جہاد نفس
(۱)’’عن رسول اللہ ﷺفی خطبۃ لہ
من قدر علی امراۃ او جاریۃ حراما فترکھا مخافۃ اللہ حرم اللہ علیہ النار وامنہ من الفزع الاکبر وادخلہ الجنۃ فان اصابھا حراما حرم اللہ علیہ الجنۃ وادخلہ النار۔‘‘
رسول اکرمﷺ نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
جو شخص کسی عورت یا لڑکی پر حرام کاری کے لیے قابو رکھتا ہو اور پھر وہ خوف الٰہی کی وجہ سے اس کے ساتھ حرام فعل نہ کرے تو اللہ اس پر دوزخ حرام قرار دے گا اور اسے قیامت کے خوف سے بچا لے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا اور اگر اس نے فعل قیامت کے خوف سے بچا لے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا اور اگر اس نے فعل حرام انجام دیا تو اللہ اس پر جنت کو حرام کردے گا اور اسے دوزخ میں داخل کرے گا۔
(۲)’’أَکْثَرُ مَا تَلِجُ بِهِ أُمَّتِی النَّارَ الْأَجْوَفَانِ الْبَطْنُ وَ الْفَرْجُ‘‘
میری امت کے بیشتر لوگ وہ جوفوں یعنی پیٹ اور شرم گاہ کی (حفاظت نہ کرنے کی) وجہ سے دوزخ میں جائیں گے۔
(۳)’’ قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و آله و سلم:
یقول اللّٰه تعالی لابن آدم: إن نازعک بصرک إلی بعض ما حرمت علیک فقد أعنتک علیه بطبقین فأطبق و لا تنظر، و إن نازعک لسانک إلی ما حرمت علیک فقد أعنتک علیه بطبقین فأطبق و لا تکلم، و إن نازعک فرجک إلی بعض ما حرمت علیک فقد أعنتک علیه بطبقین فأطبق و لا تأت حراما‘‘
رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:فرزند آدم!اگر تیری آنکھ تجھ سے اس چیز کے دیکھنے کا تقاضا کرے جس کا دیکھنا میں نے حرام کیا ہے تو میں نے تیری مدد کے لیے وہ پپوٹے بنائے ہیں،پپوٹے بند کرلے اور حرام چیز نہ دیکھ اور اگر تیری زبان تجھ سے اس بات کا تقاضا کرے جسے میں نے حرام کیا ہے تو میں نے تیری مدد کے لیے دو ہونٹ بنائے ہیں، ہونٹ بند کرلے اور بات نہ کر اور اگر تیری شرمگاہ تجھ سے اس چیز کا مطالبہ کرے جسے میں نے حرام کیا ہے تو میں نے تیری مدد کے لیے دو رانیں بنائی ہیں،رانوں کو ایک دوسرے سے ملا لے اور فعل حرام نہ کر۔
(۴)’’خطب علىؑ فقال:
انما اهلك الناس خصلتان، هما اهلكتا من كان قبلكم، وهما مهلكتان من يكون بعدكم، امل ينسي الآخرة، وهوى يضل عن السبيل ثم نزل‘‘
حضرت علیؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
دو چیزیں انسانوں کی بربادی کا سبب ہیں،پہلی امتوں کو بھی ان دو چیزوں نے ہلاک کیا اور آنے والی نسلوں کو بھی یہی چیزیں ہلاک کریں گی،پہلی وہ لمبی آرزوئیں ہیں جو آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور دوسری خواہش پرستی ہے جو گمراہی کا سبب بنتی ہے،انہی الفاظ کے ساتھ آپ ؑنے خطبہ مکمل کیا اور منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔
(۵)’’لَو صُمتَ الدَّهرَ كُلَّهُ ، وقُمتَ اللَّيلَ كُلَّهُ ، وقُتِلتَ بَينَ الرُّكنِ وَالمَقامِ ، بَعَثَكَ اللّه ُ مَعَ هَواكَ بالِغا ما بَلَغَ ؛ إن في جَنَّةٍ فَفي جَنَّةٍ وإن في نارٍ فَفي نارٍ‘‘
امام علیؑ نے فرمایا:
اگر تو تمام زندگی روزے رکھے اور تمام رات عبادت کرے اور رکن و مقام کے درمیان قتل ہوجائے تب بھی خدا تجھے تیری خواہشات جنت کی متقاضی ہوئیں تو جنت میں خواہشات کسی بھی درجے کی ہوں،اگر تیری خواہشات جنت کی متقاضی ہوئیں تو جنت میں جائےگا اور اگر تیری خواہشات دوزخ کی متقاضی ہوئیں تو تو دوزخ میں جائے گا۔
(۶)’’عن الإمامِ عليٍّ عليه السلام :
إنَّ رسولَ اللّه ِ صلى الله عليه و آله بَعثَ سَرِيّةً ، فلَمّا رَجَعوا قالَ: مَرْحَبا بقَومٍ قَضَوُا الجِهادَ الأصْغَرَ و بَقِيَ علَيهِمُ الجِهادُ الأكْبَرُ . قيلَ: يا رسولَ اللّه ِ ، و ما الجِهادُ الأكْبَرُ ؟ قالَ: جِهادُ النَّفْس . و قالَ عليه السلام : أفْضَلُ الجِهادِ مَن جَاهَدَ نَفْسَهُ الّتي بينَ جَنْبَيهِ‘‘
