نظامِ عالم اور معجزہ
سوال ۷۹:۔ خداوندعالم نظامِ عالم پیدا کرنے کے بعد اپنے خلق کردہ نظام کے مقابلہ میں حاکم قوانین سے اب کوئی کام نہیں رکھتا اور اس نظام کو ہاتھ نہیں لگاتا، اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے معجزہ، کرامت وغیرہ کیا ہیں؟ کیونکہ معجزہ و کرامت وغیرہ نظامِ عالم کو درہم برہم کرتا ہے درحالانکہ خداوندِعالم نے جہان کو نظامِ احسن کے ساتھ پیدا کیا ہے؟
ہم ایک نظامِ علّی رکھتے ہیں اور ایک نظامِ عادی، خداوندِ قدوس نے جہان کو نظامِ علّی یا علت و معلول کی بنیاد پر خلق کیا ہے یعنی ہرمعلول علّت خاص کے ساتھ مربوط ہے اور علتِ خاص سے مخصوص معلول پیدا ہوتا ہے، کائنات پر حاکم نظامِ علّی کے بنیادی قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ خداوندِ قدوس کو چاہیے کہ انسان کی پرورش کرے۔ اس کی تربیت کرے، ہدایت دے اور وحی و نبوت اسے عطا کرے، لوگ تو نہیں جانتے کہ فلاں شخص پیغمبرہے یا نہیں، اس بناء پر پیغمبرکی تشخیص کے لیے ناچار ہیں کہ کرامت و معجزہ سے استفادہ کریں۔
پیغمبرکے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی ایسی علامت لے آئے جو اس کے دعویٰ کو ثابت کرے اور پیغمبرکے دعویٰ کی درستگی کی علامت اس کا معجزہ ہے، اس بنا پر (معجزہ کے ہمراہ) خود وحی، نبوت کے جہان پر حاکم نظام علّیِ کی جز ہے، وہ کام جو معجزہ کرتا ہے یہ نہیں کہ نظام عِلّی کو تباہ کرے بلکہ معجزہ خرقِ عادت ہے نہ کہ خرقِ علیت، اعجاز کا معنی یہ نہیں کہ معلول علت کے بغیر پیدا ہو بلکہ اعجاز کا معنی یہ ہے کہ یہ شئی (معجزہ) بہت سی علتیں رکھتی ہے، جن میں سے بعض معلوم ہیں اور بعض نامعلوم ہیں مگر اولیاء الٰہی کو وہ بھی معلوم ہیں، اگر شناختہ شدہ علل کے ذریعے کوئی کام ہو تو نظامِ علّی، عادی دونوں کے مطابق ہے اور اگر ناشناختہ شدہ علل کے ذریعے کوئی کام ہو تو نظامِ علّی کے مطابق ہے لیکن عادی نہیں اور معجزہ خرقِ عادی ہے نہ کہ خرق علیت، یعنی عادت کے بر عکس ہے نہ کہ علت کے بر عکس، اس بنا پر جہان پر حاکم یہ نظام معجزہ و کرامت سے درہم برہم نہیں ہوتا اور کوئی چیزتبدیل نہیں ہوتی۔