Raaz -e -Khilqatکتب اسلامی

ادوارِخلقت

سوال۱۷:قرآن بعض آیات میں فرماتا ہے: ہم نے زمین کو دو دنوں میں اور بعض دیگر آیات میں چھ دنوں میں خلق کیاہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
قرآن مجید میں ایام خلقت کو چھ دن قرار دیا گیا ، جن میں سے چار دن زمین اوراس کے امورکی تدبیر سے متعلق ہیں اورچار دن آسمانوں سے متعلق ہیں جن میں سے دو دن زمین کے ساتھ مشترک ہیں لہٰذا مجموعی طور پر چھ دن بنتے ہیں۔(۱)
چھ دنوں سے مراد چھ دورانیے یا چھ مر حلے ہیں دنیاوی شب و روز پر مشتمل چھ دن ہرگز نہیں جو۲۴گھنٹوں کا ہوتا ہے یازمین کا دن نہیں جو ۱۲ گھنٹوں کا اوررات کے مقابلے میں ہوتا ہے۔
چھ دنوں میں خلقت کا ئنات کا مسئلہ قرآن کریم میں سات مقامات اور آیا ت میں آیا ہے اور تین مقامات پر آسمانوں اورزمین کے علا وہ’’مابینھما‘‘جو کچھ زمین وآسمان کے درمیان ہے کا بھی اضافہ ہو ا، البتہ کل کائنات کے ۶ چھے دُنیوی ایام میں پیدا ئش کا مسئلہ بظاہر سائنس اورعلم کے خلاف ہے۔
کیونکہ سائنس کہتی ہے کہ کئی بلین سال کاعر صہ لگا تب زمین اورآسمان موجودہ کیفیت تک پہنچے، لیکن جیسا کہ گذر چکا ہے ، یو م ایک دو را نیے کے معنیٰ میں بھی استعما ل ہوتا ہے، چاہے یہ دورانیہ ایک سال کا ہو یا سوسا ل یا ایک ملین سال یا کئی بلین سال کا یوم کے اس معنی کوچند شواہدودلائل سے ثابت کرتے ہیں۔
۱۔ قرآن مجید میں کلمہ یوم کئی با ر طو یل مدت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے۔ مثلاً’’یوم القیامۃ‘‘(۲)جو کم از کم دنیا کے پچا س ہزار سا ل کے برابر ہے۔
۲۔ لغت میں ’’یوم‘‘ کبھی زمانہ کی ایک مدت کے لیے استعمال ہوتا ہے چاہے اس کی مقدا ر کتنی ہی کیوں نہ ہو۔(۳)
۳۔ روایات میں یوم ’’دوران‘‘کے معنی میں استعمال ہوا ہے:
الد ھر یومان یوم لک ویوم علیک(۴)
دنیا دو دن سے عبارت ہے، ایک دن تمہارے فائد ے میں اور دوسرا تمہارے نقصان میں ۔
اورسِتۃ ایام کی بھی چھ اوقات یعنی چھ اوقا ت اور دو ران سے تفسیر کی گئی ہے۔(۵)
۴۔ روزمرہ کی گفتگو میں بھی ’’یوم‘‘اور اس کا فا رسی متبادل ’’دور‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مثال کے طورپرفارسی میں کہتے ہیں:
روزی زمین گداختہ و سوزان بود وروزدیگرسردشد
یعنی ایک دن زمین پگھلتے لاوہ کی صورت میں جلتی شکل میں تھی اوردوسرے دن ٹھنڈی اور سرد ہوگئی ۔
جب کہ زمین کے پگھلنے، لاوہ کی شکل اختیار کر نے کا دورانیہ کئی بلین سال تک پہنچتا ہے۔
کلیم کاشانی کہتے ہیں:

یہ نامی حیات دوروزی نبود بیش
یک روز صرف بستن دل بہ این وآن

آں ھم کلیم باتو بگو یم چسان گذشت
روز دیگربہ کندن دل زین و آں گذشت
دنیا کی نیک نامی دو روزسے زیادہ نہیں تھی، کلیم تمہیں بتاؤں کہ وہ دو دن بھی کیسے گزرے، ایک دن اِدھراُدھر دل لگا نے میں گزر گیا، دوسرا دن اِدھر اُدھر سے دل کو توڑنے میں لگ گیا۔

