حکایات و روایاتکتب اسلامی

صدقہ و خیرات

(۱)’’ قال رسول اللهﷺ: الأيدي ثلاث: يد الله العليا ويد المعطي التي تليها ويد
المعطى أسفل الأيدي، فاستعفوا عن السؤال ما استطعتم إن الأرزاق دونها حجب فمن شاء قنى حياءه وأخذ رزقه ومن شاء هتك الحجاب وأخذ رزقه والذي نفسي بيده لان يأخذ أحدكم حبلا ثم يدخل عرض هذا الوادي فيحتطب حتى لا يلتقي طرفاه ثم يدخل به السوق فيبيعه بمد من تمر ويأخذ ثلثه ويتصدق بثلثيه خير له من أن يسأل الناس أعطوه أو حرموه‘‘
رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
ہاتھ تین طرح کے ہوتے ہیں:اللہ کا ہاتھ جو سب سے اوپر ہے،اس کے بعد عطیہ دینے والے شخص کے ہاتھ کا رتبہ ہےاور لینے والاہاتھ سب سے پست ہاتھ ہے لہٰذا جتنا ہوسکے مانگنے سے پرہیز کرو،رزق کے آگے کئی پردے ہیں،اب ہر آدمی کی اپنی مرضی ہے چاہے تو شرم کو باقی رکھ کر رزق حاصل کرے اور چاہے توبے شرم بن کر روزی حاصل کرے،اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!اگر تم میں سے کوئی شخص رسی لے کر جنگل میں چلا جائے اور محنت سے اتنی لکڑیاں اکٹھی کرے کہ رسی کے دونوں سرے ایک دوسرے سے مل نہ سکیں اور پھر وہ لکڑیاں شہر میں لاکر فروخت کرےاور اس کی قیمت مٹھی بھر کھجوریں ہوں اور وہ اپنی اس اجرت کا ایک تہائی خود لے لے اور دو تہائی حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کردے تو یہ عمل اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے،اب چاہے لوگ اسے کچھ دیں یا نہ دیں۔
(۲)’’از وصيت هاى آن حضرت است به حضرت مجتبى عليه السّلام:
وَ اِعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ طَرِیقاً ذَا مَسَافَةٍ بَعِیدَةٍ وَ مَشَقَّةٍ شَدِیدَةٍ وَ أَنَّهُ لاَ غِنَى بِكَ فِیهِ عَنْ حُسْنِ اَلاِرْتِیَادِ وَ قَدْرِ بَلاَغِكَ مِنَ اَلزَّادِ مَعَ خِفَّةِ اَلظَّهْرِ فَلاَ تَحْمِلَنَّ عَلَى ظَهْرِكَ فَوْقَ طَاقَتِكَ فَیَكُونَ ثِقْلُ ذَلِكَ وَبَالاً عَلَیْكَ وَ إِذَا وَجَدْتَ مِنْ أَهْلِ اَلْفَاقَةِ مَنْ یَحْمِلُ لَكَ زَادَكَ إِلَى یَوْمِ اَلْقِیَامَةِ فَیُوَافِیكَ بِهِ غَداً حَیْثُ تَحْتَاجُ إِلَیْهِ فَاغْتَنِمْهُ وَ حَمِّلْهُ إِیَّاهُ وَ أَكْثِرْ مِنْ تَزْوِیدِهِ وَ أَنْتَ قَادِرٌ عَلَیْهِ فَلَعَلَّكَ تَطْلُبُهُ فَلاَ تَجِدُهُ ‘‘
حضرت علیؑ نے امام حسنؑ کو وصیت کی: بیٹا!یاد رکھو کہ تمہیں ایک طویل سفر در پیش ہے،اس راہ میں انتہائی دشوار موڑ آئیں گے،اس راہ پر چلنے کے لیے تمہیں نیکی کے زاد راہ کی شدید ضرورت ہے،تم اتنا توشہ اپنے ساتھ لے کر جائو جس سے تم منزل مقصود پر پہنچ سکو اور اپنی پشت کو ہلکا رکھو یعنی گناہوں کا بوجھ اپنی پشت پر مت لادو،یادرکھو!اپنی پیٹھ پر اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ مت اٹھائو کہ اس کا بار تمہارے لیے وبال بن جائے اور جب تمہیں ایسے فاقہ کش لوگ مل جائیں جو تمہارا بوجھ اٹھائیں اور قیامت کے دن جب تم کو اس کی ضرورت ہو وہ تمہارے حوالے کردیں تو اسے غنیمت جانو اور اپنا زاد راہ ان کی پشت پر رکھ دو اور یوں اپنا توشہ آگے روانہ کردو،اس وقت تم یہ کام کرسکتے ہو ممکن ہے کہ پھر تم ایسے افراد تلاش کرتے رہو لیکن تم انہیں نہ پاسکو ۔
(۳)’’عن أبي بصير، عن أبي جعفرؑ قال: لان أحج حجة أحب إلي من أن أعتق رقبة ورقبة حتى انتهى إلى عشرة ومثلها حتى انتهى إلى سبعين ولان أعول أهل بيت من المسلمين أشبع جوعتهم وأكسو عورتهم وأكف وجوههم عن الناس
