طاقت و قدرت
سوال ۴۴:اسلامی حکومت اور طاقت و قدرت پر عوامی کنٹرول اور نظارت کے کون سے طریقے ہیں؟
اقتدار(Power) کی تعریف
اجتماعی اورانسانی مفاہیم کی اکثریت کی طرح،ا ن مفاہیم میں سے ایک اقتدار/تسلط کا مفہوم ہے جس کی تعریف کرنا مشکل ہے،اس کی ہمیشہ متعدد اور مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ۔
برٹرنڈرسل نے اقتدار اور تسلط کی تعریف یوں کی ہے :
مطلوبہ نتائج اور اثرات کو وجود میں لانا۔(۱)
ماکس وبرنے یوں کہا ہے :
اپنے ارادے کودوسروں کے اعمال وکردارپرمسلط کر سکنے کا نام ہے(۲)
پولانزاس کے مطابق :
ایک معاشرتی طبقے کی اپنے خاص مفادات کو حاصل کرنے کی طاقت و توانائی کا نام اقتدار اور تسلط ہے ۔(۳)
ہانا آرنت نے کہا ہے کہ:
عمل کے لیے انسان کی توانائی گروہ کے عمل کے ساتھ اتفاق کے لیے اقتدار اور قدرت ہے۔(۴)
ان میں ہر تعریف پر کئی مشترکہ اعتراضات کی بھرمار ہے لیکن ان کے بارے میں گفتگو اور بحث کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔(۵)
ان مشترک اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ’’قدرت‘‘کو صرف مادی نگاہ سے دیکھاگیاہے،اس کے مقابلے میں مسلمان مفکّرِین نے اسے وسیع تر تناظر میں دیکھا ہے،بعض تحریرنگاروں نے امام خمینی ؒ کے خطابات اورا ن کے سیاسی طرزِ عمل اور کردار سے یوں اخذکیا ہے کہ ان کی نظرمیں اقتداریہ ہے:
عدالت کو حاصل کرنے اور نجات پانے کے لیے انسان کی دسترس میں تمام مادی اور معنوی وسائل کو بروئے کار لانے کی طاقت۔(۶)
اس رائے میں مادی عناصر کے علاوہ معنوی سرچشموں کو بھی مد ِنظر رکھا گیا ہے اور اس دنیا اور انسان کی اخروی زندگی میں اقتدار کی غرض و غایت کا تعیّن کیا گیا ہے ۔
اقتداراورخرابیاں
بعض مفکّرین کی رائے ہے کہ اقتدار ذاتی طور پر خرابیاں پیدا کرتا ہے ۔
لردآکٹون لکھتا ہے:
اقتدار خرابیوں کی طرف رحجان اور جھکائو رکھتا ہے۔(۷)
بعض جہات سے اس نظریے پر اعتراضات کیے گئے ہیں ، بے شک بے قابو اور بے مہار اقتدار اور طاقت کے غیرمعصوم اور خطا کار انسان کے ہاتھ میں ہونے سے بہت ساری خرابیوں اور برائیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔
اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بعض خرابیاں اور برائیاں یہ ہیں :
بو الہوسی، جبرو استبداد ، قانون سے انحراف ، قانونی آزادی کو سلب کرنا ۔
اس بناء پر اقتدار اور اس کے کنٹرول کے مسئلہ پر سیاسی نظریے کی ضرورت ہے ۔
طاقت واقتدار(Power)کوکنٹرول کرنے کے طریقے
۱۔جامع اور کامل
اقتدارپرنگرانی اورکنٹرول جامع، ہمہ پہلو اور موثر ہونا چاہیے ، اس طرح کے اقتدار سے سوء استفادہ (طاقت وقدرت کاغلط استعمال)کا احتمال صفرہوجائے یابہت ہی زیادہ کم ہو۔
۲۔دوراندیشی
اقتدار کو کنٹرول کرنے کے طریقے اور انداز اس طرح سے ہونے چائیں کہ اقتدار سے سو استفادہ کی راہوں کومحدود کر دیں ، نہ یہ کہ خرابیوں اور ریشہ دوانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد ان کا قلع قمع کریں، البتہ پید ا ہونے والی خرابیوں کو درست کرنے کی بھی ضرورت ہے لیکن پرہیز علاج سے بہتر ہے ۔
۳۔اقتدارکی نگرانی
اس طرح سے نہ ہو کہ وہ سیاسی نظام کی کاکردگی کے لیے خطرہ بن جائے اور معاشرے کو حکومت کی خدمات اور سہولتوں سے محروم کر دے ۔
