کو نور، گرمی عطا نہیں کرتے ۔
تعلیم ِاسماء علوم حصولی اور لفظ کی قسم سے نہیں، ذاتِ مقدس باری تعالیٰ اپنے اسمائے حسنیٰ انسانِ کامل کو دکھاتی ہے، حضرت آدم ؑ انسان کامل کا مصداق ہیں، آج آدم عصر، حضرت ولی عصر ؑ شمار ہوتے ہیں جو اسماء الٰہی کے متکلم ہیں۔
’’سمۃ‘‘ یعنی علامت و نشانی، تمام عالم اسمائے الٰہی اور اس بے نشان ہستی کی علامت و نشانی ہیں، دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں :
وَبِأَسْمٰائِکَ الَّتیٖ مَلاَّ ت ْاَرْکاٰنَ کُلَّ شَیء
اور سوال کرتا ہوں تیرے ناموں کے ذریعے جنہوں نے ہر چیز کے اجزاء کو پر کر رکھا ہے۔
یہ الفاظ جنہیں ہم اسماء کہتے ہیں یعنی لفظ آفتاب اس نورانی جسم کا اسم ہے جو ہمارے ذہن میں ہے، ہمارا ذہنی مفہوم اس حقیقت کا نام ہے جو آسمان میں ہے، وہ حقیقت اسمائے حسنیٰ الٰہی کے اسم کی علامت ہے، اس اسم کامسمی ذات مقدس الٰہی ہے، حقیقت الٰہی مسمٰی ہے، اس حقیقت کو ایک وصف کے ذریعے مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ اسمِ الٰہی ہو گا جومَلاَّ ت ْاَرْکاٰنَ کُلَّ شَیء ہے، اس اسم کو خارجی سورج ہمیں دکھاتا ہے اور خارجی سورج کو مفہوم ذہنی، ہمارے ذہن کیلئے نقّش کرتا ہے اور مفہوم ذہنی کو کلمہ آفتاب یا شمس کی طرف منتقل کرتے ہیں ہے، پس جو کچھ بعنوانِ آسمان، زمین، چاند، سورج قرار دیتے ہیں، وہ اسماء الٰہی کے اسماء ہیں۔
پس خداوندِمتعال انسانِ کامل کو حقائقِ اسماء دکھاتا ہے اور تمام انبیاء الٰہی و آئمہ یہ خصوصیت رکھتے ہیں البتہ سب برابر اور ایک درجہ میں نہیں، درج بالا مطالب سے چند نکات واضح ہو جاتے ہیں :
۱ ۔ تعلیمِ اسماء سے مقصود حقائق کا شہود حضوری ہے ۔
۲ ۔ اسماء یعنی حقائقِ الٰہی جو خدائے بے نشان کی علامت ہیں ۔
۳ ۔ آدم یعنی انسانِ کامل۔
جو شخص بھی انسانیت کے نزدیک ہو گا، وہ اس میدانِ تعلیم کے نزدیک ہے اور کامل تر وبیش تر اسماء کی تعلیم اُسے دیتے ہیں ۔
۴ ۔ تعلیم اسماء ایک تاریخی واقعہ نہیں جو ایک زمانہ میں محقق ہو کر ختم ہو گیا ہو، یہ ایک ایسی تازہ چیز ہے جو ہمیشہ تھی، ہے اور ہو گی، ایک دائمی کلاس درس ہے جس میں خداوندمتعال استاد اور انسانِ کامل شاگرد ہے اور اسماء حسنیٰ نصابِ تعلیم، یہ کلاس ہمیشہ سے تھی ہے اور رہے گی۔
اگر کوئی واجدِ شرائط ہواور انسان بن جائے تو اس کلاس کے شاگردوں میں شامل ہو جائے گا اور سنے گا کہ خدا کلام کرتا ہے اور فرشتوں سے مربوط ہو گا، یہ مقام تمام انسانی افراد کے لیے موجود ہے یعنی اگر کوئی حیوانی حدود سے گزر جائے اور انسان بن جائے تو اسے کلاس تعلیم اسماء میں داخلہ ملتا ہے، وہ کلاس آج بھی قائم ہے، یہ کلاس زمان و مکان کی حدود میں نہیں آتی یعنی زمان و مکان سے بالاتر ہے ۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ حقائقِ عالم سے مثلِ آفتاب اس طرح آشنا ہو تو یہ علم انسان کو روشنی ونور عطا کرتا ہے، پھر انسان اپنی بے مقصدیت کو محسوس نہیں کرتا، پھر وہ اپنے آپ کو بے مقصد و آزاد نہیں دیکھتا، اگر انسان طہارت و پاکیزگی، نیکی و خوبی وغیرہ سے لذت حاصل کرتا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی حد تک اسے سورج دکھایا گیا ہے، بلاواسطہ یا آئینہ کے ذریعے سے۔
