کما ل خلقت
سوا ل۸:کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے تا کہ ہم کما ل تک پہنچیں، کما ل کس لئے اور کما ل تک رسا ئی کے بعد کیا ہو گا ؟ کہتے ہیں جنت میں جا ؤگے توجنت میں جانے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا جنت میں ہمیشہ رہنا تھکا دینے والا نہیں ہے؟
کمال کیوں؟
سب سے پہلے اس با ت پر تو جہ کی ضرور ت ہے کہ انسان کے لئے سعا دت اور کمال ذاتی طور پر مطلو ب ہے اور اس کی وجو دی سا خت اور حد با طنی ضرورت کے عین مطابق ہے جیسا کہ درخت کا رشد و پھل دینا اس کی طبعی ساخت کے مطابق ہے اور یہ رشد و کما ل سب کے لئے اسی طرح خو شنما ہے کہ انسان کمال تک پہنچنے کی خوا ہش کو اپنامقصد اورہدف بناتے ہیں اس وجہ سے جنت اپنی تما م خوبیو ں اور خو بصو رتیوں کی جلو ہ گا ہ اور تمام اچھوں اور اچھائیوں کے مرکزکے طورپرعقل مندوں اور پاکیز ہ لو گوں کے دلو ں کی آرز و ہے۔
جنت سے جی نہ بھرنا
جوچیزباعث تکلیف ہو تی ہے وہ انرجی اور طا قت کا کم ہو جانا،تھکا وت اور لذت کا دائمی نہ ہونااورو ہ چیزجوانسان کی پریشانی کا باعث ہو تی ہے وہ لذ ت کاعدم تنوع ہے، جب کہ بہشتی نعمتوں کے با رے میں قرآن کہتا ہے
لَہُمْ فِیْہَا مَا یَشَآؤُونَ (۱)
ان کیلئے جو چاہیں گے مہیا ہو گا
اورنیزفرما تاہے:
ہُمْ فِیْہَا خَالِدُون(۲)
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اس بنا پر وہاں کسی قسم کی محدودیت نہیں ہو گی اور وہ جس چیز کا تصو ر کریں گے اور چاہیں گے وہ ان کے لئے آما دہ ہو گی اور بہشتی انسان اس سے زیا دہ کسی چیز کی آرز و کر ہی نہیں سکتا کہ وہ جنت سے آزردہ خا طر اور بے زا ر ہو سکے ۔
دوسری طرف اہل بہشت کے لئے نعمت کے خا تمہ کا خو ف بھی موجو د نہیں کہ اس لحا ظ سے انہیں کو ئی تکلیف ہو ۔
استادشہید مطہری اس با رے میںلکھتے ہیں:
انسان ہمیشہ پا نے کی ٹو ہ میں لگا ہو تا ہے یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کسی چیز کے پیچھے بھاگتا ہے اور جب اسے پالیتا ہے تو اس کا شو ق کم ہو جا تا ہے بلکہ اس میں تنفر اورناپسندیدگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے،یہ سب کچھ اس با ت کی دلیل ہے کہ انسان اپنے قلب کی گہرائی میں جس چیزکا طالب تھا یہ وہ چیزنہیں تھی وہ ایسا سمجھتا تھا کہ یہ وہی چیزہے، دراصل وہ ایک بر تر چیزیعنی کما ل مطلق کے پیچھے دوڑتاہے ،انسان طالب کما ل ہے لیکن ایسا کمال جولامحدودہے کیو نکہ محدو دیت نقص اور عدم ہے اور انسان اس سے متنفرہے، وہ جس کمال تک رسائی حا صل کرتاہے ابتداء میں اس لا محدودیت کما ل کی چمک اسے اس کمال محدود کی طرف کھینچتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مطلوب و گم شدہ یہی ہے وہ ایک گا ڑی، گھریافیشن اور سٹائل کے پیچھے بھا گتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا گمشدہ گوہریہی ہے، جب اس تک پہنچ جا تا ہے اور اسے اپنی خواہش سے کم تردیکھتا ہے، تو پھرکسی اور چیزکے پیچھے بھا گنے لگتا ہے۔
اب اگر یہ انسان ایک ایسی چیز یا جگہ پر پہنچے جو کما ل مطلق ہے یعنی ایسی چیز جو اس کی فطرت میں رکھی گئی ہے تو وہاں پہنچ کر وہ مطمئن ہو تا ہے اس میں بے زا ری پیدا نہیں ہو تی اور نہ ہی وہ تبدیلی کے پیچھے دوڑتا ہے با لکل بہتے در یا کی طرح جو سمندر میںپہنچ کر پر سکو ن ہو جاتا ہے۔
قرآن جنت کے با رے میںکہتا ہے
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا(۳)
جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہاں سے کہیں اور جانا پسند نہیں کریں گے۔
اس کے علا وہ بہشت میں معنوی لذات اور انبیاء عظام،آئمہ طاہرین، اولیاء الٰہی کے حضورکے ادراک اور لقائے پروردگار جیسے عظیم ترین لذتیں میسرہیں جوتصورانسانی سے ماوریٰ ہے۔
حافظ شیرازی کہتے ہیں:
روشن از پر تو رویت نظری نیست کہ نیست
نا ظر روی تو صا حب نظر اندآری
منت خا ک در ت بر بصری نیست کہ نیست
سرگیسوی تو در ھیج سری نیست کہ نیست
تیرے جمال کے پرتوں سے روشن کوئی نظرنہیں تیرے درکی خاکِ کی منت کسی نظرپر نہیں ہے جی ہا ں تیرے جما ل کے دیکھنے والے صرف صاحب نظر لو گ ہیں تیری زلفون کے اسرار کسی کے ذہن میں نہیں ہیں ۔
یا سعدی کہتا ہے:
یہ چھا ن خرم از آتم کہ چھانی خرم از او ست
نہ فلک را ست مسلم نہ ملک را حا صل
عا شقم بر ھمہ عالم کہ ھمہ عالم از ا و است
آنچہ در سر سو یدا ی بنی آدم ازاوست
’’پس اس عالم پر خو ش اور مطمئن ہوں کیونکہ یہ عالم اس کا ہے ۔میں تما م عالم کا عاشق ہوں کیونکہ تما م عا لم اس کا ہے نہ یہ خصو صیت فلک کے نصیب میں ہے اور نہ ہی ملک کو حاصل ہے جو را ز بنی آدم کے قلب کی گہرائیوں میں ہے وہ بھی اسی کا ہے ‘‘
جس چیز کو بنی آد م کا فطری را ز اوراندرونی اسرا رسمجھاجاتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے خدا کے علا وہ کسی چیز سے حقیقی تعلق اور پیو ند نہیں رکھتا وہ جس چیز سے بھی تعلق قا ئم کرتا ہے وہ وقتی اور مجا زی تعلق ہے اورا یک د ن اسی سے قطع تعلق کر لے گا۔(۴)
(حوالہ جات)
(۱) سورہ نحل، آیت۳۱،سورہ فرقان، آیت۱۶، سورہ زمر، آیت۳۴، سورہ شوریٰ، آیت۲۲، سورہ ق، آیت۳۵، سورہ نسا ء، آیت۱۳۲
(۲) سورہ بقرہ آیت۲۵،۸۲، سورہ آل عمرا ن، آیت۱۰۷، سورہ اعراف، آیت۴۲، سورہ یونس، آیت۲۶، سورہ ھود، آیت۲۳، سورہ مومنون، آیت۱۱ اور …
(۳) سورہ کہف، آیت۱۰۸
(۴) معاد ،استا د شہیدمطہری ص ۱۷۲،۱۷۰