نظریۂ تکا مل
سوال۱۸:کیا خلقت انسا ن ایک مستقل اوردفعی امر ہے یا دیگر زندہ موجودات کے تکامل کا نتیجہ ہے؟ کیاقرآن ڈارون کے نظریہ تکا مل کو قبول کرتا ہے؟
نظریۂ تکامل (Evolution)کی سائنسی ماہرین (Philosphors of Science)علماء دین (Religious.Scholars) اور ماہرین ِ حیاتیات(Biologists)نے اپنے انداز میں تشریح و تفسیر کی ہے،یہ نظریہ پیدائش سے لے کر اب تک متعدد مراحل طے کرچکا ہے اور ہمیشہ تنقید واصلاحات کی زد پر رہا ہے کہ جن میں سے چند اہم مراحل درج ذیل ہیں۔
لامارکسزم ، نیولامار کسزم ،ڈاروینزم، نیوڈار وینزم، موٹاسیونزم
الف:حیات شنا سی (Biologic)
حیات شنا سی (Biologic)کی نظرسے نظریہ تکا مل پر متعدد اعتراضا ت کئے گئے ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ ڈارون اپنے نظریہ پردلائل جمع کرتے ہوئے اپنی تمام کو ششوں کے باوجود انسان اور اس کے حیوانی اجدادیعنی بندرکے درمیان بنیا دی فرق سے غافل تھا، ان میں سے بعض فرق جن کی طرف والاس ( Wallace) نے اشار ہ کیا ہے، یہ ہیں۔
۱۔ انسا ن اور بندر کے مغزا ور دما غی قوتوں میں بہت فر ق اور فاصلہ۔
۲۔ انسان اور بندر کے درمیان زبان کا واضح فرق۔
۳۔ انسا ن کے اندر موجود تخلیقی قوت اورعظیم استعدا د۔
۴۔ آج کے متمدّن انسا ن اور جنگلی قبا ئل کے مغزمیں کسی فرق کا نہ ہونا، جب کہ ڈارون متمدن انسا ن اور بندر کے درمیان اس کو حلقہ وصل قرار دیتا ہے۔(۱)
اس طرح جرمن کے معروف انٹروپو لوجسٹ (Antropalogist) اورطبیعات کا ماہرفزیکو) (Phisicoکہتاہے،’’تاریخ طبیعات انسانی کے علم کی روزافزوں ترقی روزبروزانسان اوربندرکی رشتہ داری اور تعلق کو بعید اور کمزور تر کر رہی ہے‘‘۔(۲)
ب: فلسفۂ سا ئنس
سائنسی فلسفہ دوسرے درجہ کی معرفت ہے،یہ سائنسی فلسفہ علمی معلومات اورسا ئنسی ماہرین کے اختیارکردہ میتھڈ، نتائج و علمی وسائنسی نظریوں کا مطالعہ کرتا ہے اوراس پر بحث کرتا ہے، اس فلسفہ کے نکتہ نظر سے مختلف آراء پیش کی گئیں ہیں۔
۱۔ منطقی مثبت ازم (Logical Positivism)
۲۔ مثالیّت پسندی (Idealism)
۳۔ سادہ حقیقت پسندی(Naive Realism)
۴۔ تنقیدی حقیقت پسندی(Critical Realism)
چوتھا نظریہ جدید تر ین نظر یہ ہے جو کہتا ہے کہ بنیا دی طو ر پر سائنس کے جدید نظریات اورتھیوریز صرف انسانی محسوسات اور مشا ہدات ہی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نظریات انسانی محسوسات کے ساتھ ساتھ اس صاحب علم کے ذہنی تصورات کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں۔ اس بنا پر سا ئنسی نظریات انکشات محض نہیں بلکہ اختراعی پہلو بھی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس طرح کے نظریات کو خارجی واقعیت اور عینیت کے سوفیصد مطابق نہیںسمجھا جا سکتا۔(۳)
ج:دین
علماء دین اوروہ دانش مند جو نظریہ تکا مل کے بارے میں اسلام کی را ئے کی وضاحت کر نا چاہتے ہیں اس بارے میں مختلف نظریات پیش کر تے ہیں جن کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے۔
۱۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ تکا مل تدریجی اور تحو ل انوا ع اور تسلسل کی بات کی ہے۔(۴)
۲۔ تبدیلی خلقت کے نظریہ کی تردید۔(۵)
۳۔ سائنس کی روشنی میں نظر یہ تکا مل کے اثبا ت کی صورت میںقرآنی آیات کی روشنی میں اس کی توجیہ کا امکان موجود ہے۔ (۶)
۴۔ دیگر جانداروں کے بارے میں نظر یہ تکا مل کے اثبات کی صورت میں انسان کامعاملہ بالکل مختلف اور مستقل ہے اوروہ دیگر حیوا نات کے ساتھ نسلی تعلق نہیں رکھتا۔(۷)
۵۔ ’’وحی‘‘ اوراس کے مفسرین کے درمیان جد ائی۔(۸)
۶۔ سائنس اوردین کے درمیان زبانی جدائی۔(۹،۱۰)
یہاں پر مختصر وضا حت کے ساتھ ہم علامہ طبا طبا ئی کے نظر یہ کا ذکر کریں گے۔