۴۔ذاتیات کا احترام
اپنے مقام پر ہر شخص کی ایک خصوص اور نجی زندگی اور معاملات ہیں ، ان میں تجسس جائز نہیں ہے ، اقتدار کی نگرانی اور کنٹرول کا انداز اس طرح سے نہ ہو کہ وہ انفرادی آزادی اور ذاتی حقوق کو ضرر پہنچائے ۔
۵۔خود شکنی کافقدان
۶۔حقیقت پسندی
۷۔ صلاحیت نفاذکا ہونا
غیراسلامی نظاموں میں اقتدار (Power) کو کنٹرول کرنے کے لیے بیرونی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں،اقتدارکے بیرونی کنٹرول کے اصول اور موافقت نامے مختلف غیر اسلامی نظاموں میں برابر نہیں ہیں،عصر حاضر میں مغربی جمہوری نظاموں میں جس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہ نظام کا کنٹرول یا قوی کی علیحدگی ہے ، قوا (Forces) کی علیحدگی کا نظریہ تاریخ میں بہت پراناہے، لیکن جدید دنیا میں’’منٹسکیو‘‘اس کا مجدد شمار کیا جا تا ہے،یہ طرز اور طریقہ اس فکر پر مبنی ہے کہ طاقت کو طاقت کے ذریعے ہی کنٹرول اور قابو کیا جا سکتا ہے،یہاں پر دو نکات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے :
۱۔اقتدارکے بیرونی کنٹرول کی اہمیت اور حیثیت۔
۲۔قوتوں کی علیحدگی کے طریقے کی حیثیت۔
بیرونی طاقت کے ذریعے کنٹرول
بیرونی طاقت کے ذریعے اقتدار کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کا استعمال ضروری اورناگریزہے مگرکافی نہیں ہے،اس طریقے میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہوتاہے، ایسی مشکلات کا تسلسل یادورانہی میں سے شمار ہوتے ہیں ۔
بیرونی ذرائع سے اقتدار کو کنٹرول کرنے میں فرض ہی یہ ہوتا ہے کہ’’الف‘‘طاقت کے ناشائستہ اعمال اور فعال کو طاقت’’ب‘‘کے ذریعے روکا جائے ۔ اس صورتحال میں اگر ’’ب‘‘بھی نامناسب اور برے افعال کی مرتکب ہو توا سے بھی بیرونی عامل کے ذریعے کنٹرول اور قابو کیا جائے،یہاں پر دو فرض ہو سکتے ہیں :
۱۔بیرونی مفروض عامل وہی طاقت’’الف ‘‘ہو اس حالت میں ہمیں دور (ایک منطقی اصطلاح ) کا سامنا کرناہوگا کیونکہ طاقت ’’الف‘‘اپنے نگران ’’ب‘‘پر نگران ہے ۔
۲۔تیسری طاقت’’ج‘‘دونوں پر نگران ہے ۔
اس صورت میں بھی اقتدار اور طاقت سے غلط فائدہ اٹھانے کا احتمال ’’ج‘‘کی طرف سے موجود ہے ۔لہٰذا یا تو کنٹرول کرنے والی قوتوں کاایک تسلسل ہو جو لامتناہی سلسلے کا سبب بنے یا پھر آخری نگران قوت کا سرا پہلی طاقت کے ساتھ متصل ہو جائے جس کا نتیجہ دور ہو۔(۸)
توازن کا دستوری طریقہ(قوتوں کی علیحدگی )
دورحاضرکی مغربی دنیا میں اقتدار کو کنٹرول کرنے کا ایک اہم ترین بیرونی ذریعہ دستوری طور پر طاقتوں میں توازن یا قوتوں کی علیحدگی ہے ، اس طریقے کار کے بارے میں اندازہ لگایاگیا تھا کہ اس کے ذریعے سے اقتدار کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور انحرافات اور غلط کاریوں سے روکا جا سکتا ہے مگریہ بھی چند مشکلات کا شکار ہے جن میں چند ایک یہ ہیں :
۱۔قوتوں میں مکمل جدائی اور علیحدگی نہیں ہوسکتی ۔
۲۔قوتوں میں علیحدگی کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ خرابیوں میں علیحدگی اور عدم مرکزیت کی صورت میں نکلاہے۔(۹)
۳۔سیاسی پارٹیوں کی طرف سے انتخابات میں عوام کی شرکت کے پروگرام ترتیب دینے نے قوتوں کی علیحدگی کے فلسفے کو ختم کر دیا ہے ۔
