Raaz -e -Khilqatکتب اسلامی

کمال کی معراج

سوال۹:اگر خلقت انسا ن کا مقصد کما ل کے معرا ج تک رسا ئی ہے،تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دفعہ بغیر زحمت کے تما م کما لات انسان کو عطا کیو ں نہ کر دئیے؟
حقیقت یہ ہے کہ خلقت انسا ن سے پہلے ایک طرف جاندار اوربے جان موجودات(جیسے پتھر،گھاس،حیوانات)موجودتھے،جن میں سے ہرایک کواپنی خاص خصوصیات کیساتھ اس دنیا میں ساکن یامتحرک پیداکیا گیاتھا اوردوسری طرف غیرمادی موجودات مثلاً فرشتے موجود تھے، جن میں سے ہرایک اپنی خا ص ذمہ داری کے تحت اس دنیا کی زندگی اور حیا ت کے سلسلے میں اپنا کر دار ا دا کر رہا تھا۔
ان دو گرو ہوں کے علا وہ خدا وند متعال نے انسان کو وسیع تر اختیا را ت کیسا تھ پیدا کیا تا کہ وہ کا ئنا ت اور عا لم ہستی کے وسائل سے استفادہ کر تے ہوئے زند گی کے مختلف میدانو ں میں اپنی مو جو دگی او ر کردارکوثا بت کر ے اور اس کے لئے ممکن یہ ہو کہ وہ حیوانات کے پست ترین مرحلے سے گر سکے اور کمالات کے عا لی ترین مدارج تک بھی پہنچ سکے اوروہ اپنے اختیار سے حیوا ن سے پست تر ہو سکے یا اس مقام عالی تک پہنچ سکے کہ فر شتوں کا معلم بننے کی قابلیت پیدا کر سکے قرآن مجید پست ترین انسانوں کے با رے میں فرماتا ہیـ:
أُوْلَـئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُون(۱)
یہ لوگ حیو انا ت کی طرح بلکہ ان سے زیا دہ گمر اہ ہیں یہ غافل لوگ ہیں۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بشریت اور انسانیت کے نمونہ کے ایسے مقا م تک پہنچایا کہ وہ فر شتوں کے استا د بن گئے۔
قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ(۲)
اے آدم ان فرشتوں کو ان کے اسما ء سکھا دے
انسان کی یہ خصوصیت کہ وہ ’’آگاہی و اختیارسے بلند ترین مرتبہ کما ل تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘ اس کے مقا م خلافت کی لیاقت و قا بلیت کا باعث بنی ہے۔
جب کہ حضرت آدم ؑکی خلقت سے پہلے فرشتے موجود تھے جو بغیرکسی زحمت و تکلیف کے کمالات کے مرتبہ خا ص پر فائز تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی خصوصیت کیساتھ پیداکیاہے کہ وہ اپنے تحول وتکا مل کے سفر کو اپنے ارادہ، کوشش اور جدوجہد سے یقینی بنائے۔

درحدیث آمد کہ خلا ق مجید
یک گروہ را جملہ عقل و علم وجود
نیست اندر عنصر ش حرص و ہو ا
یک گرو ہ دیگر از دا نش تہی
او نبیند جز کہ اصطبل و علف
وآن سوم ہست آدمیز ا د و بشر
نیم خر خو د ما یل سفلی بو د
تاکدامین غالب آید در نبرد

خلق عالم را سہ گو نہ آفرید
آن فر شتہ است وندا ند جز سجود
نور مطلق زندہ از عشق خدا
ھمیچو حیو ان از علف در فربھی
از شقاوت ما ند ہ است و از شرف
ازفر شتہ ینمی و ینمش زخر
نیم دیگر ما یل علوی شو د
زین دو گا نہ تا کدا مین بر د نرد(۳)

مذکورہ گفتگوکی بنیادپرواضح ہوجاتاہے کہ مخلو قا ت میں اختیاری کمالات کا مرتبہ غیر اکتسابی کمالات سے بلندتراوربرترہے ، اس بناپرمخلوقات کے درمیا ن صا لح اورپاکبا زانسان تما م مخلوقا ت حتیٰ فرشتوںسے بھی بلندترہے اوراللہ تعالیٰ نے تما م مخلوقا ت کو انسان کی خدمت پرمقررکیا ہے تووہ اس لئے ہے کہ انسان بلند ترین کما لا ت یعنی اختیا ری اور اکتسابی کمالا ت تک رسا ئی حاصل کرتا ہے،جب کہ ایک ہی دفعہ تما م کما لا ت کا انسا ن کو عطاکیا جا نا اختیاری کمالات کی نفی ہے اور ایسی با ت انسانی ما ہیت کی فرشتوں کے مشا بہ موجودات میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور دنیا کے نظام میںبنیادی تبدیلی لانے کا باعث ہے جس کے نتیجے میں دنیا نشیب وفرازسے محرو م اور مختلف انسانی حالا ت کے بغیر ہو گی۔
جبکہ یہی بات نظام آخرت میںبھی تبدیلی کا با عث بنے گی اسی طرح قیا مت کے مواقف اپنے معانی کھو دیں گے، اس صورت میں انسان نامی مخلو ق کی خلقت کی ضرور ت ہی کیا تھی کیونکہ فرشتے انہی خصو صیا ت کے ساتھ پہلے ہی سے موجو د تھے حالا نکہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دنیا کے ان تما م نشیب و فر ا ز میں نیکی و بدی کے انتخاب کی طاقت کے ساتھ اپنا را ستہ طے کرتا ہے اور ثو اب یا عقا ب کا استحقا ق حا صل کر تا ہے۔

(حوالہ جات)
(۱)سورہ اعراف، آیت۱۷۹ (۲) سورہ بقرہ، آیت۳۲
(۳)مولونا روم یہ شعر امیر المو منین ؑسے ما خوذ ہیں،کی حدیث وسا ئل الشیعہ ج۱۱ ، / ۱۶۴

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button