ہم اگر گناہ کی بدبو سے متاثر ہوں اور اس سے دوری اختیار کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلاس تعلیمِ اسماء میں داخل ہو گئے ہیں، اگر تمام عالم کو آہنگ و صدائے دائود نے گھیر رکھا ہو تو بھی جو سننے والے کان نہیں رکھتا، اس کے لیے فائدہ نہیں ہو گا، جیسا کہ روز روشن و نیلا آسمان نابینا کے لیے سود مند نہیں، اگر تمام عالم خالص مشک سے پُر ہو جائے تو جو شخص قوت شامہ (سونگھنے کی حس) سے محروم ہے اس کے لیے کوئی فائدہ نہیں ۔
تمام کوششیں اس لیے ہیں کہ ہم اس عالم کے مطابق آنکھ، کان شامہ کو پا لیں اور حقائق کو درک کر لیں، تمام درس، بحثیں اس لیے ہیں، یہ جو بعض بزرگ دنیا اور اس میں رہنے کی قدرت نہیں رکھتے، اس لیے کہ انہوں نے غیر عادی حقائق کی خوبصورتی کو دیکھا ہے، وہ خوبصورتیاں جو دنیا میں ہر گز نہیں ہیں ۔
ہمارے استاد مرحوم الٰہی قمشہ ای اپنے معروف شعر میں فرماتے ہیں :
شیطان جو ہمیشہ کے لیے درگاہِ الٰہی سے بھگایا گیا ہے، اس وجہ سے نہیں کہ اس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا، کیونکہ بہت سے لوگ نماز نہیں پڑھتے اور خدا کو سجدہ نہیں کرتے۔
جرمش این بود کہ در آئینہ عکس توندید
ورنہ بر بو البشری ترک سجود این ہمہ نیست
شیطان کا جرم اور شیطنت یہ ہے کہ انسان اس نوراللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض(۱) کو دیکھنے کی بجائے خود کو دیکھے وگرنہ (ایک سجدہ کو) ترک کرنے کا نتیجہ عذاب جاویدان نہیں ۔
تمام انبیاء کی کوشش یہ ہے کہ ہمیں بتائیں کہ ہم ایسا عظیم سرمایہ رکھتے ہیں، وہ ہمیں سمجھاتے ہیں، راہ خدا کو طے کریں اور نئے راستے پیدا نہ کریں، گناہ حقائقِ اسماء الٰہی کو دیکھنے کے راستے کو بند کر دیتے ہیں، تمام احکام اور عبادت کی تاکید اس لیے ہیں کہ ہم راہزن نہ بنیں اور اپنے راستے کو خود بند نہ کریں، اگر ایسا ہو جائے تو ایسی کلاس میں داخل ہوں گے، جس کا استاد خدا ہے، کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں ایسی فکر پیدا ہوتی ہے جو خود تمہیں روشن کرتی ہے، تو واضح ہے کہ اس لحظہ میں اس کلاس کی ہوا ہمیں لگی ہے، کبھی یہی حالت دائمی ہو جاتی ہے ۔
خوشا آنان کہ دائم در نمازند
رسول اکرم ﷺ سے ایک نورانی بیان نقل ہوا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ہے :
رات لمبی ہے اسے نیند کے ساتھ چھوٹا نہ کرو اور دن کو اس کی تمام تر روشنی کے باوجود اسے گناہ کے ساتھ تاریک نہ کرو، جو شخص رات آٹھ گھنٹے سوتا ہے،وہ ان آٹھ گھنٹوں کو پندرہ منٹ عبادت کرکے اس میں تبدیلی لاسکتا ہے، اس بناپر جس قدر بھی قدرت رکھتے ہو حرام وگناہ سے پرہیز کرو تاکہ کبھی کبھی اس باعظمت کلاس کے راستے کو پائو اور روحِ نشاط و امید پیدا کرو اور اپنی زندگی کو سلامتی و آسانی سے بسر کرو ۔
(حوالہ)
(۱) سور ہ نور آیت ۳۵