امریکہ جیسے ممالک میں(جہاں قویٰ میں مکمل علیحدگی اور تفکیک ہے)اقتدار ڈیموکریٹس کے ہاتھوں میں ہے یا پھر ری پبلکنز کے ہاتھوں میں ہے اور ان سب سیاسی اداروں اور پارٹیوں کے پس پردہ جو حقیقی طاقت موثر ہے اور تمام قویٰ جس کی چھتری کے نیچے ہیں وہ حکمران پارٹی ہے۔(۱۰)
بہرحال پھر بھی موجودہ عالمی صورتحال میں’’تفکیک قوا ‘‘کا مسئلہ کسی حد تک لازمی اورناگزیرنظرآتاہے،لیکن اقتدارکے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے،پس ’’قوتوں کی علیحدگی‘‘کوقبول کیاجاسکتاہے،(جیساکہ اسلامیہ جمہوریہ ایران کا سیاسی ڈھانچہ بھی اسی بنیادپراستوارکیاگیاہے)لیکن اسے خرابیوں کو نابود کرنے والا نہیں جانا جا سکتا۔
اب کیا کرنا چاہیے ؟کیا باہر سے اقتدار اور طاقت کو مکمل کنٹرول نہ کر سکنے کا مطلب یہ ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے اور صرف داخلی طورپرکنٹرول کیاجائے یعنی اربابِ اقتدار کی خصوصیات اور صلاحیتوں پر اکتفا کیا جائے ؟
یہ بات بھی درست نظرنہیں آتی،کیونکہ اندرونی اور داخلی کنٹرول کا اعلیٰ ترین درجہ عصمت کا مرتبہ ہے، عصمت کے ہوتے ہوئے اقتدار کی ہوس اور اس کی خرابیاں نابود ہو جاتی ہیں لیکن فکری ، عقلی اور نفسانی لحاظ سے اس سلامتی اور حفاظت کے درجے پر صرف چند افراد ہی فائز ہو سکتے ہیں ۔
پس طاقت اور اقتدار کے سوء استفادہ سے بچنے کے لیے غیر معصوم قائدین کی شرائط اور خصوصیات میں غور وخوض کرنا چاہیے،(۱۱)اس ذریعے سے طاقت اور اقتدار کو اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔
اسلامی متون یعنی قرآن اور روایات کو دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دین مبین اسلام ، ایک جامع ترین اور حقیقت پسند مکتب ہے ، اسلام کا دستور اندرونی اور بیرونی دونوں قوتوں پر کنٹرول کرنے کی تائید کرتا ہے اور نئی صورتحال میں مختلف حل پیش کرتا ہے ، اس راہ حل کی روشنی میں (سیاسی نظام کے اقتدار کو ضرر پہنچے بغیر)خرابیاں اور انحراف نچلی ترین سطح تک جا پہنچتی ہیں ۔(۱۲)
اندرونی طاقت کے ذریعیکنٹرول
اسلام میں اندرونی طور پر اقتدار اور طاقت کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
۱۔فکری کنٹرول ۲۔اخلاقی کنٹرول
۱۔عقلی اورفکری کنٹرول
حکمرانوں کے سیاسی اور اجتماعی کردار کو کنٹرول کرنے کے طریقوں میں سے ایک
ان کے علم و دانش کا ذخیرہ اورا ن کے افکار ہیں ، ا ن علوم میں سے چند یہ ہیں :
۱۔فقاہت :بعض افراد کی رائے ہے کہ قانون دان اور قانونی ماہر حکمران اور سربراہ کا اجتماعی طرزِعمل اورکردار غیر قانون دان سے بہت زیادہ مختلف ہوتا ہے ۔ قانون دان قائد معاشرے کے حقوق کا تحفظ کرنے میں زیادہ کامیاب اور مؤثر ہوتاہے،اسلام میں بھی(جہاں عصمت اور علمِ لدنی نہ ہو)رہبراور قائدکے لیے دینی احکام میں فقاہت (مہارت)کو ضروری قرار دیا گیا ہے،اس بات کو پیش نظررکھتے ہوئے کہ’’فقہ ‘‘اسلام کے نظام ِاقدار کامجموعہ اور حقوق اور قوانین سے اعم ہے ، فقیہ اسلامی قانون دان بھی شمار ہوتا ہے ۔
امیرالمومنین ؑ اس کے متعلق فرماتے ہیں :
آگاہ رہو !اس امر(حکمرانی) کے لیے لائق ترین افراد وہ ہیں جو لوگوں میں طاقتورترین اور ان میں حکم الٰہی سے عالم ترین ہوں ۔(۱۳)
۲۔الٰہی نظریہ کائنات
