دعا و مناجات
(۱)’’ قال أمير المؤمنين ؑ:
الدعاء مفاتيح النجاح ومقاليد الفلاح وخير الدعاء ما صدر عن صدر نقي وقلب تقي، وفي المناجاة سبب النجاة وبالاخلاص يكون الخلاص، فإذا اشتد الفزع فإلى الله المفزع‘‘
حضرت امام علیؑ نے فرمایا:
دعا کامیابی کی چابی اور کامرانیوں کی کلید ہے،بہترین دعا وہ ہے جو صاف سینے اور پاک دل سے نکلے،مناجات نجات کا سبب ہے،اخلاص چھٹکارے کا ذریعہ ہے اور سختی کے وقت اللہ کی ذات ہی پناہ گاہ ہے۔
’’الدُّعَاءُ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ وَ مَتَى تُكْثِرْ قَرْعَ الْبَابِ يُفْتَحْ لَك‘‘
دعا مومن کی سپر ہے،جب تم بار بار دروازہ کھٹکھٹائو گے تو بالآخر وہ تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔
(۲)’’عن أبي جعفرؑ قال:
إن الله عز وجل يحب من عباده المؤمنين كل(عبد) دعاء، فعليكم بالدعاء في السحر إلى طلوع الشمس فإنها ساعة تفتح فيها أبواب السماء، وتقسم فيها الأرزاق، وتقضى فيها الحوائج العظام‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ کو اپنے مومن بندوں میں وہ بندہ پسند ہے جو اس سے خوب دعا مانگے،تمہیں سحر کے وقت سے طلوع آفتاب تک دعا مانگنی چاہیے کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور بڑی بڑی حاجتیں اسی وقت پوری ہوتی ہیں۔
(۳)’’عن ميسر بن عبد العزيز، عن أبي عبد اللهؑ قال: قال لي:
يا ميسر ادع ولا تقل: إن الامر قد فرغ منه، إن عند الله عز وجل منزلة لا تنال إلا بمسألة، ولو أن عبدا سد فاه ولم يسأل لم يعط شيئا فسل تعط، يا ميسر إنه ليس من باب يقرع إلا يوشك أن يفتح لصاحبه‘‘
میسر بن عبدالعزیز کہتے ہیں کہ امام جعفرصادقؑ نے فرمایا:
پہلے ہی ہوچکا ہے اور اب دعا مانگا کرو اور یہ خیال نہ کرو کہ تقدیر کے تحت ہر چیز کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے اور اب دعا مانگنا بے کار ہے،خدا کے ہاں ایک بہت بڑا درجہ ہے جس پر دعا کے سوا پہنچا نہیں جاسکتا،اگر بندہ اپنے منہ کو بند رکھے اور کچھ نہ مانگے تو اسے کچھ بھی نہیں ملے گا،تم خدا سے مانگو،وہ تمہیں عطا فرمائے گا،میسر!یاد رکھو جو شخص کسی دروازے کو مسلسل کھٹکھٹاتا رہے تو آخر کار وہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔
(۴)’’عن أبي جعفرؑ قال:
ما من قطرة أحب إلى الله عز وجل من قطرة دموع في سواد الليل مخافة من الله‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
رات کی تاریکی میں بغیر کسی غرض کے صرف خوف خدا سے بہنے والے آنسو کے قطروں سے بڑھ کر خدا کو کوئی اور قطرہ پسند نہیں ہے۔
(۵)’’عن عبد الله بن سنان قال: سمعت أبا عبد اللهؑ يقول:
الدعاء يرد القضاء بعد ما ابرم إبراما، فأكثر من الدعاء فإنه مفتاح كل رحمة ونجاح كل حاجة ولا ينال ما عند الله عز وجل إلا بالدعاء وإنه ليس باب يكثر قرعه إلا يوشك أن يفتح لصاحبه‘‘
عبداللہ بن سنان کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ فرماتے تھے:
دعا آئی ہوئی قضا کو بھی ٹال دیتی ہے،مسلسل دعا مانگتے رہو کیونکہ دعا ہر رحمت کی چابی اور ہر حاجت پوری ہونے کا وسیلہ ہے،جو مقام اللہ کے پاس انسانوں کے لیے محفوظ ہے انسان اسے دعا کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا،جو دروازہ بار بار کھٹکھٹایا جائے آخر کار وہ کھٹکھٹانے والے کے لیے کھل ہی جاتا ہے۔
(۶)’’عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال:
