خطاباتِ قرآنی
سوال ۳:۔قرآنی خطابات ہر جگہ پر صرف مردوں کیلئے کیوں ہیں ؟
محاورات میں کلمہ لوگ مردوں کے ساتھ مختص نہیں، کبھی کہتے ہیں مرد اور کبھی عورتیں اور کبھی کہتے ہیں لوگ ۔
لوگ یعنی معاشرہ کے تمام افراد جس میں عورت و مرد شامل ہیں اگر کہیں مرد تو یہ عورتوں کے مقابل ہے اور اگر کہیں عورتیں تویہ مردوں کے مقابل ہے ۔
عالم ِ مغرب و مشرق کے محاورات میں کہتے ہیں کہ لوگ ایسے ہیں، لوگ انقلاب لائے، لوگوں نے جہاد کیا، جب کہتے ہیں لوگ تو یہ مردوں کے ساتھ مختص نہیں، قرآنِ کریم بھی تین طرح بات کرتا ہے، جب معاشرہ کو مخاطب قرار دیتا ہے تو مذکر کے ساتھ اشارہ کرتا ہے، جیسے الذین، المومنون اور کبھی جب رجال کے ساتھ تعبیر کرتا ہے تو مردوں کی مختص ذمہ داری کو ذکر کرتا ہے اور جب نساء سے تعبیر کرتا ہے تو عورتوں کی مخصوص ذمہ داری کو بیان کرتا ہے ۔
محاورات میں لوگ ہیں نہ کہ مرد اور قرآن کریم بھی اسی محاوراتی ثقافت کی بنیاد پر بات کرتا ہے، کبھی خداوندِ متعال فرماتا ہے، مریم ؑاچھے لوگوں کا نمونہ ہے یا آسیہ اچھے لوگوں کا نمونہ ہے۔
وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ (ا)
اور اللہ نے مومنین کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے۔
اور حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویوں کے بارے میں فرمایا : یہ میرے برے لوگوں کا نمونہ ہیں :
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوط(۲)
اللہ نے کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کی ہے۔
آئمہؑ اچھے لوگوں کے لیے نمونہ ہیں اور معاشرہ کے تمام افراد خواہ عورت ہوں یا مرد ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کی پیروی کریں، فاطمۃ الزہرسلام اللہ علیہا بھی اس طرح اچھے لوگوں کے لیے نمونہ ہیں نہ کہ صرف اچھی عورتوں کے لیے نمونہ ہیں ۔
خداوندِ متعال نے مذکورہ آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ اچھی عورتوں کے لیے زوجہ فرعون نمونہ ہیں یا حضرت مریم ؑ ہیں بلکہ فرمایا مریم ؑو آسیہ اچھے لوگوں کے لیے نمونہ ہیں۔
پس اچھا انسان دوسرے انسانوں کے لیے نمونہ ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔
خداوندِمتعال سورہ مبارکہ نحل میں فرماتا ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً (۳)
اگر کوئی ایمان و عقیدہ صحیح رکھتا ہے اور اعمالِ صالح انجام دیتا ہے تو وہ مردہو یا عورت اس کو ہم حیاتِ طیبہ عطا کریں گے۔
اور سورہ مبارکہ آلِ عمران کے آخر میں(نمازِ شب کے لیے اٹھتے وقت ان جملات کی قرأت مستحب ہے)مذکورہے :
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی(۴)
تو اُن کے پروردگار نے اُن کی دعا قبول کر لی(اور فرمایا)کہ ہم تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو اکارت نہیں کر تے مرد ہو یا عورت
اور سورہ مبارکہ احزاب میں تفصیل کے ساتھ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کرتا ہے :
إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَات (۵)
یقیناً مسلم مرد اور مسل عورتیں،مومن مرد اور مومنہ عورتیں،اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں۔
اس بنا پر قرآنی خطابات ہر گزمرَدوںکیلئے نہیں بلکہ لوگوںکیلئے ہیں ۔
(حوالہ جات)
(۱)۔ سورہ تحریم آیت۱۱
(۲)۔ سورہ تحریم آیت ۱۰
(۳)۔ سورہ نحل ۹۷
(۴) سورہ آل ِ عمران آیت ۱۹۵
(۵)سورہ احزاب آیت ۳۵