معرفت الٰہی،قیامت پر ایمان،اللہ تعالیٰ کے نگران اور ناظرہونے کا قلبی یقین اوراس کے سامنے جوابدہ ہونے پر عقیدہ ، طاقت و اقتدار سے پیدا ہونے والی خرابیوںاور انحرافات سے بچانے کا موثر ذریعہ ہیں ، اسی لیے قرآن مجید کافروں کی حکومت اور تسلط کی نفی کرتاہے،(۱۴)حضرت امام حسین ؑ دین حق کی پابندی اوراس پرعمل کرنے کورہبراورقائد (حکمران)کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں ۔(۱۵)
۳۔اقتداراور تسلط کا نظریہ
ارباب اقتدار کی آگاہی اور اقتدار کے متعلق ان کا طرزِ تفکر اور نظریہ اس سے استفادہ کرنے میں انتہائی مؤثرہے،دوسرے الفاظ میں حکمران کا نظریہ کائنات اور اس میں اقتدار کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ اقتدار کے مفاسد کا ایک بنیادی عامل صاحبان ِاقتدار کا اقتدار کو اپنا اصلی حق ملکیت اور جاگیر سمجھنا ہے،اس کے مقابلے میں اسلام ’’سیاسی اقتدار ‘‘ کو ایک ذمہ داری، مسئولیت اور امانت قرار دیتا ہے ۔
حضرت علی ؑ آذر بائیجان کے گورنر اشعث بن قیس کو لکھتے ہیں ۔
یہ حکمرانی تمہارے لیے روٹی پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ تمہارے اوپر ایک امانت ہے ۔(۱۶)
اقتدار کے بارے میں اس طرز تفکر کا ایک اہم ترین نتیجہ آمریت اور سوء استفادہ سے اجتناب ہے ، اسی لیے اس کے بعد آپ – فرماتے ہیں :
تمہیں حق نہیں ہے کہ تم اپنی رعایا پر جبر وستم کرو۔(۱۷)
حضرت علی – اپنے ایک اور خط میں اپنے گورنروں میں سے ایک کو لکھتے ہیں ۔
’’اما بعد‘‘میں نے تجھے اپنی امانت ( حکومت اور فرمانروائی ) میں شریک بنایا ہے۔(۱۸)
۲۔اخلاقی کنٹرول
وہ عادات اور صفات جو انسان کے نفس میں رسوخ کر چکی ہوں وہ انسان کی رفتار وکردارکومتعین کرنے والے اہم ترین عوامل میں سے ہیں،اس لیے اسلام حکمران کی اخلاقی صفات اورخصوصیات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور صرف ان افراد کو حکمرانی کے اہل سمجھتا ہے جو اعلیٰ اخلاقی صفات کے حامل ہوں اور اچھی عادات و خصال سے مزین ہوں ، دینی کتاب میں حکمران کی اہم ترین خصوصیات یہ بیان ہوئی ہیں :
الفـ: عادل ہونا
اسلام کی نظر میں حکمرانی اور قیادت صرف عادل اور ظلم کا مقابلہ کرنے والے افراد کا حق ہے ، قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے :
وََلَا تَرْکَنُوْا ٓاِلَی الَّذِ یْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ الَّنُار(۱۹)
ظالمین پر اعتمار اور بھروسہ نہ کرو ،آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی
امام حسین ؑ کے کوفیوں کے نام خط میں آیاہے
امام صرف وہ ہے جو کتاب الٰہی کے مطابق حکم دے اورعدل وانصاف کوقائم کرے،دین ِحق کاپابندہواوررضائے الٰہی کی خاطراپنے نفس پر قابورکھتا ہو۔(۲۰)
ب: تقویٰ
اسلام میں حکمران کی اہم ترین شرط تقویٰ اور پرہیزگاری ہے ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
امامت کے لائق صرف وہی شخص ہے جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:تقویٰ اور پاکیزگی جو اُسے گناہوں اور اللہ کی نافرمانی سے بچائے رکھے۔۔۔؟(۲۱)
ج۔ بردباری اور نیک سلوک
حدیث ِ نبوی ﷺ میں قیادت کی مزید دو خصوصیات کو یوں بیان کیا گیا ہے :
بردباری جس کے ذریعے وہ اپنے غصے اور غضب کو ٹھنڈا کرے اور عوام کے ساتھ اس طرح اچھا سلوک کرے جیسے مہربان باپ کا اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔(۲۲)
