حکایات و روایاتکتب اسلامی

نماز

(۱) ’’عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ‘‘
’’لا تَتَهاوَنْ بَصَلاتِکَ، فَإنَّ النَّبیَّ ﷺ قالَ عِنْدَ مَوْتِهِ: لَیْسَ مِنّى مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِهِ، لَیْسَ مِنّى، مَنْ شَرِبَ مُسْکِراً، لا یَرِدُ عَلَىّ الْحَوْضَ، لا وَ اللهِ‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اپنی نماز کو معمولی نہ سمجھنا کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ وہ شخص مجھ سے نہیں جو اپنی نماز کو حقیر سمجھے،وہ شخص مجھ سے نہیں جو نشہ آور چیز پئے،خدا کی قسم!وہ حوض کو ثر پر میرے پاس کبھی نہیں پہنچے گا۔

(۲)’’عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ:قَالَ رَسول اللہِﷺ:‘‘
’’لَوکَانَ عَلٰی بَابِ دَارِ اَحَدِکُم نَھَرٌ فَاغسَلَ فِی کُلِّ یَوم مِنّہُ خَمسَ مَرَاتٍ اَکَانَ یَبقٰی فِی جَسَدِہٖ مِنَ الدَّرَنِ شَئٌ؟قُلناَ لَا،قالَ: فَاِنَّ مَثَلَ الصَّلاةِ كَمَثَلِ النَّهْرِ الْجارى، كُلَّما صُلِّىَ صَلاةٌ كَفَّرَتْ ما بَينَهُما مِنَ الذُّنوبِ‘‘
امام باقر علیہ السلام نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر کسی کے دروازے کے سامنے ایک نہر بہتی ہو اور وہ روزانہ پانچ مرتبہ اس میں نہائے تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ہم نے کہا:نہیں۔آپؑ نے فرمایا: نمازوں کے درمیانی گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(۳)’’عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ عن النَّبیَّ ﷺ قَالَ‘‘
’’إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ وَ تَوَجَّهْتَ وَ قَرَأْتَ أُمَّ الْکِتَابِ وَ مَا تَیَسَّرَ لَکَ مِنَ السُّوَرِ ثُمَّ رَکَعْتَ فَأَتْمَمْتَ رُکُوعَهَا وَ سُجُودَهَا وَ تَشَهَّدْتَ وَ سَلَّمْتَ غُفِرَ لَکَ کُلُّ ذَنْبٍ فِیمَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الصَّلَاةِ الَّتِی قَدَّمْتَهَا إِلَى الصَّلَاةِ الْمُؤَخَّرَةِ فَهَذَا لَکَ فِی صَلَاتِکَ‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا:
جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو اور خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہو،اس کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری کوئی سورہ جو آسانی سے پڑھ سکتے ہو،پڑھتے ہو،پھر رکوع کرتے ہو اور رکوع و سجود کو صحیح طریقے سے انجام دیتے ہو اور تشہد و سلام بجا لاتے ہو تو پچھلی نماز سے اس نماز تک جتنے گناہ گئے تھے وہ معاف کردئیے جاتے ہیں،یہ ہے تمہاری نماز کا فائدہ۔
(۴)’’عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ:قَالَ رسول الله ﷺ:
’’لا یَزالُ الشَّیطانُ ذَعِرًا مِنَ المُؤمِنِ ما حافَظَ عَلَی الصَّلواتِ الخَمسِ، فَإِذا ضَیَّعَهُنَّ تَجَرَّأَ عَلَیهِ فَأَدخَلَهُ فِی العَظائِمِ‘‘
امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا:
جب تک مومن پنچ وقتہ نماز کی حفاظت کرتا ہے اس وقت تک ابلیس اس سے خوفزدہ رہتا ہے اور جب وہ نماز کو ضائع کردیتا ہے تو ابلیس اس پر قابو پالیتا ہے اور اسے گناہان کبیرہ میں مبتلا کردیتا ہے۔

(۵)’’لَا تَدَعِ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّداً فَإِنَّ مَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ مِلَّةُ الْإِسْلَامِ‘‘
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کی خدمت حاضر ہوا اور بولا:یا رسول اللہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں،آپؐ نے فرمایا:
جان بوجھ کر نماز ترک نہ کرنا کیونکہ جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والادین اسلام سے خارج ہے۔

