منظوری ومشروعیّت
سوال۳۰:اسلامی حکومت بالخصوص نظریہ ولایت فقیہ میں منظوری اور مشروعیّت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟
مشروعیّت کے حوالے سے مذکورہ دو نظریے ( تقرری اور انتخاب ) مشروعیّت اور منظوری کے باہمی تعلق کے بارے میں متفاوت نتیجہ دیں گے ۔
الف: نظریہ’’انتخاب‘‘کے مطابق’’منظوری اور مشروعیّت کے درمیان وخصوص مطلق کی نسبت ہے،منظوری(مقبولیت)مشروعیّت‘‘سے اہم ہے،باالفاظ دیگرمنظوری دیگرشرائط (جیسے فقاہت، صلاحیت، عدالت)کی موجودگی میں مشروعیّت پرہی منتج ہوتی ہے، منظوری(مقبولیت) کے بغیرقابل تصورنہیں ہے،اس لحاظ سے مشروعیّت منظوری سے اخص ہوگی کیونکہ مشروعیّت ہمیشہ منظوری(مقبولیت)سے مشروط ہے،اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے یہ کہا جائے کہ اس تعلق میں تین صورتیں فرض کی جاسکتی ہیں ۔
۱۔عوامی طورپرقبولیت کادیگرشرائط کیساتھ ہونااجتماعی رہبریت اورقیادت کیلئے لازمی ہے،اس صورت میں نتیجہ مشروعیّت ہے( قبولیت ، فقاہت ، عدالت ، صلاحیت ‘‘ مشروعیّت )
۲ ۔منظور ی کا دیگر شرعی شرائط کے بغیر ہونا ، عدم مشروعیّت کا باعث ہے ( منظوری : ’’ فقاہت یاصلاحیت ‘‘
۳:عدم مشروعیّت:شریعت میں مقررشدہ تمام شرائط(سوائے عوام کی منظوری کے)کاہونا مساوی ہے عدم مشروعیّت کے۔
ب : نظریہ تقرری ( نصب کرنا ) کی رُو سے مشروعیّت اور منظوری کے درمیان عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے،یعنی یہ نظریہ تیسرے فرض میں سابقہ نظریے سے متفاوت ہوجائے گا اس لحاظ سے مفروضہ صورتیں کچھ یوں بن جائیں گی ۔
۱۔عوامی حمایت اورقبولیت،شرعی شرائط کیساتھ،مشروعیّت کاموجب ہے۔(منظوری+ ’’فقاہت ، عدالت ، صلاحیت ‘‘:مشروعیّت)
۲۔عوامی منظوری ، شرعی شرائط کے بغیر، عدم مشروعیّت کے مساوی ہے ۔
(منظوری: ’’فقاہت یا عدالت یا صلاحیت : عدم مشروعیّت )
البتہ اس نظریے کی بنیاد پر بھی ایسا نہیں ہے کہ ولی فقیہ ہر صورت اور ہر حالت میں سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کا مجاز نہیں ہے اور حکمرانی کرنے کا حق نہیں رکھتا ، کیونکہ منظوری یا عوامی حمایت کی مطلوبہ مقدار کے بغیر حکومت کی تشکیل کا امکان اور عملی طور پر اس کی کامیابی بہت ہی کم یا بالکل نا ممکن ہوگی۔
دوسری طرف اسلام میں ظالمانہ اور جبر و استبداد کے ذریعے اقتدار کا حصول جائز نہیں ہے،جو چیز نظریہ انتصاب ( تقرری) کی رو سے اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ولی فقیہ عوامی اور اجتماعی حمایت کے زمانے میں ولایت تو رکھتا ہے اگرچہ حکومت اور حاکمیت اس کے پاس نہیں ہے، جیسا کہ امیر المومنین ؑ خلفائے ثلاثہ کے دور میں ولایت اور مشروعیّت کے حامل تھے لیکن ظاہری حکومت ان کے پاس نہ تھی ، اس طرح کی مشروعیّت کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ’’ولی امر‘‘اس طرح کی حالت میں کوئی حکومتی فرمان صادر کرے تو وہ اس حکم کے صادر کرنے کامجاز ہے اور اس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہے جبکہ’’نظریہ انتخاب‘‘کی رُو سے اُسے ولایت ہی حاصل نہیں ہے کہ وہ فرمان صادر کرے اور حکم کے جاری ہونے کی صورت میں عوام پر اس کی اطاعت واجب نہیں ہے ۔
یہ نکتہ کہ ولی فقیہ سیاسی اقتدار کے بغیر ، حکومتی فرمان جاری کر سکتا ہے ، اس کا معنی آمریت نہیں ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زبردستی ، آمرانہ یا دھوکا و فریب اور شب خون مار کر اقتدار حاصل نہیں کر سکتا اور اپنے ارادے کو دوسروں پر نہیں ٹھونس سکتا ، اگرچہ دوسرے اس کے حکم کی پیروی نہ کر کے گناہ کے مرتکب ہوں گے ۔
امیرالمومنین حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
رسول االلہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
