Raaz -e -Khilqatکتب اسلامی

کیفیت ِ تخلیق

قبل ازخلقت
سوال۱۴:خلقت ِ کائنات سے قبل اللہ تعالیٰ کی مصروفیت کیا تھی؟
اس سوا ل کے بارے میں چند مطالب کا ذکر ضروری ہے:
الف: یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سوا ل میں ’’قبل ‘‘ سے کیا مرا د ہے ؟ بظا ہری’’قبل ‘‘ زمانی ہونا چاہیے کیونکہ اگرچہ فلسفہ میں تقدم و تا خر کی مختلف اقسا م ہیں لیکن احتما ل ہے کہ سائل کامقصود قبل زمانی ہے،اس صورت میں سوال کا معنی یہ ہوگاکہ خداوندمتعا ل نے جب کائنات کو خلق نہیں کیا تھاتو اس وقت کس کام میں مشغول تھا؟
لیکن یہ سوال اپنے اندر تضا د سے دو چا ر ہے کیونکہ وقت اس کمیت کا نام ہے جو حرکت کے ذریعے جسم پر عا رض ہو تی ہے اسی وجہ سے صرف متحر ک و جسمانی اشیا ء سے منتزع ہوتاہے،اس گفتگو اورتجزیہ کے ذریعے واضح ہو جا تا ہے کہ وقت ایک طرح سے حرکت اورجسم کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر جسم یا حرکت نہ ہو تو ’’وقت‘‘ بے معنیٰ ہوجاتا ہے،اس نکتہ نظرکا نتیجہ یہ ہے کہ عالم مجردات میں وقت نہیں، بلکہ وقت عالم مادی کے ساتھ مختص ہے، اس بنا پر پہلے عالم ما دی کی خلقت اور پھر حرکت ما دہ سے مفہوم زمانہ نکلتاہے،بنا براین پہلے ما دی عالم خلق کیا گیاہے پھر ما دہ کی حرکت سے’’وقت ‘‘منتزع ہواہے، اس بحث سے واضح ہو جا تا ہے کہ اصولی طو ر پر یہ سوا ل ہی غلط ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مقد س با ر گا ہ میں اصولی طو ر پر وقت، حرکت تغیراورتبدل کوئی معنی نہیں رکھتے کہ قبل اور بعدکا تصور کیا جا سکے،چو نکہ ہم اس زود گزردنیا میں زندگی بسرکررہے ہیں اور ہماری مادی زندگی پرتقدم،تأخرزمانی حا کم ہے اس لئے یہ مفا ہیم ہمارے لئے معنی رکھتے ہیں۔ (ا)
لہٰذا خلقت سے قبل عالم کی اس کے زما نی معنی میں توجیہ صحیح نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وقت نہیں ’’مرتبہ ‘‘کے لحا ظ سے ما دہ اور جہان مادی کی خلقت سے پہلے مجردات کوپیداکیا ہے، پھرعالم مادہ کو خلق کیا،کیونکہ خدا وند متعا ل فیاض علی الا طلا ق ہے اور اسکا فیض دائمی ہے کو کبھی بھی منقطع نہیںہوتا،ا س بنا پر ایسی کیفیت اور حالت کبھی نہیں رہی کہ خلق اور فیض کا عمل رک گیا ہو۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يَسْـَٔـلُہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ،ۭ كُلَّ يَوْمٍ ہُوَفِيْ شَاْنٍ(۲)
جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی سے مانگتے ہیں ، وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔
۱۔ تما م موجودا ت اس کے محتا ج ہیں یعنی تما م موجو دا ت اپنے وجو د اورذا تی و غیر ذاتی خصوصیات میں اس کے محتا ج ہیں، فلسفی زبان میں تما م موجودات ذاتی طو رپرحادث ہیں اوراپنی پیدا ئش اور بقا ء کے لئے اپنی علت یعنی بے نیاز ذات کے محتا ج  ہیں ـ۔
۲۔ آیت کے ذیل میں ہے کہ (کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَأْن) ’’ ہر رو ز وہ ایک نئے کام میں مشغو ل ہے‘‘۔
اگر ’’یَوْمٍ‘‘ سے مراد وقت اور زما نہ ہو تو آیت کی تفسیر یہ ہے کہ خدا وند متعال ہر لمحے میں نئی خلقت اور ہر زما نہ میں نئے پر و گر ا م بنا تا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یوم سے مرادزما نہ سے بلندترمفہو م ہے لیکن چو نکہ الفاظ کا دامن اس مفہوم کی ادائیگی سے قا صرہے، لہٰذا قریب ترلفظ کے طورپر’’یوم ‘‘استعما ل ہوا ہے ،اس کی وضا حت یوں ہے کہ کوئی واقعہ اگر وقت سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے دو چہرے ہو تے ہیں وقتی اور زما نی ، جس چیز کا تعلق وقت سے ہوتا ہے،وہ تا ریخ کا حصہ بن جا تا ہے مگر جس کا تعلق زمانہ سے ہووہ تاریخ اور وقت کی قید میں محدودنہیں ہوتا،چونکہ یہ مستقل اور دا ئمی ہوتا ہے اس لئے وقت اور ذہن کی حدو ں سے ما وریٰ ہو تا ہے، مثلا ً واقعہ عا شو را ء کے دو پہلو ہیں ایک وقتی اور ایک زما نی اور ملکوتی جو وقت اور مکان کی حدو ں سے ما وریٰ ہے۔(۳)
اس تجزیہ کے مطا بق احتما ل یہ ہے کہ یوم سے مرا د ’’زما نہ ‘‘ہو کیونکہ ما دی حوادث اگرچہ زمان و مکانی میں واقع ہو تے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کا ملکوتی چہرہ زما نہ سے بالاتر ہے اور زمان و مکا ن کے دائر ے میں محدودنہیں ہوتا،مزیدبرآں وہ وقت کی قیدوبند میں نہیں آتااوروہ ہرزمان کیساتھ ہے، لیکن وقت کے اندر نہیں، اس وقت میں محدو د نہیں،وہ مکان کے ساتھ ہے لیکن کسی مکان کے اندر قید نہیں اور نہ ہی مکان کا محتاج ہے۔(۴)
۲۔ اس بناپرآیت کا معنی یہ ہو گا کہ خدا وندمتعا ل ہرزما نہ میں ایک نئے کام میں مشغول ہے اور ایسی نئی چیزپیدا کرتاہے جو پہلے نہیں تھی اوراس کے کام میں تکرا ر نہیںبلکہ ایجادہے جس کا پہلے کوئی نمو نہ اور کوئی مثال موجو د نہیںتھی۔(۵)
(حوالہ جات)

(۱)جدایۃ الحکمۃ ،ص ۱۳۸،۱۳۹
(۲) سورہ رحمن، آیت۲۹
(۳)عرفا ن و حما سہ آیۃ اللہ جوادی آملی ص ۴۶، ۴۹
(۴) تفسیر المیزان ج ۱۹، ص ۶۱۱
(۵) اس آیت کی تفسیر کے لئے دیکھئے :الف ،تفسیر نمو نہ ج ۲۳ ، صفحہ ۱۳۷،۱۳۸،۱۴۰،۱۴۱، ب ، تفسیر المیزان عربی متن ج ۱۹ ، ص۱۱۵،۱۱۷، ج ، تفسیر المیزان ( فارسی متن ) ج ۱۴، ص ۱۷۰۔۱۷۳

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button