ریاکار رسوا ہوتا ہے
اصمعی کہتےہیں کہ بلال بن ابی بردہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دربار میں وارد ہوا،اس نے خلیفہ سے علیک سلیک کی اور کچھ دیر بیٹھ کر دربار سے چلا گیا کیونکہ اس نے مسجد کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا،وہ ہمیشہ ذکر الٰہی میں مصروف رہا کرتا تھا،خلیفہ نے اپنے مشیر ،علاء بن مغیرہ سے کہا کہ میں اس شخص کی عبادت سے بہت متاثر ہوں،اگر اس کا باطن اس کے ظاہر جیسا ہے تو پھر یہ شخص عراق کی گورنری کے قابل ہے۔
علاء نے کہا:میں اس کو آزماتا ہوں اور اس کے باطن کی آپ کو خبر کرتا ہوں،علاءمسجد میں گیا تو دیکھا کہ بلال نماز میں مشغول ہے،اس نے کہا کہ آپ نماز ذرا مختصر کیجئے،مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
اس نے نماز مختصر کی تو علاء نے کہا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں خلیفہ کا خاص آدمی ہوں اور وہ مجھ پر بے حد اعتماد کرتا ہے،اگر میں آپ کے لیے سفارش کروں تو وہ آپ کو عراق کا گورنر بنا دے گا لیکن پہلے مجھے یہ بتائیے کہ آپ اس کے بدلے میں مجھے کیا دیں گے؟
بلال نے کہا:اگر تم نے مجھے عراق کا گورنر بنوا دیا تو میں تمہیں ایک لاکھ بیس ہزار درہم دوں گا۔
علاء نے کہا:آپ مجھے یہ بات لکھ کر دیں تاکہ میں مطمئن ہوجائوں ،اس نے تحریر لکھ کر دے دی،علاء وہ تحریر لے کر خلیفہ کے پاس آیا اور اسے وہ تحریر دکھائی،
خلیفہ نے کوفہ کے گورنر کو خط لکھا جس میں تحریر تھا کہ بلال اپنی عبادت و ریاضت کے ذریعے ہمیں دھوکا دینا چاہتا تھا اور ہم بھی دھوکا کھانے ہی والے تھے،اب جو ہم نے اسے آزمایا تو معلوم ہوا کہ یہ آدمی لالچی ہے۔
’’الاذکیاء‘‘کے مؤلف علامہ ابن جوزی یہ حکایت لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:
ایک شیرین سخن و اعظ نے ایک بادشاہ کو نصیحت کی،واعظ کے جانے کے بعد بادشاہ نے بہت سا مال اس کے گھر بھیج دیا،مال لے جانے والے ملازم جب واپس آئے تو بادشاہ نے پوچھا کہ واعظ نے ہمارا ہدیہ قبول کیا یا نہیں؟
انہوں نے بتایا کہ واعظ نے نہ صرف سارا مال قبول کرلیا ہے بلکہ بہت خوشی کا اظہار کیا،یہ سن کر بادشاہ نے کہا:’’كلنا صياد وَلَكِن الشباك تخْتَلف‘‘ہم سب کے سب شکاری ہیں مگر ہر شخص کا جال مختلف ہے۔
(حوالہ)
(علامہ ابن جوزی،الاذکیاء،ص۴۱)