سورۂ دہر کا شان نزول
ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حسنین کریمین علیہما السلام بیمار ہوئے، چنانچہ رسول خدا ﷺ کچھ لوگوں کے ساتھ عیادت کو تشریف لائے اور حضرت علیؑ سے فرمایا:بہتر ہوتا اگر تم اپنے بچوں کی صحت کے واسطے نذر کرتے۔
حضرت علیؑ،حضرت فاظمہؑ اور ان کی خادمہ فضہؑ نے تین تین روزوں کی نذر کی۔
جب دونوں شہزادے تندرست ہوگئے اور نذر پوری کرنے کا وقت آیا تو گھر میں کچھ نہیں تھا۔
حضرت علیؑ نے شمعون یہودی سے تین صاع جَو ادھار لیے،جناب سیدہؑ نے ایک صاع جَو پیسے،پانچ روٹیاں پکائیں اور شام کو افطار کرنا چاہتے تھے کہ ایک سائل نے آواز دی:اے اہل بیت محمدؐ!تم پر سلام،میں ایک غریب مسلمان ہوں مجھے کھانا دو،خدا تمہیں جنت کا کھانا کھلائے گا۔
یہ سن کر سب نے اپنے حصے کی روٹیاں اٹھا کر اس فقیر کو دے دیں اور خود پانی سے افطار کر کے رات کو سور ہے،دوسرے دن پھر روزہ رکھا،افطار کے وقت جناب سیدہ ؑ نے پھر پانچ روٹیاں پکائیں اور افطار کرنے بیٹھے تو ایک یتیم نے آواز دی اور سب نے اپنی روٹی اس کو دیدی اور پانی سے افطار کیا،تیسرے دن پھر روزہ افطار کرنے بیٹھے تو ایک قیدی نے آواز دی،آواز سن کر سب نے اپنی اپنی روٹی قیدی کو دیدی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں سورۂ دہر نازل فرماکئی جس میں ان کی نذر پوری کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیۡرًا ، وَ یُطْعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا ، اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا ‘‘
وہ لوگ جو (دنیا میں)نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوگی اور خدا کی محبت میں مسکین،یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں(اور ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف خدا کی خاطر کھلا رہے ہیں،ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
(حوالہ)
(سورہ دہر:آیت۷تا۹)
(زمخشری،تفسیر کشاف)