شہوت کا انجام
دریائےفرات کے کنارے اساطرون بادشاہ حکومت کرتا تھا،اس کی حکومت اس قدر مضبوط تھی کہ شاپور ذوالاکتاف اس سے مرعوب تھا مگر جب رومیوں سے شاپور کی صلح ہوگئی تو اس نے اپنی بد فطرتی کی وجہ سے اساطرون کے چھوٹے سے ملک پر حملہ کردیا اور آخر کار اس کے دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا۔
اساطرون ایک ایسے قلعہ میں بند ہوگیا جہاں کئی سالوں کے لیے کھانے پینے کا سامان موجود تھا۔
شاپور نے تمام حربے آزما ڈالے لیکن وہ کسی طرح بھی قلعہ میں داخل نہ ہوسکا،ایک دن اساطرون کی بیٹی قلعہ کی برجی پر کھڑی دشمن کی فوج کا نظارہ کررہی تھی کہ اس کی نظر شاپور پر پڑی،وہ اس کی مردانہ وجاہت سے بے حد متاثر ہوئی اور اسے پیغام بھیجا اگر تم مجھ سے شادی کرنے کا وعدہ کرو تو میں تمہارے لیے قلعہ کے دروازے کھلوا دوں گا۔
شاپور نے وعدہ کیا کہ شہر کی تسخیر کے فوراً بعد میں تم سے شادی کرلوں گا۔
شہزادی نے ایک رات پہرے داروں کو دروازہ کھولنے کا حکم دیا،جیسے ہی دروازہ کھلا،شاپور کی فوج ٹڈی دل کی طرح قلعہ میں گھس گئی اور آن کی آن میں قلعہ پر قبضہ کر لیا اور اساطرون کو قتل کردیا۔
فتح کے بعد شاپور نے اساطرون کی بیٹی سے شادی کرلی،چند دن گزرے کہ شاپور نے اپنی بیوی کی پشت پر ایک نشان دیکھا،اس نے بیوی سے اس نشان کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:بات دراصل یہ ہے کہ میں رات جس بستر پر سوئی تھی اس پر ایک پتہ تھا،اسی پتے کا نشان میری پشت پر ثبت ہوگیا۔
یہ سن کر شاپور بڑا حیران ہوا اور کہا: تم نے تو بڑی نرم و نازک جلد پائی ہے،اس کی بیوی نے کہا: جی ہاں میرے باپ نے بڑے نازو نعم سے مجھے پالاتھا،وہ ہمیشہ مجھے کھانے میں گوسفند کا مغز اور انڈے کی زردی اور شہد کھلایا کرتا تھا اسی لیے میری جلد اتنی نرم ہے۔
یہ سن کر شاپور نے اپنی گردن جھکالی اور کافی دیر تک سوچتا رہا،پھر اس نے سر اٹھا کر کہا: جب تو نے اتنے مہربان باپ سے وفا نہ کی تو مجھ سے کیسے وفا کرے گی؟
پھر اس نے حکم دیا کہ اس کےبالوں کو گھوڑے کی دم سے باندھ کر خار زار مقام پر اس وقت تک گھسٹیا جائے جب تک یہ مر نہ جائے۔
(حوالہ)
(تاریخ کامل،ابن اثیر جلد۱)