استبداد اور دینی حکومت
سوال ۴۳:کیا اسلامی حکومت ، ایک طرح کا دینی استبداد اور ڈکٹیٹرشپ نہیں ہے ؟
اس مسئلے پر تحقیق کرنے سے پہلے آمرانہ اور استبدادی نظام کی تعریف اور اس کی خصوصیات میں غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔جس کے بعد اس حوالے سے اسلامی حکومت کا جائزہ لینا چاہیے،آمرانہ نظام کی صحیح اور مشخّص تعریف کیا ہے ؟اس بارے میں آراء مختلف ہیں ، یہاں پر استبدادی نظاموں ، ان کی چند خصوصیات اور استعمالات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔
۱۔آمرانہ حکومت :
استبداد/آمریت کا لفظ کبھی (Autoarchy) کے مساوی معنوں میں استعمال ہوتا ہے،اس استعمال کے دومعنی ’’اپنے پرحکومت ‘‘اور’’حکومت مطلقہ ‘‘ذکر کیے گئے ہیں ۔(۱)
اس کا دوسرا استعمال (Despotism) کے معنی میں ہوتاہے،’’نظام ڈسپونیسٹی اور استبددای ‘‘کی یوں تعریف کی گئی ہے ۔
وہ نظام جس میں اقتدار حکومت اور لا محدود اختیارات ایک ظالم اور آمرجیسے سلطان کے سپرد کیے گئے ہوں ۔
عبدالرحمن کواکبی کی رائے کے مطابق استبدادسے مرادایک قوم کے حقوق کے ساتھ ایک شخص یاچندافرادکاکسی خوف و خطرکے بغیرکھیلناہے،ایک اورتعریف اس طرح کی گئی ہے کہ ہرقسم کا اقتدارجس کی قانونی حیثیت یاطرزحکومت تمام لوگوں کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔(۲)
کبھی استبدادڈکٹیٹرشپ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی تعریف میں کہا گیاہے کہ ایک شخص ،گروہ یا طبقے کی بلا شرط و قید حکومت،جس میں لوگوں کی مرضی شامل نہ ہو۔
ڈکٹیٹرشپ کی بعض خصوصیات یہ ہیں
۱۔ایسے اصول اورقانون کانہ ہوناجس کی بنیادپرحکمران اپنے اعمال اورکارکردگی کا جوابدہ ہو۔
۲۔غیر قانونی طریقے سے اقتدار حاصل کرنا
۳۔اقتدار اور تسلط کے لیے کسی حدود و قیود کا نہ ہونا
۴۔جانشینی کے لیے کلیہ اور قانون کا فقدان
۵۔ایک مخصوص طبقے کے مفادات کی خاطرڈر،خوف اورظالمانہ طریقے سے طاقت کی استعمال ۔
۶۔لوگوں کا خوف اور ڈر کی وجہ سے فرمانبرداری کرنا۔ (۳)
فردمحوری،من مانی ، ذاتی خواہش اور مرضی کے مطابق طاقت کا استعمال ، حکمران ٹولے یا ایک فرد کے ارادوں ،خواہشات اور رحجانات کے تابع قانون، آمرانہ حکومت کی اہم خصوصیات ہیں،لوئی چہاردھم کا دعویٰ تھا کہ :
حکومت بھی میں ہوں اور حکومت کا قانون میرے سینے میں ہے (۴)
۲۔دینی حکومت کی خصوصیات
الف:اسلام میں خود غرضی (Egoism) ، خود محوری اور جاہ طلبی کی سخت مذمت کی گئی ہے ، قرآن کی رو سے جو کوئی ہواوہوس کی خاطراور خود غرضی کی بنا پر اقتدار کو حاصل کرے وہ طاغوت ہے اوراس سے مقابلہ کرنا چاہیے(۵)اسلام میں ’’حکومت ‘‘ ایک عہد الٰہی ہے ، اس کی ذمہ داری کابوجھ صرف رضائے الٰہی کے حصول اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت اپنے کاندھوں پر اٹھایا جا سکتا ہے ، حضرت علی – آذربایجان کے گورنر اشعث بن قیس کے نام خط میں لکھتے ہیں :
