باپ کا بڑا درجہ ہے
سید محمد موسوی نجفی ہندی ایک بڑے عالم تھے اور حرم امیرالمومنینؑ میں نماز پڑھاتے تھے،وہ شیخ باقر بن ہادی کاظمینی سے حکایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حمام میں لوگوں کی مالش کیا کرتا تھا،اس کا بوڑھا باپ زندہ تھا،وہ شخص باپ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا تھا حتیٰ کہ وہ اپنے باپ کے لیے بیت الخلاء میں پانی بھی خود رکھتا تھا۔
پورا ہفتہ وہ اسی طرح باپ کی خدمت کرتا تھا مگر بدھ کی شب بجائے باپ کی خدمت کرنے کے وہ کوفہ کی مسجد سہلہ چلا جاتا اور ساری رات وہاں عبادت کرتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد اس نے مسجد سہلہ جانا چھوڑ دیا۔
میں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ مسلسل چالیس راتوں تک ہر بدھ کو مسجد سہلہ جایا کرتا تھا مگر چالیسویں رات مجھے وہاں پہنچنے میں دیر ہوگئی اور سورج ڈوب گیا،وہاں پہنچتے پہنچتے چاند نکل آیا جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ روشنی ہوگئی اور میں اپنی دھن میں مگن مسجد سہلہ کی طرف چلتا جا رہا تھا ،اچانک دیکھا کہ ایک گھڑسوار میری جانب بڑھا آ رہا ہے،میں نے دل میں کہا کہ ہو نہ ہو یہ ڈاکو ہے،اب یہ مجھے لوٹ لے گا۔
جونہی وہ شخص میرے قریب آیا اس نے بدوی لہجے میں مجھ سے پوچھا:کہا جارہے ہو؟
میں نے کہا:مسجد سہلہ جارہا ہوں،اس نے پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟
میں نے کہا :نہیں،میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے،اس نے کہا:اپنا ہاتھ جیب میں ڈالو،میں نے کہا کہ میری جیب میں کچھ بھی نہیں ہے۔
اس نے سخت لہجے میں دوبارہ کہا کہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالو،میں نے خوفزدہ ہو کر اپنا ہاتھ جیب میں ڈالاتو اس میں کچھ کشمش موجود تھی،دراصل میں نے دن کے وقت اپنے بچوں کے لیے تھوڑی کشمش خریدی تھی مگر میں اسے بھول چکا تھا ،میں نے وہ کشمش اس کے حوالے کردی۔
اس وقت اس گھڑ سوار نے مجھ سے تین مرتبہ بدوی عربی زبان میں کہا کہ’’اوصیک بالعود‘‘بدوی عربی زبان میں بوڑھے کو عود کہتے ہیں،اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں تجھے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں،اس کے بعد اچانک وہ سوار میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
مجھے یقین ہوگیا کہ وہ امام زمانہ ؑ تھے،میں سمجھ گیا کہ وہ ہر بدھ کی رات میرے یہاں آنےپر راضی نہیں تھے،اس لیے یہاں آنے کے بجائے انہوں نے مجھے والد کی خدمت کا حکم دیا ،اس واقعے کے بعد میں نے مسجد سہلہ جانا ترک کردیا۔