الفـ:بنیادی طور پر تکا مل کا نظریہ سائنسی لحا ظ سے ثابت نہیں ہوا اوراس پر کوئی اجماع (Consenses)سامنے نہیں آیا۔
ب:آیات قرآن نے صراحت اور نص قطعی کے ذریعے دونوں نظریا ت میں سے نہ ثبات انواع(Fixism)کی بات کی ہے اور نہ ہی تحول انو ع (Trans Formism)کی بات کی لیکن خلقت انسا ن سے متعلق آیات کا ظا ہر پہلے نظریہ پر منطبق ہوتا ہے۔
ج:ظواہر کتاب و سنت جب تک کسی اور دلیل سے متعا رض نہ ہوں و ہ اپنی حجیت پر باقی رہتے ہیں۔
د:مندرجہ بالا مقدمات کے پیش ِنظر اس معاملہ میں قرآنی آیات کے ظاہر ی مدلول سے دست بردار ہونا ممکن ہونا نہیںہے۔(۱۱)
چند نکات
اولاً: خداوندمتعا ل اپنے عمل خلقت کو علیت و معلولیت اوراسباب ومسببات کے نظام کے ذریعے سے انجام دیتا ہے،البتہ اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ یہ عمل ارتقا ء موجود ات کے ظاہری نظام ہی کے ذریعے انجام پائے اور ایٹم سے مالیکیول یاکمپاؤنڈتک کا سفر کرے بلکہ یہ فلسفہ کا ایک کلی قاعدہ ہے جو مختلف صورتوں میں تصورکیا جا سکتا ہے۔
ثانیاً: قرآن کے ظاہرسے استفا دہ ہوتا ہے کہ موجودہ انسانی نسل سب کی سب آدم وحوا سے ہے اوران کے درمیان کوئی اور نسلی رابطہ موجود نہیں یعنی حتیٰ کہ اگر آدم سے پہلے اورانسانوں نے زمین پرزندگی بسرکی ہو، توحضرت آدمؑ اوران کے بعدآنے والے انسانوں کے درمیان نسلی رابطہ کوئی نہیں ہے،کیونکہ اگر حضرت آدم ؑ خودان سابقہ انسانوں سے نسلی تعلق رکھتے ہوں تو انسان حضر ت آدم ؑ کے ماقبل انسانوں سے متصل ہوں گے اوراگر تعلق نہ رکھتے ہوں تو بنی آدم اورسابقہ انسانی نسل کے درمیان کوئی رابطہ اور تعلق موجود نہیں ہوسکتا ہے، جب کہ قرآن فرماتا ہے:
وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء(۱۲)
اللہ نے آدم و حوا دونوں سے کثیر تعدا د مردوں اور عورتوں کو خلق فرمایا :
البتہ ان کی نسل کے پھیلاؤ کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوا ل موجودہیں،جو قول آیت شریفہ سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے اور علامہ طباطبائی نے بھی تفسیر ’’المیزان‘‘میں اسے قبول کیا ہے، وہ حضرت آدم ؑ کے فرز ند وں کا ایک دوسرے سے نکاح ہے ، یہ مسئلہ آغاز میں بعید نظر آتا ہے لیکن احکام الٰہی میں زمانی اور مکانی تقاضوں اور اعتبا را ت کے تناسب سے تبدیلی اوراحکامِ شرعی کے اعتبا ری ہو نے کے پیش نظر اسے قبو ل کیا جا سکتا ہے۔
ثانیاً: منطقی لحاظ سے ڈارون کے نظر یہ تکا مل کی نفی مطلب خلقت کا دفعی ہونا نہیں اسی طرح جیسے خلقت کو تدریجی قرا ر دینا نظریہ تحول انواع میں منحصر نہیں۔
دوسری طرف آیاتِ قرآنی عمل خلقت کے تدریجی ہو نے پر وضاحت کیساتھ دلالت کرتی ہیں،لیکن ان آیات کا نظریہ تحول انواع پرانطباق محتا ج تاویل بھی ہے اورظوا ہر سے دست بردارہونابھی ہے، جب تک یہ نظریہ اعتراض اور جوابات کی زدپر ہے، اس وقت تک آیات قرآنی کی تاویل یاظواہرقرآن سے دست بردا ری اوردوری اختیارکرنادرست نہیں۔
(حوالہ جات)
(۱) علم و دین، ایان باربور ’’Ian Barbour‘‘ترجمہ بہا ء الدین خرم شاہی ، ص ۱۴۱۔۹۹
(۲) علی اطلال المذہب الماد ی ، فرید وجدی ،ص ۱۰۸۔۱۰۳
(۳) علم و دین ، ایان بار بورمترجم بہاء الدین خرمشاہی ص ، ۱۴۴۔۱۴۹
(۴) خلقت انسان ، ڈاکٹر سبحانی
(۵) تفسیر المیزا ن ج ۴، ص ۱۵۳،ج۹،ص ۸، ج ۱۶،ص ۲۶۹
(۶)ڈاروینزم یا تکا مل انوا ع ، جعفر سبحانی، فیلسوف نماھا ، ناصر مکارم شیرازی
(۷)خلقت ِ انسان از نظر قرآن ،معارف قرآن
(۸) تکا مل از نظر قرآن ، علی مشکینی اردبیلی
(۹) مقالات فلسفی، علل گر ایش بہ ما دی گری ،مرتضیٰ مطہری
(۱۰) مزید تشریح کے لیے : موضع علم و دین در خلقت انسان احد فراسہ ز قراملکی تو رات ،انجیل قرآن و علم ، موریس بوکائی
(۱۱)تفسیر المیزان ج۴،ص ۱۵۳
(۱۲) سور ہ نسا ء، آیت۱