(۶)’’عن مَسْعدةِ بن صدقةٍ : قال أبو عبدِ اللّه عليه السلام مَا بَالُ الزَّانِی لَا تُسَمِّیهِ کَافِراً وَ تَارِکُ الصَّلَاةِ قَدْ سَمَّیْتَهُ کَافِراً وَ مَا الْحُجَّةُ فِی ذَلِکَ فَقَالَ:
لِأَنَّ الزَّانِیَ وَ مَا أَشْبَهَهُ إِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ لِمَکَانِ الشَّهْوَةِ لِأَنَّهَا تَغْلِبُهُ وَ تَارِکُ الصَّلَاةِ لَا یَتْرُکُهَا إِلَّا اسْتِخْفَافاً بِهَا وَ ذَلِکَ لِأَنَّکَ لَا تَجِدُ الزَّانِیَ یَأْتِی الْمَرْأَةَ إِلَّا وَ هُوَ مُسْتَلِذٌّ لِإِتْیَانِهِ إِیَّاهَا قَاصِداً إِلَیْهَا وَ کُلُّ مَنْ تَرَکَ الصَّلَاةَ قَاصِداً إِلَیْهَا فَلَیْسَ یَکُونُ قَصْدُهُ لِتَرْکِهَا اللَّذَّةَ فَإِذَا نُفِیَتِ اللَّذَّةُ وَقَعَ الِاسْتِخْفَافُ وَ إِذَا وَقَعَ الِاسْتِخْفَافُ وَقَعَ الْکُفْر‘‘
مسعدہ بن صدقہ کہتے ہیں کہ امام جعفرصادقؑ سے پوچھا گیا:مولا!اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم زانی کو کافر نہیں کہتے اور تارک نماز کو کافر کہتے ہیں،اس بات کی کیا دلیل ہے؟ امام عالی مقام ؑنے فرمایا: زانی اور اس جیسا کوئی اور شخص جب بدکاری کرتا ہے تو وہ شہوت سے مغلوب ہوکر ایسا کرتا ہے مگر تارک نماز جب نماز چھوڑتا ہے تو وہ ایسا صرف نماز کو حقیر سمجھ کر کرتا ہے کیونکہ جب زانی لذت حاصل کرنے کے ارادے سے بدکار عورت سے ملاقات کرتا ہے تو اسے لذت ملتی بھی ہے مگر جب تارک نماز قصداً نماز کو ترک کرتا ہے تو وہ ایسا لذت حاصل  کرنے کیلئے نہیں کرتا،جب (تارک نماز سے) لذت کو الگ کردیا جائے تو نماز کو حقیر سمجھنا باقی رہ جائے گا اور جب نماز کو حقیر سمجھا تو کفر واقع ہوگیا۔

(۷)’’عن عبدالله بن سنان، عن ابی عبدالله علیه‏السلام قال: مرّ بالنبی رجل و هو یعالج فی بعض حجزاته فقال: یا رسول الله صلی ‏الله علیه و آله و سلم ألا اکفیک؟ قال: شأنک، فلما فزغ قال رسول الله صلی‏الله علیه و آله و سلم: حاجتک؟ قال: الجنة، فاطرق رسول الله صلی ‏الله علیه و آله و سلم ثم قال: نعم، فلما ولّی قال له: یا عبدالله اعنّا بطول السجود‘‘
امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول خداﷺ اپنے ایک حجرے کی مرمت کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا:یا رسول اللہؐ!میں آپ ؐکی مدد کروں؟ آپؐ نے فرمایا:جو تمہاری مرضی،جب کام مکمل ہوگیا تو آپؐ نے اس سے اس کی حاجت پوچھی،اس نے عرض کیا:میں جنت چاہتا ہوں،آپؐ نے فرمایا:اچھا! جب وہ جانے لگا تو آپ ؐ نے فرمایا:اے بندہ خدا!خدا کے حضور لمبے سجدے کرکے ہماری مدد کرو۔
(۸)’’عَنْ زَیْدٍ الشَّحَّامِ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِؑ قَالَ: سَمِعْتُهُ یَقُولُ أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ و جَلَّ الصَّلَاهُ و هِیَ آخِرُ و صَایَا الْأَنْبِیَاءِ علیه السلام فَمَا أَحْسَنَ الرَّجُلَ یَغْتَسِلُ أَوْ یَتَوَضَّأُ فَیُسْبِغُ الْوُضُوءَ ثُمَّ یَتَنَحَّى حَیْثُ لَا یَرَاهُ أَنِیسٌ فَیُشْرِفُ عَلَیْهِ و هُوَ رَاکِعٌ أَوْ سَاجِدٌ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ نَادَى إِبْلِیسُ یَا ویْلَاهْ أَطَاعَ و عَصَیْتُ و سَجَدَ و أَبَیْت‘‘
زید شحام کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفرصادقؑ کو یہ فرماتے سنا: اللہ کو تمام اعمال میں نماز سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ انبیائے کرامؑ کی آخری وصیت ہے اور کسی انسان کے لیے یہ بات کتنی اچھی ہے کہ انسان غسل یا اچھی طرح وضو کر کے ایسی جگہ چلا جائے جہاں اسے کوئی بھی دیکھنے والانہ ہو اور وہاں خدا کے حضور رکوع اور سجدے کرے،جب بھی کوئی شخص طویل سجدہ کرتا ہے تو ابلیس واویلا کرتا ہے کہ ہائے افسوس! اس نے خدا کی اطاعت کی اور میں نے نافرمانی ،اس نے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا۔

(حوالہ جات)

(کافی ج۳،ص۲۷۹)

(من لایحضرہ الفقیہ ج۲،ص۲۰۲)

(کافی ج،۳ص۲۶۹)

(کافی،ج۳ص۴۸۸)

(کافی ج۲،ص۱۳)

(کافی ج۳،ص۲۶۶)

(کافی ج۳،ص۲۶۴)

Related Articles

Back to top button