۳:اسلام میں اقتدار کو کنٹرول کرنے کے بیرونی ذرائع
اسلام میں اقتدار اور طاقت کو بیرونی طور پر کنٹرول کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ان طریقوں کے علاوہ جن کا خود اسلام نے حکم دیا ہے(منصوص)کچھ عقلی طریقے (غیر منصوص)بھی موجود ہیں ، جن سے ولایت شرعی سے عدم ٹکرائو اور حکمران کے حکومتی فرائض کی ادائیگی میں حائل نہ ہونے کی صورت میں استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
قویٰ میں علیحدگی اورڈھانچے کی تشکیل کے ذریعے کنٹرول نیزادارہ کے ذریعے کنٹرول کواسی میں شمار کیا جا سکتا ہے،ارادے کے ذریعے کنٹرول کو اسلامیہ جمہوریہ ایران میں مدنظررکھا گیاہے،ولی فقیہ کے متعلق مجلس ِخبرگان کا نگرانی اور کنٹرول کرنے والاکردارایک اہم مثال ہے۔
اسلام میں بیرونی طور پر اقتدار کو قابو میں رکھنے کے چند ذرائع یہ ہیں :
۱۔اللہ تعالیٰ کا بلا واسطہ کنٹرول
اہم ترین کنٹرول کرنے والا ، طاقتور نگران اور اقتدار سے دانا ذاتِ الٰہی ہے ، وہ مختلف ذرائع سے نگرانی اور نظارت فرماتا ہے ۔
الف:قانون سازی
اقتدار کو قابو میں رکھنے اور اس کی سمت درست رکھنے کا ایک طریقہ اقتدار اور طاقت کو بروئے کارلانے کے لیے مناسب اور جامع قوانین اور تعلیمات کو پیش کرنا اور حکمرانوں کے طرزِعمل کومتعین کرنے کے اصول و ضوابط کو بیان کرناہے۔
الٰہی قانون سازی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنے کی بہت زیادہ تاکید اقتدار و طاقت کو قابو میں رکھنے میں اہمیت کی حامل ہے،قرآن مجید نے اس مسئلہ پر بہت زور دیاہے اوراحکامِ الٰہی سے غفلت کرنے والی حکومت کو ظلم ، فسق اور کفر کہا ہے، حضرت امام حسین ؑ اُسی کو حاکم سمجھتے ہیں جو اللہ کی کتاب پر عمل کرے۔
ب:قانونی حیثیت ختم کرنا
اسلام نے حکمران کی اخلاقی اور علمی شرائط اور ان کے لیے اصول و ضوابط کو متعیّن کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نفاذ کی ایک طاقتور ضمانت کا اضافہ کیا ہے تاکہ اگر خدانخواستہ کوئی صاحب ِاقتدار میں خرابیاں پیدا کرے تو فوراً اس کا تدارک کیا جاسکے اور اُسے روک جا سکے،روکنے اور تدارک کرنے کا ایک طریقہ مشروعیّت(قانونی حیثیت)کو ختم کرناہے، حاکموں کے لیے اصول و ضوابط اور شرائط اس وقت نفاذ کی قوت رکھتی ہیںجب وہ ان شرائط اور شرعی احکام سے فاقد متصور نہ ہوں ، حاکم اور دینی لحاظ سے اس کی صفات اور شرائط کے درمیان دوری پیدا ہونے سے فوراً ہی حکمران کی مشروعیّت(قانونی حیثیت)اوراس کی حکومت کا جواز ختم ہو جائے گا اور وہ شرعی طور پر خود بخود معزول ہو جائے گا ۔
ج :سزادینا
اسلامی نقطہ نظر سے حکمران اور رعایا سب کے سب اللہ تعالیٰ کی باریک بین نگرانی کے تحت ہیں،اللہ تعالیٰ ہر وقت اورہر جگہ پر انسان کے اعمال کا نگران ہے ،(۲۳) وہ ظالموں کے ظلم پراپناردِعمل ظاہرکرتاہے،اقتدار کے ظالمانہ اقدامات اور ان کی خرابیوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کا سلوک کئی طرح سے ہوتا ہے ۔
۱۔ظلم و ستم کے خلاف جہاد کے لیے مومنین اور مجاہدین کو ابھارنا اور مظلومین کی مدد کرنے کی ترغیب دلانا۔
۲۔دنیا میں قانونی سزا
۳۔دنیا میں کیفرکردار اور مکافات عمل کی سزا
۴۔اخروی سزا