حضرت علیؑ نے فرمایا:
رسول خداﷺ نے ایک فوجی دستہ جنگ کے لیے روانہ کیا،جب وہ واپس آتا تو آپ ؐنے فرمایا: میں ان لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو جہاداصغر کر کے آئے ہیں اور جن کے ذمے جہاد اکبر باقی ہے،انہوں نے کہا:یارسول اللہؐ! جہاد اکبر کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا:نفس سے جہاد کرنا اور فرمایا:افضل ترین جہاد یہ ہے کہ تو اپنے اس نفس کے ساتھ جہاد کرے جو دونوں پہلوئوں کے درمیان ہے۔ (۷)
’’عن الامام الباقرؑ:عن رسول اﷲﷺقال: عزوجل:وعزتی،وجلالی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعُلُوّی،وارتفاعِ مکانی، لایؤثر عبد ھواہ علیٰ ھوای لاشتّتُ أمرہ،ولبّست علیہ دنیاہ،وشغلت قلبہ بھا،ولم أوتہ منھالاماقدّرت لہ۔ وعزتی، وجلالی، وعظمتی، وکبریائی، ونوری، وعُلُوّی، وارتفاع مکانی، لایؤثرعبد ھوای علیٰ ھواہ لااستحفظتہ ملا ئکتی، وکفّلت السماوات والارض رزقہ، وکنت لہ من وراء تجارةکل تاجر، وأتتہ الدنیاوھی راغمة‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
رسول اکرمﷺ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:مجھے اپنی عزت ،جلال و بزرگی،نور، بلندی اور بلند مقام کی قسم!جو بندہ اپنی پسند کو میری پسند پر ترجیح دے گا تو میں اس کے کام کو پراگندہ کردوں گا اور پھر بھی اسے دنیا میں سے وہی کچھ دوں گا جو میں نے اس کے لیے مقرر کیا ہوگا اور مجھے اپنی عزت،جلال،بزرگی،نور،بلندی اور بلند مقام کی قسم! جوبندہ اپنی پسند پر میری پسند کو ترجیح دے گا تو میں ملائکہ کو اس کی نگہبانی پر مقرر کردوں گا اور زمین و آسمان کو اس کے رزق کا کفیل بنا دوںگا اور ہر تاجر کی تجارت کے پیچھے میں اس کا مددگار رہوں گا اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس آئے گی۔
(۸)’’عن ابي عبد اللهؑ قال:
احذروا اهوائکم کما تحذرون اعدائکم فليس شى اعدى للرجال من اتباع اهوائهم و حصائد السنتهم‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
اپنی خواہشات سے ایسے بچو جیسے تم اپنے دشمنوں سے بچتے ہو کیونکہ لوگوں کے لیے اپنی خواہشات کی اتباع اور یاوہ گوئی سے بڑھ کر کوئی ان کا دشمن نہیں۔
(۹)’’قال الصادقؑ :
مِنْ أشدّ ما فرض الله على خلقه ذكر الله كثيراً ، ثمّ قال : لا أعني سبحان الله ، والحمد لله ، ولا إله إلاّ الله ، والله أكبر ، وإن كان منه ، ولكن ذكر الله عند ما أحلّ وحرّم ، فإن كان طاعة عمل بها ، وإن كان معصية تركها‘‘
امام جعفرصادقؑ نے فرمایا:
اللہ نے جو چیز بندوں پر بڑی تاکید سے فرض کی ہے وہ بکثرت ذکر الٰہی ہے، بکثرت ذکر الٰہی سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ انسان’’سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘کہے،اگرچہ تسبیحات اربعہ بھی ذکر الٰہی میں شامل ہیں لیکن ذکر الٰہی سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ کو حلال اور حرام کام کے وقت یاد رکھے،اگر انسان نے کوئی واجب کام کرنا ہو تو خدا کو یاد کرے اور اس کی برکت سے اپنا فرض ادا کرے اور اگر اسے حرام کام سے واسطہ پڑ جائے تو اس وقت اللہ کو یاد کرے اور اس کی نافرمانی سے رک جائے۔
(۱۰)’’قال الصادقؑ :
من ملک نفسہ اذا رغب، واذا رھب، واذا اشتھی، واذا غضب، واذا غضب، حرم اللّٰہ جسدہ علی النار‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
جو شخص معصیت،اطاعت،چاہت و خوشی اور غصے میں اپنے نفس پر قابو رکھے تو خدا اس کے بدن کو دوزخ کی آگ پر حرام کردے گا۔
(حوالہ جات)
(وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۴۴۹)
(کافی ج۸،ص۲۱۹)
(مستدرک الوسائل ج۲،ص۱۰۸)
(بحارالانوار ج۲۴،ص۳۶۱)
(وسائل الشیعہ ج۱۵، ص۱۶۳)
(وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۷۹)
(مستدرک الوسائل ج۵ ص۲۹۱)
(بحارالانوار ج۱۵،ص۲۰۲)