أحب إلي من أن أحج حجة وحجة وحجة حتى انتهى إلى عشر وعشر وعشر ومثلها (ومثلها) حتى انتهى إلى سبعين‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
ستر غلام آزاد کرنے سے مجھے ایک حج کرنا زیادہ پسند ہے اور ایک مسلمان خاندان کی روٹی روزی کا بندوبست کرنا اور کپڑے دینا اور ان کی عزت بچانا مجھے ستر حج کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
(۴)’’عن أبي جعفر ؑ قال:
إن الصدقة لتدفع سبعين بلية من بلايا الدنيا مع ميتة السوء، إن صاحبها لا يموت ميتة السوء أبدا مع ما يدخر لصاحبها في الآخر‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
صدقے سے دنیا کی ستر بلائیں دور ہوتی ہیں اور صدقہ بری موت سے بچاتا ہے،صدقہ دینے والے شخص کو بری موت نہیں آئے گی،اس کے علاوہ اس کے لیے آخرت میں بہت ثواب ذخیرہ ہوتا ہے۔
(۵)’’عن أبي ولاد قال: سمعت أبا عبد الله ؑ يقول:
بكروا بالصدقة وارغبوا فيها فما من مؤمن يتصدق بصدقة يريد بها ما عند الله ليدفع الله بها عنه شر ما ينزل من السماء إلى الأرض في ذلك اليوم إلا وقاه الله شر ما ينزل من السماء إلى الأرض في ذلك اليوم‘‘
ابوولاد کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ کو یہ کہتے ہوئے سنا:
اپنی صبح کا آغاز صدقے سے کیا کرو اور اس کام کو پسند کرو کیونکہ جو مومن خدا سے جزا حاصل کرنے کی نیت سے صدقہ دے تاکہ خدا اس سے اس دن آسمان سے زمین پر نازل ہونے والے شر کو دور رکھے تو یقیناً خدا اسے اس دن کے اس شر سے محفوظ رکھے گا جو آسمان سے زمین پر نازل ہوگا۔
(۶)’’عن عبد الله بن سنان قال: قال أبو عبد الله ؑ:
داووا مرضاكم بالصدقة وادفعوا البلاء بالدعاء واستنزلوا الرزق بالصدقة فإنها تفك من بين لحى سبعمائة شيطان وليس شئ أثقل على الشيطان من الصدقة على المؤمن وهي تقع في يد الرب تبارك وتعالى قبل أن تقع في يد العبد‘‘
عبداللہ بن سنان کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
اپنے بیماروں کی دوا صدقہ دے کر کرو اور بلائوں کو دعا کے ذریعے سے دور کرو اور صدقے کے ذریعے سے روزی اپنی جانب کھینچ لو کیونکہ صدقہ سات سو شیطانوں کے منہ سے روزی کھینچ نکالتا ہے،مومن کو صدقہ دینا شیطان کو بہت گراں گزرتا ہے اور صدقہ مستحق کے ہاتھ میں جانےسے پہلے ہی خدا کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے۔
(۷)’’قال أبو عبد اللهؑ:
اعط الكبير والكبيرة والصغير والصغيرة ومن وقعت له في قلبك رحمة وإياك وكل وقال: بيده وهزها‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
بوڑھے بڑھیا،بچے بچی اور جس کے لیے بھی تمہارے دل میں جذبہ رحم پیدا ہو اسے صدقہ دے دو مگر ان لوگوں صدقہ نہ دیا کرو،پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا،غالباً اس سے مراد مخالفین ولایت آل محمدؑ ہیں۔
(۸)’’عن عمرو بن أبي نصر قال: قلت لأبي عبد الله ؑ: إن أهل السواد يقتحمون علينا وفيهم اليهود والنصارى والمجوس فنتصدق عليهم فقال: نعم‘‘
عمرہ بن ابی نصر نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا:ہمارے پاس غریب دیہاتی خیرات مانگنے آتے ہیں،ان میں کچھ یہودی،نصرانی اور مجوسی بھی ہوتے ہیں،کیا ہم انہیں صدقہ دے سکتے ہیں؟
آپ ؑ نے فرمایا:ہاں!

(حوالہ جات)
(کافی ج۴،ص۲۰)
(نہج البلاغہ،مکتوب۳۱،امام حسنؑ کے نام وصیت)
(کافی ج۴،ص۲)
(کافی ج۴،ص۶)
(کافی ج۴،ص۵)
(کافی ج۴،ص۳)
(کافی ج۴،ص۳)
(کافی ج۴،ص۱۴)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button