امیرالمومنین علی ؑ حضرت عثمان سے فرماتے ہیں :
یادرکھو کہ اللہ کے نزدیک سب بندوں سے بہتر وہ انصاف پرور حاکم ہے جو خود بھی ہدایت پائے اور دوسروںکی بھی ہدایت کرے اور جانی پہچانی ہوئی سنت کو مستحکم کرے اور انجانی بدعتوں کو فنا کرے اور اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے بدتر وہ ظالم حکمران ہے جو گمراہی میں پڑا رہے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈال دے اور(رسول ؐسے)حاصل کی ہوئی سنتوں کوتباہ اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کرے ، میں نے رسول خداﷺ سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ قیامت کے دن ظالم کو اس طرح لایا جائے گا کہ نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا اور اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی گھومتی ہے اور پھر اُسے جہنم کی گہرائی میں زنجیروں سے جکڑ دیا جائے گا۔ (۲۴)
د:باہمی حقوق و فرائض کاتعیّن
اسلامی نظام میں حکومت اور عوام کا رابطہ دو طرفہ ہے اور اس کی بنیاد دونوں طرف سے فرائض اور حقوق پر ہے ، حاکم اور رعایا ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ اور ذمہ دار ہیں اور یہ دونوں بارگاہِ الٰہی میں جوابدہ اور مسئول ہیں ۔
امیر المومنین ؑنے فرمایا : آگاہ رہو!میرا تم پر حق ہے اور تمہارا میرے اوپر حق ہے ۔(۲۵)
ہ:قانونی مساوات
اسلام کی نظر میں قانون کے سامنے سب انسان برابر ہیں ، کسی کو بھی دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے ،یہ قاعدہ ’’احکام میں مساوات کے اصول کے طور پر تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہے ‘‘۔
۲۔عمومی کنٹرول
اسلام اقتدار و طاقت کی خرابیوں سے محفوظ رہنے کے لیے وسیع اور عوامی سطح پر شرکت کوازحدضروری سمجھتا ہے ، لہٰذا اس نے اس عمومی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں ، اسلام کے نقطہ نظرسے سیاسی اور معاشرتی سطح پر عوام کی شرکت اور حصہ لینا نہ صرف ان کاحق ہے بلکہ ان کے فرائض میں شامل ہے ، ان معاملات میں حق اور ذمہ داری میں تداخل کے اصول اور خصوصی نتائج ہیں ، جن کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیںہے، کنٹرول کرنے والے عوامی شرکت کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے اسلام کے چند اقدامات یہ ہیں:
الف:مشاورت کا لازمی ہونا
اسلامی حکومت میں عوام کو نظر انداز کرنا ، حکومتی امور میں اپنی رائے کوٹھونسااور مومنین کی رائے اور ان کے عمل دخل کو قبول نہ کرنا مذموم اور نا پسندیدہ شمار ہوتا ہے ، قرآن مجید نے لوگوں سے مشورہ کرنے کا واضح حکم دیاہے اور رسول خداﷺ سے کہا گیا ہے کہ وہ مشاورت کے ذریعے عوام کی شرکت اور دخیل ہونے کی راہ ہموار کریں ۔ (۲۶)
ب:عمومی ذمہ داری :اسلام کی رو سے اقتدار کو غلط استعمال کرنے اور خرابیوں سے بچانے کی ذمہ داری تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : کلکم راع وکلکم مسئوول عن رعیتہ (۲۷)
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے امام خمینی ؒ نے کہا :
میری ذمہ داری تم پر ہے اور تمہاری ذمہ داری میری گردن پر ہے ، اگر میں نے کوئی لغزش کی تو تم ذمہ دار ہو اگر تم یہ نہ پوچھو کہ تم نے کیوں غلط قدم اُٹھایا ہے۔ (۲۸)
