حکایات و روایاتکتب اسلامی

شعب ابی طالبؑ

جب کفارقریش کو پتا چلا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے والے مسلمان نجاشی کے دیس میں امن چین سے رہ رہے ہیں اور جو مکہ میں ہیں وہ ابوطالبؑ کے زیر سایہ ہیں تو انہوں نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور فیصلہ کیا کہ جب تک ابوطالبؑ اور بنی ہاشم محمد مصطفیٰ کو ان کے حوالے نہ کریں ان کا بائیکاٹ کیا جائے اور ان سے کسی قسم کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی ان سے رشتے داری کی جائے۔
حضرت ابوطالبؑ نے حالات کی سنگینی کے تناظر میں بنی ہاشم کا اجلاس بلایا اور کہا کہ ہم محمد مصطفیٰﷺ کو کسی قیمت پر قریش کے حوالے نہیں کریں گے،لہٰذا یہ مناسب ہوگا کہ ہم شہر مکہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن میں چلے جائیں۔
ابولہب کے علاوہ بنی ہاشم کے تمام افراد نے ابوطالبؑ کی اس تجویز کا خیرمقدم کیا، چنانچہ ابوطالبؑ نبی اکرمﷺ اوراپنے خاندان سمیت ایک درے میں منتقل ہوگئےاور درے کے دونوں اطراف میں انہوں نے پہرے دار کھڑے کردئیے،جب رات کا اندھیرا پھیلتا تو حضرت ابوطالبؑ،رسول اکرمؐ کو ان کے بستر سے اٹھا کر اپنے بیٹے حضرت علیؑ کے بستر پر سلاتے اور حضرت علیؑ کو آپ کے بستر پر سلادیتے تھے اور حضرت حمزہؓ رات کے وقت شمشیر بکف پہرہ دیا کرتے تھے،بنی ہاشم محصور ہوگئے اور کوئی ان کو سودا فروخت  نہیں کرتا تھا۔
شعب ابی طالبؑ میں بنی ہاشم نے سخت پریشانیاں دیکھیں اور بھوک کی وجہ سے انہیں پتے کھانے پڑے اور بعض اوقات چمڑے کو رات کے وقت پانی میں بھگو کر رکھ دیا جاتا تھا اور صبح کو بنی ہاشم کے بچے اسے چباتے،سارا سال مکہ کے بازار سے بنی ہاشم کو کوئی سودا نہیں ملتا تھا،البتہ جب حج کا موسم آتا اور دور دراز سے لوگ مکہ آتے تو بنی ہاشم کے افراد شعب ابی طالبؑ سے نکل کر ان سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے،اگر کوئی کافر انہیں کچھ خریدتے ہوئے دیکھتا تو وہ ان اشیاء کی دگنی قیمت ادا کر کے خود خرید لیتا اور بنی ہاشم کو محروم ہونا پڑتا تھا اور اگر کوئی تاجر بنی ہاشم کو چیزیں فروخت کرتا تو قریش کے اوباش لڑکے اس کو لوٹ لیا کرتے تھے۔
مسلسل بھوک اور بیماری کی وجہ سے بنی ہاشم کے بچے بلکتے تھے اور ان کی تکلیف کی آواز گھاٹی سے باہر سنائی دیتی تھی جس سے قریش کے بہت سے لوگوں کے دل پسیج جاتے تھے۔
محافظ نبوت حضرت ابوطالبؑ رسول خداﷺ کے بستر کے ساتھ اپنا بستر بچھاتے اور دوسری طرف اپنے کسی بیٹے کو لٹاتے تھے۔
ابن سعد کی روایت ہے کہ بچے جب بھوک سے بلکتے تھے تو ان کی آواز سن کر کفار قریش خوش ہوتے تھے لیکن بعض لوگوں کو ترس بھی آتا تھا۔