ما من عين إلا وهي باكية يوم القيامة إلا عينا بكت من خوف الله وما اغرورقت عين بمائها من خشية الله‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
قیامت کے دن ہر آنکھ روئے گی مگر تین آنکھیں نہ روئیں گی:وہ آنکھ جو حرام کاموں کو نہ دیکھے،وہ آنکھ جو اطاعت خدا میں جاگتی رہی،وہ آنکھ جو آدھی رات کو خوف خدا میں روئی ہو۔
(۷)’’عن أبي بصير، عن أبي عبد الله ؑ قال:
لا يزال المؤمن بخير ورجاء، رحمة من الله عز وجل ما لم يستعجل، فيقنط ويترك الدعاء، قلت له: كيف يستعجل؟قال: يقول: قد دعوت منذ كذا وكذا وما أرى الإجابة‘‘
ابو بصیر امام جعفر صادقؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:
مومن اس وقت تک بہتری ،دامن امید اور خدا کی رحمت سے وابستہ رہتا ہے جب تک وہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے کہ رحمت سے مایوس ہو کر دعا کرنا ہی ترک کردے، میں نے کہا:فرزند رسولؐ!جلد بازی سے کیا مراد ہے؟آپؑ نے فرمایا:وہ یہ کہے کہ میں اتنے عرصے سے دعا مانگ رہا ہوں لیکن کبھی قبول نہیں ہوتی۔
(۸)’’عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: إن المؤمن ليدعو الله عز وجل في حاجته فيقول الله عز وجل أخروا إجابته، شوقا إلى صوته ودعائه، فإذا كان يوم القيامة قال الله عز وجل: عبدي! دعوتني فأخرت إجابتك وثوابك كذا وكذا ودعوتني في كذا وكذا فأخرت إجابتك وثوابك كذا وكذا، قال: فيتمنى المؤمن أنه لم يستجب له دعوة في الدنيا مما يرى من حسن الثواب‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
مومن جب اللہ سے اپنی حاجت کے لیے دعا کرتا ہے تو اللہ کو اس کی آواز اور شوق مناجات پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس کی حاجت ابھی پوری نہ کرو اور قیامت کے دن اللہ اس سے فرمائے گا:اے میرے بندے تو نے مجھ سے دعا مانگی تھی،میں نے اس کی اجابت میں تاخیر کی تھی،اس دعا کا یہ ،یہ ثواب ہے اور تو نے فلاں فلاں موقع پر دعا مانگی تھی ،میں نے اس میں تاخیر کی تھی تو اس کے بدلے آج میں تجھے اتنا اتنا ثواب عطا کرتا ہوں،جب مومن اتنے اچھے ثواب دیکھے گا تو اس وقت کہے گا۔ کاش!دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی (اور اس کا بدلہ مجھے آج ملتا)۔
(۹)’’قال أبو الحسن موسى ؑ:
عليكم بالدعاء فإن الدعاء لله والطلب إلى الله يرد البلاء وقد قدر وقضي ولم يبق إلا إمضاؤه، فإذا دعي الله عز وجل وسئل صرف البلاء صرفة‘‘
امام موسیٰ کاظمؑ نے فرمایا:
میں تمہیںدعا کرنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ دعا خالص اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے حضور دعا سے ایسی بلائیں دور ہوجاتی ہیں جن کا فیصلہ ہو چکاہوتا ہے اور صرف ان کا نفاذ باقی ہوتا ہے اور جب بندہ اللہ سے دعا کرتا ہے اور بلا کو دور کرنے کا سوال کرتا ہے تو اللہ اس سے بلا کو دور کردیتا ہے۔
(۱۰)’’عن الرضا ؑ أنه كان يقول لأصحابه:
عليكم بسلاح الأنبياء، فقيل: وما سلاح الأنبياء؟ قال: الدعاء‘‘
امام علی رضا علیہ السلام اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے:
تم اپنے آپ کو انبیاءؑ کے ہتھیار سے مسلح کرو،انہوں نے کہا:انبیاء کا ہتھیار کیا ہے؟
آپؑ نے فرمایا:دعا۔
(حوالہ جات)
(کافی ج۲،ص۴۶۸)
(کافی ج۲،ص۴۶۸)
(کافی ج۲،ص۴۷۸)
(کافی ج۲،ص۴۶۶)
(کافی ج۳،ص۴۸۲)
(کافی ج۲،ص۴۷۰)
(کافی ج۲،ص۴۸۲)
(کافی ج۲،ص۴۹۰)
(کافی ج۲،ص۴۹۰)
(کافی ج۲،ص۴۷۰)
(کافی ج۲،ص۴۶۸)