ج:امور ِاُمت کی اہمیت
امت ِ مسلمہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جدوجہد کرنا اور تباہی و بربادی اور خرابیوں کے اسباب کے خلاف قیام کرنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری اور اسلام کی شرط ہے ۔
پیغمبر ِاکرم ﷺ نے فرمایا :
جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کو اہمیت نہ دے اور جو کوئی کسی شخص کی فریاد سنے جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارے اور وہ جواب نہ دے ، وہ مسلمان نہیں ہے۔(۲۹)
د:نیکی کا حکم اوربرائی سے روکنا
امرباالمعروف اور نہی عن المنکر، الٰہی فریضہ کے طور پر اجتماعی اور عوامی شرکت کی راہ ہموار کرتا ہے ، قرآنِ مجید نے امت ِاسلامی کے امتیازات میں سے ایک اسے قرار دیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے :
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(۳۰)
تم لوگوں میں سے بہترین امت ہو ، تم نیک کاموں کا حکم دیتی ہو اور برے کاموں سے روکتی ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتی ہو۔
رسول اکرم ﷺ نے بھی فرمایا ہے :
جب تک میری امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیتی رہے گی اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرتی رہے گی اس وقت کامیاب و کامران اور خوشحال رہے گی ، لیکن جب بھی انہیں ترک کرے گی ، ان میں سے برکت اٹھ جائے گی ۔ ذلیل اور پست افراد دوسروں پر حاکم ہو جائیں گے تو پھر ان کا نہ زمین پر مدد گار ہو گا اور نہ آسمان میں۔ (۳۱)
د:مسلمان راہنمائوںکو نصیحت
نصیحت کا لفظ’’نصح‘‘سے لیا گیا ہے جس کا معنی خیرخواہی اور مشورہ ہے ، اسلام اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ امت کے سربراہوں اور قائدین کی خیرو بھلائی کی جائے ، انہیں راہنمائی کی جائے ، مناسب تجاویز اور راہ حل بتائے جائیں ، بروقت مشورے دیئے جائیںاور مثبت و تعمیری تنقید کی جائے ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
تین چیزیں ایسی ہیں کہ کسی مسلمان کا دل بھی ان سے دوری پر راضی نہیں ہے ۔
۱۔ خدا کے لیے خالص عمل
۲۔ مسلم رہبروں اور سربراہوں کی خیرخواہی۔
۳۔ نصیحت اور مسلمانوں کی جماعت سے ہم رنگ اور ہمراہی۔ (۳۲)
امیرالمومنین علیؑ امت کے سربراہوں کے حقوق میں سے ایک آشکارا اور پہناں نصیحت اور خیرخواہی قرار دیتے ہیں ۔(۳۳)
جو کچھ بیان ہوا،اقتداروطاقت کو اسلام میں کنٹرول کرنے کے طریقے اور ذرائع کا بعض حصّہ تھا، اسلام میں ان معیّن شدہ اقدامات اور طریقہ کار میں گہری نظروں سے دیکھنے اور دیگر سیاسی مکاتب اور نظاموں میں موجود طریقوں سے موازنہ کرنے سے اسلامی تفکر اور نظریے کی برتری ، جامعیت اور غیر معمولی تونگری بخوبی نمایاں ہوتی ہے ، مذکورہ باتوں کی روشنی میں اسلام میں اقتدار اور حکومت کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کو جدول کی شکل میں واضح کیا جا سکتا ہے ۔
(حوالہ جات)
(1)Russel Bertrand, Power P# 25, 34, Unwin Books, George, Allen & Ltd
Roskin House, Museum Street Lodon, 1967, Unwin
(2)Weber, Max, Economy & Society, P# 941,8
(3) Poupantgas Micos, Political Power & Social Classes, P # 104 ,14, Translation Editor Timotny O’ Hagan London, New Left, 1973