ان عملک لیس یک مطعمۃ ولکنہ فی عنقک امانۃ (۶)
تیرا یہ عہدہ کوئی لقمہ تر نہیں بلکہ تیری گردن پر امانت ہے ۔
اس بنا پر دینی اور آمر حکومت کے درمیان بنیادی فرق ان کا سرچشمہ ہے،استبدادی اورآمرحکومت خودمحوری ہے جبکہ دینی حکومت کا محور خدا اور خیرخواہی ہے۔
ب:دینی / اسلامی حکومت اور آمرانہ نظام میں دوسرا فرق حکمران اور حکومتی کارندوں کی شرائط کےلحاظ سے ہے،اسلامی حکومت میں باصلاحیت افراد برسرکار ہوتے ہیں جو علمی اور اخلاقی معیارپرپورانہ اترتاہواس کی حکومت ناقابل قبول ہے جبکہ آمراور جابر نظام کی بنیادصلاحیت اور معیارپرنہیں ہے۔
ج:ڈکٹیٹرشپ قانون سے فاقد ہے یا یہ کہ اس میں قانون حکمران کی خواہش اور ارادے کے تابع ہوتا ہے جبکہ دینی حکومت میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے ، اس کا بنیادی فلسفہ قوانین الٰہی کا نفاذہے جو کہ انسانوں کے حقیقی مفادات اور مصالح پرمشتمل ہوتے ہیں۔
د:آمرحکومت کبھی بھی عوام کو شریک کار نہیں بناتی اور اس میںحکمرانوں کی نگرانی اور نظارت کا کوئی تصور نہیں ہے جبکہ اسلامی حکومت میں وسیع پیمانے پر حکومتی امور میں عوام شریک کار ہوتی ہے اوراس میں نگرانی اور نظارت کا مضبوط ترین نظام موجود ہے۔(۷)
اس بنا پر خود غرضی ، من مانی، ذات محوری ، شخصیت پرستی ، زبردستی ، قانون کی خلاف ورزی ، ذمہ داریوں سے فرار ، عوام کی مرضی اور خواہش کی مخالفت اور انہیں شریک کار نہ بنانا استبدادی نظاموں کی بنیادی ترین خصوصیات ہیں، جن کادینی حکومت کی ماہیت اور حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیںبلکہ حکومت دینی کا اہم ترین فلسفہ ظلم و استبداد سے جنگ کرنا ہے۔
امیر المومنین ؑ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اقتدار اور حکومت قبول کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہیں :
اے میرے اللہ! توخوب جانتا ہے جو کچھ ہم نے کیا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط اوراقتدارکی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی ، میرا مقصدصرف یہ تھا کہ تیرے دین کی تعلیمات کو قائم کریں اور تیروں شہروں میں امن وبہبودی کی صورت پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی ڈر و خوف نہ رہے اور تیرے دین کی معطل حدود قائم ہو جائیں ۔ (۸)
(حوالہ جات)
(۱)آقا بخشی ، علی ، فرہنگ علوم سیاسی ، ص ۲۴
(۲)آقا ، بخشی ، علی ، فرہنگ علوم سیاسی ، ص ۸۹
(۳)حوالہ سابق ، ص ۹۱
(۴) بنیادہای علم سیاسست ، ص ۷۸
(۵)نساء ، آیت ۶۰
(۶)نہج البلاغہ ، مکتبوب نمبر ۵
(۷)مزید معلومات کے لیے دیکھیں ، سوال ۴۴ کا جواب
(۸) اللھم انک تعلم انہ لم یکن الذی کان منامنا فسۃ فی سلطان ولاالتماس شیئی من فضول الحطام ولکن لنرد المعالم من دینک و نظھر الاصلاح فی بلادک فیا من المظلومون من عبادک و تقام المعطلۃ من حدودک ، نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۳۱