رزق حلال کی اہمیت
ابو جعفر فزاری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام جعفر صادقؑ نے اپنے غلام مصادف کو بلایا اور فرمایا:میرے افراد خانہ زیادہ ہوگئے ہیں اس لیے میں کچھ مالی تنگی محسوس کرتا ہوں،تم مجھ سے ایک ہزار دینار لو اور اس سے سامان تجارت خرید کر مصر جائو۔
مصارف نے سامان تجارت خریدا اور تاجروں کے ساتھ مصر روانہ ہوگیا ،جب یہ قافلہ مصر کے قریب پہنچا تو مصر سے آنے والے تاجروں سے ان کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنے مال کی قیمت کے متعلق ان سے تبادلہ خیال کیا۔
مصر سے آنے والے قافلے نے بتایا کہ تمہارے پاس جو مال ہے مصر کے بازار میں یہ اس وقت نایاب ہے اس لیے تمہارا مال فوراً بک جائے گا،تاجروں نے یہ سن کر آپس میں عہد کیا کہ ہم اپنا مال دوگنی قیمت پر فروخت کریں گے،اس سے کم نہیں بیچیں گے،چنانچہ تاجروں کا قافلہ مصر میں داخل ہوگیا،وہاں بازار میں ان کے مال کی قلت تھی، لہٰذا لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ مال خریدنا شروع کیا اور تاجروں نے باہمی معاہدہ کے تحت دوگنی قیمت پر اپنا مال فروخت کیا۔
چند دنوں کے بعد مصادف واپس آیا اور دو تھلیاں امامؑ کی خدمت میں پیش کیں اور عرض کیا:یہ ایک ہزار دینا ر آپ کا اصل سرمایہ ہے اور دوسری تھیلی میں ایک ہزار دینار منافع ہے۔
امام جعفر صادقؑن ے فرمایا:مگر یہ منافع تو بہت زیادہ ہے تم نے اتنا منافع کیسے کمالیا؟
مصادف نے واقعہ کی پوری تفصیل بتائی تو امام ؑ نے فرمایا:’’سبحان الله ، تحلفون على قوم مسلمين ألا تبيعوهم إلا بربح الدينار دينارا‘‘سبحان اللہ!تم مسلمان قوم کے لیے قسم کھاتے ہو کہ ان سے ایک دینار کے بدلے ایک دینار یعنی سو فیصد منافع حاصل کروگے۔
پھر آپ ؑ نے اصل سرمایہ والی تھیلی اٹھالی اور دوسری تھیلی غریبوں میں تقسیم کردی اور فرمایا: ’’‘‘تلواروں سے لڑنا رزق حلال تلاش کرنے سے زیادہ آسان ہے۔
(حوالہ)
(فروع کافی ج۵،ص۱۶۱)