(4) Arendt Hannah on Violence, Chapter 2, Penguin Books, Lodon 1910
(۵) نبوی ، سید عباس ، فلسفہ قدرت ، باب دوم ، نیز ارسطا ، محمد جواد ، قدرت سیاسی در اسلاد (مقالہ) در آمدی بر اندیشہ سیاسی اسلام (مجموعہ مقالات ) ویراستہ سید صادق حقیقت
(۶) فلسفہ قدرت ، ص ۱۱۷
(۷)مطہرنیا ، مہدی ، قدرت ، انسان ، حکومت ،ص ۲۰۱مزید مطالعے کے لیے دیکھئے ، قدرت ، سیاسی در اسلام
(۸) دیکھئے ، فلسفہ قدرت ، ص ۳۹۸ ، ۴۰۵
(۹) فلسفہ سیاست ، موسئسہ آموزشی ویژو ہستی امام خمینی ؒ ، ص ۹۸ ، ۱۰۰
(۱۰)جوان آراستہ،حسین،بازخوانی امامت،حکومت وتوزیع قدرت درقانون اساسی (مقالہ)،حکومت اساسی،سال ششم،ش ۴،ص ۲۰۴،۲۰۵
(۱۱)مزید معلومات کے لیے دیکھیں ، علیخانی ، علی اکبر ، مشارکت سیاسی ، ص ۲ ، ۱۴۹
(۱۲)دانش پژوہ ، مصطفی وخسروشاہی ، قدرت اللہ ، فلسفہ حقوق ، موسئسہ آموزشی و پژوہستی امام خمینیؒ
(۱۳) ان احق الناس بھذا الامر اقواھم علیہ و اعلھم بامراللہ فیہ ، نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۷۳
(۱۴)وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا ، نساء آیت ۱ ۱۴
(۱۵) دیکھیں ، امام حسین – کا کوفیوں کے نام خط ( یہ روایت عدالت کی شرط میں آئے گی )
(۱۶) ان عملک لیس لک بطمعۃ و لکنہ فی عنقک امانۃ ، نہج البلاغہ ، مکتوب ۵
(۱۷)نہج البلاغہ نامہ ۵ (۱۸)امابعد !فقد شرکتک فی امانتی ،نہج البلاغہ ۵
(۱۹) ہود آیت ۱۱۳ (۲۰) فلعمری ، ماالامام الاالحاکم بالکتاب ، القائم بالقسط ، الدائن بدین الحق
الحابس نفسہ علی ذات اللہ ، الکامل ابن اثیر ، ج ۴ ، ص ۲۱ ، نیز الارشاد المیز ، ص ۱۸۶
(۲۱)کافی،ج ۱، ص ۴۰۷ ، کتاب الحجہ ، باب ما یحب من حق الامام علی الرعیۃ ، ج ۸ ، عن ابیجعفر – قال : قال رسول اللہ ؐ ، لا تصلح الامامۃ الالرجل فیہ ثلاث خصال : ورع یحجزہ عن معاصی اللہ ، و حلم یملک بہ غضبہ ، وحسن الولایۃ علی من یلی حتی یکون لھم کالوالد الرحیم
(۲۲)کافی ، ج ۱ ، ص ۴۰۷ ، کتاب الحجہ ، باب ما یحب من حق الامام علی الرعیۃ ، ج ۸ ، عن ابیجعفر – قال : قال رسول اللہ ؐ ، لا تصلح الامامۃ الالرجل فیہ ثلاث خصال : ورع یحجزہ عن معاصی اللہ ، و حلم یملک بہ غضبہ ، وحسن الولایۃ علی من یلی حتی یکون لھم کالوالد الرحیم
(۲۳)سورہ نساء آیت ۱ ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبً
(۲۴) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۶۱
(۲۵) ان لی علیکم حقا و لکم علی حق ، نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۴
(۲۶) واعظی ، احمد ، جامعہ دینی ، جامعہ مدنی ، ص ۱۲۹ ، ۱۳۲
(۲۷) بحار الانوار ، ج ۷۵ ، باب ۳۵ ، ح ۳۶ ، ص ۳۸
(۲۸) صحیفہ نور ، ج ۸ ، ص ۴۷
(۲۹) من اصبح ولم یھتم بامور المسلمین فلیس منھم ومن سمع منادیاً ینادی یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم،
اصول کافی ، ج ۲ ، کتاب الایمان و الکفر، باب الاہتمام بامور المسلمین ، ج ۱ ، ۵
(۳۰) آل عمران ، آیت ۱۱۰ (۳۱) وسائل الشیعہ ، ج ۱۱ ، ص ۳۹۸ ، ح ۱۸ ، طبع بیروت
(۳۲) بحار الانوار ، ج ۷۷ ، باب ۶ ، ح ۳۹ ، ص ۱۳۲
(۳۳) واما حقی علیکم فالنصیحۃ فی المشہد والمغیب ، نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۴