دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

فلسفۂ محرم الحرام ؛قسط سوم

(سید شاہد جمال رضوی)

محرم؛ ظلم و ظالم سے اظہار نفرت کا ذریعہ
ظالم و مظلوم صفحۂ عالم پر ہمیشہ دست و گریبان رہے ہیں ، ظالم و مظلوم کی یہ جنگ ہمیشہ سے ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی ، ظلم کی آواز اٹھے گی تو مظلوم اپنے قیمتی خون کے ذریعہ ان کریہہ آوازوں پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور کوشش کرے گا اور کامیاب رہے گا لیکن یہ فریبی دنیا کسی کی نہیں ،ظالم اپنے گھناؤنے ظلم و ستم کے باوجود لوگوں کی نگاہوں میں سرخرو ہونا چاہتاہے چونکہ اس کے پاس وسائل و اسباب کی فراوانی ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے چھچھورے اہداف و مقاصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ تنہا حسینؑ مظلوم کی جرائت و ہمت تھی کہ چند گھنٹوں میں وہ کام کر ڈالا جسے رہتی دنیا تک پورا عالم انسانیت انجام دینے سے قاصر و عاجز ہے۔زیادہ نہیں دن کے مختصر سے حصے میں اپنے اور اعزہ و اصحاب کے رنگین خون سے ظلم کی تصویر میں ایسا گہرا رنگ بھر دیا کہ کوسوں دور سے ، صدیوں کے فاصلہ سے بھی ظلم اور ظالم کی صورت ہر انسان دیکھ سکتاہے ۔

جب بھی حق تلفی پہ مظلوم کا دل جلتا ہے
چشم ظالم میں وہ مسموم دھواں لگتا ہے

کتنی پرکار و مؤثر ہے مگر یاد حسینؑ
غصب کے نام سے ہر باپ کا جی ڈرتا ہے
شعورگوپال پوری مرحوم

آج جب اسی لہو کے رنگ کو مصائب کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیاجاتاہے تو کیا کوئی ایسا دل ہے جو مظلوم کی حمایت میں ایک صدائے آہ بلند نہ کرے اور ظالم کی اس گھناؤنی حرکت کے خلاف اظہار بیزاری کرتے ہوئے اسے لعنت ملامت نہ کرے۔ یقیناً اگر انسان کی انسانیت زندہ ہے اور اس کے وجود میں درد مند دل دھڑکتا ہے تو وہ ظالم کے خلاف ایک آواز ضرور بلند کرے گا ۔ اور محرم الحرام کے جہاں بہت سے اہداف و مقاصد ہیں وہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان ایام میں ظالم اور ظلم سے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا جائے۔ خود ائمہ معصومین نے ایام عزامیں اگر ایک طرف مظلوم امام پر گریہ و زاری کی ہے اور خون کے آنسو بہائے ہیں وہیں دوسری طرف ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجی ہے ، زیارت عاشورہ اس کی واضح ترین دلیل ہے۔

Related Articles

Back to top button