ایک دن حضرت خدیجہؑ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے تھوڑے سے گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ حضرت خدیجہؑ کے پاس بھیجے تو راستے میں ابوجہل نے اس سے گیہوں چھیننے کی  کوشش کی۔
اتفاق سے ابوالبختری کہیںسے آگیا،وہ اگرچہ کافر تھا لیکن اسے رحم آیا اور کہا: ایک شخص اپنی پھوپھی کےلیے کچھ کھانے کی چیز بھیجتا ہے تو تو کیوں روکتا ہے؟
مسلسل تین برس تک آنحضرتﷺ اور تمام بنی ہاشم نے یہ مصیبتیں جھلیں،بالآخر کچھ لوگوں کو رحم آیا اور خود انہی کی طرف سے اس معاہدے کو توڑنے کی باتیں ہونے لگیں۔
ہشام عامری خاندان بنی ہاشم کا قریبی عزیز اور اپنے قبیلے کا سردار تھا،وہ چوری چھپے بنی ہاشم کو غلہ وغیرہ بھیجتا رہتا تھا۔
ایک دفعہ اس نے عبدالمطلب ؑکے نواسے زبیر سے کہا:کیوں زبیر!کیا تم کو یہ اچھا لگتا ہے کہ تم کھائو پیو:ہر قسم کا لطف اٹھائو اور تمہارے ماموں کو ایک دانہ تک نصیب نہ ہو؟
زبیر نے کہا:کیا کروں میں اکیلاہوں،اگر ایک شخص بھی میرا ساتھ دے تو میں اسی ظالمانہ معاہدے کو پھاڑ کر پھینک دوں۔ ہشام نے کہا:میں تمہارے ساتھ ہوں،دونوں مل کر مطعم بن عدی کے پاس گئے، ابوالبختری،ابن ہشام،زمعہ بن اسود نے بھی اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔
دوسرے دن یہ لوگ اکٹھے ہوگئے اور کہا:اے اہل مکہ!یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم تو آرام سے زندگی گزاریں اور بنی ہاشم آب ودانہ کیلئے ترستے رہیں۔
ابوجہل کہنے لگا:جب تک بنی ہاشم محمدﷺکو ہمارے حوالے نہیں کرتے ان کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔
اس اثنا میں آنحضرتﷺ نے اپنے چچا حضرت ابوطالبؑ سے فرمایا:چچا جان!  مجھے اللہ نے خبر دی ہے کہ قریش نے جو ظالمانہ معاہدہ لکھا تھا اس کی عبارت کو دیمک چاٹ گئی ہے اور اس میں صرف’’بِاسْـمِكَ اللّهُـمَّ ‘‘کے الفاظ باقی ہیں۔
حضرت ابو طالبؑ یہ سن کر حرم کعبہ میں آئےاور فرمایا:میرے بھتیجے نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ نے دیمک کو تمہارے معاہدے پر مسلط کیا ہے اور اس میں ’’بِاسْـمِكَ اللّهُـمَّ‘‘ کے سوا باقی تمام معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے،اگر میرے بھتیجے کی خبر صحیح ہے تو تم اس فرسودہ معاہدے کے ختم ہونے کا اعلان کردو اور اگر میرے بھتیجے کی خبر غلط ثابت ہوئی تو میں اپنے بھتیجے کی حمایت کرنا چھوڑ دوں گا۔
جب معاہدے کو اتار کر دیکھا گیا تو تمام عبارت کو دیمک چاٹ چکی تھی اس میں صرف’’بِاسْـمِكَ اللّهُـمَّ‘‘ کے الفاظ باقی تھے۔
چنانچہ مطعم نے آگے بڑھ کر اس دیمک زدہ معاہدے کو پھاڑ کر پھینک دیا،مطعم بن عدی،عدی بن قیس،زمعہ بن اسود،ابوالبختری اور زبیر سب ہتھیار باندھ کر بنی ہاشم کے پاس گئے اور ان کو گھاٹی سے نکال لائے۔

(حوالہ)

(طبقات ابن سعد،ناسخ التواریخ ص۴۹۳)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button