حکایات و روایاتکتب اسلامی

مومن کی آزمائش

(۱)’’عن أبي جعفر ؑ قال: قال أمير المؤمنين ؑ:
شيعتنا المتباذلون في ولايتنا، المتحابون في مودتنا، المتزاورون في إحياء أمرنا، الذين إن غضبوا لم يظلموا، وإن رضوا لم يسرفوا، بركة على من جاوروا، سلم لمن خالطوا‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام حضرت امیرالمومنینؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:
ہمارے شیعہ ہماری دوستی میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے،ہماری مودت کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ہمارے امر کو زندہ رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے میل جول رکھنے والے ہوتے ہیں،ہمارے شیعہ اگر غصے میں ہوں تو کسی پر ظلم نہیں کرتے اور اگر خوش ہوں تو زیادتی نہیں کرتے،ہمارے شیعہ اپنے ہمسایوں کے لیے باعث برکت ہوتے ہیں اور اپنے دوستوں پر شفیق ہوتے ہیں۔
(۲)’’عن أبي جعفر ؑ قال:
المؤمن أصلب من الجبل، الجبل يستقل منه والمؤمن لا يستقل من دينه شئ‘‘
امام محمد باقرؑنے فرمایا:
مومن پہاڑ سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے،بعض اوقات پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے لیکن مومن کو کوئی چیز اس کے دین سے الگ نہیں کرسکتی۔
(۳)’’عن عبد الرحمن بن الحجاج قال: ذكر عند أبي عبد الله ؑ البلاء وما يخص الله عز وجل به المؤمن، فقال:
سئل رسول اللهﷺ من أشد الناس بلاء في الدنيا فقال: النبيون ثم الأمثل فالأمثل، ويبتلي المؤمن بعد على قدر إيمانه وحسن أعماله فمن صح إيمانه وحسن عمله اشتد بلاؤه ومن سخف إيمانه وضعف عمله قل بلاؤه‘‘
عبدالرحمٰن بن حجاج کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں ابتلاء و آزمائش کا ذکر چھیڑا گیا اور اس بات پر گفتگو ہونے لگی کہ اللہ مومن کو کیسے آزماتا ہے تو امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
رسول خداﷺ سے پوچھا گیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ کس کی آزمائش ہوتی ہے؟
آپؐ نے فرمایا:انبیاءؑ کی سب سے زیادہ آزمائش ہوتی ہے،اس کے بعدبندے کی آزمائش ہوتی ہے جس کا مرتبہ انبیاءؑ کے قریب ہوتا ہے،پھر ہر مومن کی اس کے ایمان اور حسن عمل کے مطابق آزمائش ہوتی ہے،جس کا ایمان صحیح ہو اور عمل نیک ہو اس کی آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے اور جس کا ایمان کمزور اور عمل ضعیف ہو اس کی آزمائش کم ہوتی ہے۔
(۴)’’عن أبي عبد الله ؑ قال:
إن لله عز وجل عبادا في الأرض من خالص عباده ما ينزل من السماء تحفة إلى الأرض إلا صرفها عنهم إلى غيرهم ولا بلية إلا صرفها إليهم‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
زمین پر اللہ کے کچھ مخلص بندے ایسے بھی ہیں کہ جب آسمان سے کوئی تحفہ نازل ہوتا ہے تو اللہ ان کو اس تحفے سے محروم کردیتا ہے اور جب کوئی آزمائش نازل ہوتی ہے تو ان کی طرف بھیج دیتا ہے۔
(۵)’’عن أبي عبد الله ؑ قال: ينبغي للمؤمن أن يكون فيه ثمان خصال:
وقور عند الهزاهز، صبور عند البلاء، شكور عند الرخاء، قانع بما رزقه الله، لا يظلم الأعداء ولا يتحامل للأصدقاء، بدنه منه في تعب والناس منه في راحة، إن العلم خليل المؤمن، والحلم وزيره، والصبر أمير جنوده، والرفق أخوه واللين والده‘‘
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: مومن میں آٹھ صفات ہونی چاہئیں:
فتنہ و فساد کے وقت پر وقار ہو،آزمائش پر صبر کرنے والاہو،خوشحالی میں شکر کرنے والا ہو،خدا کے دئیے ہوئے رزق پر قانع ہو،دشمنوں پر بھی ظلم نہ کرتا ہو،دوستوں کی وجہ سے اپنے آپ کو گناہ میں ملوث نہ کرے،اپنے آپ کو زحمت میں دالے مگر دوسروں کو آسودہ رکھے،علم مومن کا دوست،حلم اس کا وزیر،صبر اس کا سپہ سالار،درگزر اس کا بھائی اور نرمی اس
کے لیے باپ کی جگہ ہے۔
(۶)’’عن أبي عبد الله ؑ قال:
المؤمن حسن المعونة، خفيف المؤونة، جيد التدبير لمعيشته، لا يلسع من جحر مرتين‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
مومن دوسروں کا بہتر معاون،کفایت شعار اور معیشت میں اچھی تدبیر کرنے والا ہوتا ہے،وہ کبھی ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔
(۷)’’عن ناجية قال: قلت لأبي جعفرؑ: إن المغيرة يقول: إن المؤمن لا يبتلي بالجذام ولا بالبرص ولا بكذا ولا بكذا؟ فقال:
إن كان لغافلا عن صاحب ياسين إنه كان مكنعا ثم رد أصابعه فقال: كأني أنظر إلى تكنيعه أتاهم فأنذرهم، ثم عاد إليهم من الغد فقتلوه، ثم قال: إن المؤمن يبتلي بكل بلية ويموت بكل ميتة إلا أنه لا يقتل نفس‘‘
ناجیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے عرض کیا کہ مغیرہ کہتا ہے کہ مومن جذام ،برص اور فلاں فلاں مرض میں مبتلا نہیں ہوتا،یہ سن کر امام ؑ نے فرمایا:
وہ مومن آل یٰسین سے غافل ہے،مومن آل یٰسین(حبیب نجار)کا ہاتھ مفلوج تھا(وہ اپنے لنجے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہتا تھا’’يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ‘‘اے میری قوم! رسولوں کی پیروی کرو)پھر امامؑ نے اپنی انگلیوں کو موڑ کر (دکھایا اور)فرمایا:میں اس وقت گویا مومن آل یٰسین کے مفلوج ہاتھ کو دیکھ رہا ہوں کہ اس نے آکر کفار کو عذاب الٰہی سے ڈرایا تھا مگر جب وہ دوسرے دن ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے شہید کردیا ، پھر امام ؑنے فرمایا:مومن ہر طرح کی آزمائش آسکتی ہے اور وہ ہر طرح کی موت مرسکتا ہے مگر خودکشی ہرگز نہیں کرتا۔

(حوالہ جات)
(کافی ج۲،ص۲۴۱)
(کافی ج۲،ص۲۵۲)
(کافی ج۲،ص۲۵۳)
(کافی ج۲،ص۲۳۰)
(کافی ج۲،ص۲۴۱)
(کافی ج۲،ص۲۵۴)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button