ہیپناٹزم اور کمال
سوال۲۶ : ۔ کیا کمال تک رسائی کے لیے ہیپناٹزم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ؟
ہیپناٹزم کمال تک رسائی کا راستہ نہیں، کبھی ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ انسان مصنوعی خواب سے مدد حاصل کرے، وگرنہ صادق ومستقیم راستہ وہی ہے جس پر انبیاء چلے ہیں اور دوسروں کو دکھایا کہ یہ راہِ کمال ہے، انسان راہِ حق کو سمجھتا ہے پھر اعتدال کے ساتھ اس راہ پر حرکت کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتا ہے، یہ راستہ راہِ کمال ہے، ہمیں کہا گیا ہے کہ راہِ کمال بہت آسان ہے، مشکل نہیں، تو پھر ہم کیوں ہپیٹانزم جیسے راستوں کی پیروی کریں، قرآن کی تعبیر یہ ہے:
لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ(۱)
ہم نے قرآن کو یاد حق کے لیے آسان قرار دیا ہے
ہم نے قرآن کو یادِ حق کے لیے آسان قرار دیا ہے، آپ اگر خود کو برے کاموں کی عادت نہ ڈالیں تو اچھے کام بہت آسان ہیں، آپ الحمد للہ سگریٹ نوش نہیں تو بہت آسانی سے
اسے چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ آپ نے اپنے جسم کو اس کا عادی نہیں کیا، اب آپ کے لیے سگریٹ نہ پینا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ جوانی میں آپ نے اپنے آپ کو ان زہروں کا عادی نہیں بنایا، لیکن اگر کسی نے اپنے آپ کو ان زہروں کا عادی کیا ہے کیونکہ یہ کام بدن پر مسلط کیا گیا ہے، اس کا ترک کرنا مشکل ہے، گناہ حقیقتاً ہمارے لیے اسی طرح ہیں، امیر المومنین – نے فرمایا :
تَعَطّروا بِالْاِسْتِغْفارِلاٰتَفْضَحَکُمْ رَوٰائِحُ الذُّنُوب (۲)
استغفار کے ساتھ معطر ہوجائو اور اپنی روحوں کو گناہوں کے ساتھ آلود ہ مت کرو۔
عطرکی دوقسمیں ہیں: عطرِ ظاہری، جس کا استعمال مستحب ہے، بالخصوص نماز کے موقع پر اور عطرباطنی، جو روح کی قوت شامہ کو پروان چڑھاتا ہے اور وہ روح کی طہارت و فضیلت ہے۔
روایات میں کہا گیا ہے، استغفار کے ذریعے خود کو معطر کرو وگرنہ گناہ کی بدبو تمہاری آبرو ختم کر دے گی، وہ لوگ جو مکتب ِ اہلِ بیتؑ سے آشنا ہوئے ہیں، وہ بہت آسانی سے گناہ سے دور رہتے ہیں اور اجازت نہیں دیتے کہ گناہ کی متعفن بو ان کی روح کو آلودہ کرے البتہ ابتداء میں ان کی مشق کرناذرا مشکل ہے، لیکن اس کے بعد بہت آسان ہو جاتا ہے، پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی کہ انسان غیر عادی و غیر طبیعی کاموں جیسے ہیپناٹزم سے استفادہ کرے۔
(حوالہ جات)
(۱)سورہ قمرآیت۱۷
(۲)بحار الانوارج۹۰،ص۲۷۸