چھ ادوار
ہم گزشتہ گفتگو سے نتیجہ اخذ کر تے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کے مجموعے کو چھ مسلسل ادوار میںخلق کیا ہے،اگر چہ کبھی یہ دورانیے کئی ملین یا بلین سال تک محیط رہے اور جدیدسائنس نے اس نکتہ نظرکی مخالفت نہیں کی،احتما لی طور پر یہ چھ ادوار درج ذیل ہیں۔
۱۔ وہ دورجب تمام کائنات گیس کے منبع کی شکل میں تھی جو اپنے اردگرد دائرے میں حرکت سے ایک دوسرے سے جدا ہوئی اورپھرسیارے تشکیل پائے۔
۲۔ یہ سیارے تدریجی طو ر پر پگھلتے رہے اور رفتہ رفتہ روشن اور تابناک یا سرد اورقابل سکونت شکل میں تبدیل ہوئے۔
۳۔ اگلے دور میںمنظومئہ شمسی تشکیل پایا اور زمین ،سور ج سے جدا ہوئی۔
۴۔ اگلے دورمیں زمین ٹھنڈی ہو ئی اور حیات کے لئے تیار ہوئی۔
۵۔ پھرزمین میں گھا س اور درخت پیدا ہوئے۔
۶۔ آخری دور میںزمین پر انسا ن اور حیوا نات پیدا ہوئے۔(۶)
جوکچھ ان چھ ادوارکے بارے میں بیا ن کیا گیا ہے وہ قرآنی آیات سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔
مثلاً قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
اوراس نے اس زمین میں اوپر سے پہا ڑ قرا رد ے اور برکت رکھ دی ہے اور چار دن کے اندرتمام سامانِ معیشت کو مقررکردیاہے جو تمام طلبگاروںکیلئے مساوی حیثیت رکھتا ہے یہ سب چا ردن (ادوار)میں انجام پایا، بالکل اسی مقدا ر میں جو تقا ضا کر نے والوںکی ضرورت کے مطابق تھی،پھراس نے آسمان کی خلقت کا ارادہ فرما یا جب کہ وہ با لکل دھواں تھا اوراسے اورزمین کو وجود میں آنے کا حکم دیا کہ چاہے خوشی سے وجود میں آئیں یا بادل ناخواستہ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزاربن کر حاضر ہیں ،پھرانہیں دونوںمیں سات آسمانوں کی شکل دی اور پھرآسمان میں جوچاہتا تھا وہ مقدرفرمادیااورہم نے دنیا کے آسمان کوچراغوں سے آراستہ کر دیاہے اورمحفوظ بھی بنادیاہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی مقررکی ہوئی تقدیر ہے۔(۷)
آخر میںیہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر تقسیم خاص اعتبار کی بنیا د پر صورت پذیر ہوتی ہے، قرآنی نکتہ نظر کے مطابق ا دوار خلقت کی چھ ادوا ر میں تقسیم سائنسی علوم میں دیگر اعتبارات کی بنیاد پر اس سے کم یا زیادہ ادوا ر میں تقسیم کے منا فی نہیں ایسی صورت میں آیات قرآن کو علوم بشری کے معارض اور متضاد قرا رنہیں دیا جا سکتا ہے۔

(حوالہ جات)
(۱) سورہ فصلت، آیت۱۰۔۱۲
(۲) سورہ معارج، آیت۴
(۳) راغب اصفہا نی ، مفردات ، دفتر نشر الکتاب ، س ۵۵۳
(۴) نہج البلاغہ مکتوب ۷۲
(۵) تفسیر نمو نہ ناصر مکار م شیرا زی ج ۶، ص ۲۰۱
(۶) مزید تفصیل کے لئے: تفسیر نمو نہ آیۃ اللہ مکارم شیرازی ج ۶، ص ۲۰۰۔۲۰۲
(۷) سورہ فصلت آیت۱تا ۱۲

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button