مادری زبان میں نکاح
٭سوال ۴۹: کیا عورت اور مرد خود ہی صیغہ نکاح کواپنی مادری زبان میں پڑھ سکتے ہیں، یا یہ کہ کسی کو وکیل بنائیں تاکہ وہ عربی میں صیغہ نکاح پڑھے؟
آیاتِ عظام امام ، خامنہ ا ی ، سیستانی،صافی، مکارم ،نوری ووحید :اگر وہ خود صحیح عربی میں نہیں پڑھ سکتے تو وہ اپنی زبان میں صیغہ پڑھ سکتے ہیں، لیکن وہ اپنی زبان میں ایسے الفاظ استعمال کر یں جو ’’زَوَّجتُ‘‘اور ’’قبلتُ‘‘کا معنی و مفہوم رکھتے ہوں اور وکیل کرنا ضروری نہیں ہے۔ (۱)
آیۃ اللہ بہجت: عقد ِ نکاح کسی بھی زبان میں پڑھنا جائز ہے اگرچہ عربی میں پڑھنے پر بھی قادر ہو اور وکیل بنانا ضروری نہیں ہے۔(۲)
آیات ِ عظام تبریزی وفاضل: اگر وہ خود صحیح عربی میں نہیں پڑھ سکتے اور اگر وکیل کرنا ان کے لیے ممکن ہو تو احتیاط واجب کی بناپر وکیل کریں اور اگر ممکن نہیں ہے تو خود بھی اپنی زبان میں صیغہ پڑھ سکتے ہیں، لیکن اپنی زبان میں ایسے الفاظ استعمال کریں جو ’’زَوَّجتُ‘‘اور ’’قبلتُ‘‘کا معنی و مفہوم رکھتے ہو۔(۳)
وضاحت:۔ عقد ِ دائم میں اُردو میں صیغہ یوں پڑھا جا ئے گا مہر مقرر کرنے کے بعد پہلے عورت کہے ’’مقررہ مہر کے ساتھ خود کو تیری بیوی بنایا‘‘پھر مردکہے ’’میں نے اس ازدواج کو قبول کیا۔
(حوالہ جات)
(۱) توضیح المسائل مراجع، م۲۳۷۰،وحید توضیح المسائل ، م ۲۴۳۴، نوری توضیح المسائل ،م ۲۳۶۶و خامنہ ای استفتاء ،س ۴۰
(۲)بہجت، توضیح المسائل مراجع م ۲۳۷۰
(۳) توضیح المسائل مراجع، م ۲۳۸۰