اے ابوطالبؑ کے فرزند!میری امت کی سرپرستی اورولایت تمہاراحق ہے پس اگر وہ لڑائی جھگڑے کے بغیراقتدارتیرے حوالے کردیں اور تیری حکومت پررضاورغبت کااظہارکریں اورمتفق ہوں توان کی سرپرستی کوقبول کرلینا،لیکن اگروہ ایسانہ کریں توانہیں ان کے حال پرچھوڑ دینا۔(۱)
یہ روایت چند نکات کی نشاندہی کرتی ہے :
۱۔امیرالمومنین ؑ، پیغمبراکرم ﷺ کی طرف سے منصوب کئے گئے ، پس بنیادی طور پر ولایت لوگوں کی رائے اور ووٹ سے وابستہ نہیں ہے ۔
۲۔ولایت کے اختیارات کا استعمال عوامی حمایت اورقبولیت کیساتھ مشروط ہے،بنا بریں جب کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ولایت پر منصوب ہوتا ہے تو اس کی ولایت ہمیشہ ثابت اور استوارہوتی ہے (خواہ لوگ اسے قبول کریں یا نہ کریں ) اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اس کی پیروی کرے،لیکن ولی امر کی جانب سے عملی طور پر حکومت کی تشکیل، عوامی آراء اورحمایت ، مناسب حالات اور شرائط پر موقوف ہے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح معاشرے پر ولی امرکی اطاعت اور پیروی کرنا واجب ہے اسی طرح ولی منصوب کی بھی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں، وہ معاشرے کی قیادت اور اس کے امور کو چلانے کی بھاری ذمہ داری ادا کرتا ہے،اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اجتماعی حالات کا مناسب اور سازگار ہونا ضروری ہے ، جس کے لیے عوام کی حمایت اور قبولیت، اہم ترین عامل شمار کیا جاتا ہے ۔
امام خمینیؒ ولایتِ فقیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
اگرفقہاء کیلئے حکومت کا قیام ممکن نہ ہو تو اگرچہ وہ اسلامی حکومت کے عدم قیام پرگناہگار نہیںہیں ، لیکن ان کا منصب ِولایت ساقط نہیں ہو گا بلکہ برقرار رہے گا ، باوجود اس کے کہ ان کے پاس حکومت نہیں ہے وہ پھربھی مسلمانوں کے امور بلکہ مسلمانوں کے نفوس پر ولایت رکھتے ہیں ۔(۲)
گزشتہ تمام گفتگو کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی حکمران کی عوامی مقبولیت اور حمایت کردار اور اثر دونوں نظریوں کی بنیاد پر یوں سامنے آتا ہے ۔
۱۔نظریۂ تقررکی رُو سے عوامی حمایت کا اثر
الف: اسلامی حکومت کی تشکیل اور اللہ تعالیٰ کی طرف منصوب ولی کو اقتدار سوپنے کے لیے زمین ہموار کرنے میں معاونت اور شراکت ۔
ب: اسلامی حکومت کے استحکام،حفاظت،حمایت وغیرہ کی کارکردگی کومفیدتربنانے میں شریک ہونا۔
مذکورہ دو اثرات اسلامی حکومت کے تمام مصادیق (خواہ وہ رسول خدا ؐکی حکومت ہویاامام معصوم ؑیاولی فقیہ کی حکومت ہو)میںجاری و ساری ہیں،البتہ ولی فقیہ اور اسلامی جمہوریہ کے نظام میں بطور خاص ایک اور اثر بھی موجودہے۔
ج:جب(متعدد فقہاء میں سے ) ایک شخص میں رہبریت اور قیادت کی شرائط پائی جائیں تو اس صورت میں عوام اپنی رائے اور انتخاب کے ذریعے سے بالواسطہ طور پر ولیّ منصوب اور مرضی الٰہی کی تشخیص اور انکشاف میں شریک ہیں ، البتہ خبرگان کے ذریعے سے رہبریت اور قیادت کی اہلیت رکھنے والے متعدد فقہا کی موجودگی کی صورت میں عوام کی رائے شارع کی طرف مقررکیے جانے والے افراد میں سے ایک فرد کی ولایت کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے معقول اورعقلائی ماحول فراہم کرتی ہے،اس کے نتیجے میں دوسروں کے لیے اقتدار کی راہیں مسدودہوجاتی ہیں اور ان کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا ہرج ومرج سے بچنے کے لیے وہ اپنی ولایت کو استعمال کرنے کا حق نہیں رکھے گا ۔
۲۔نظریہ انتخاب کی رُو سے عوامی حمایت کا اثر
یہ نظریہ پہلے اور دوسرے نکتے میں تو نظریہ انتصاب کے ساتھ متفق ہے،البتہ تیسرے نکتے کے حوالے سے اس کی رائے کچھ اور ہے ،یعنی اس کی نگاہ میں عوام کی رائے یا عمومی طورپرمنتخب شدہ خبرگان کا چنائو شرعی جزو کے طور پر موضوعیت رکھتا ہے نہ کہ عقلی طریقے سے۔
دوسرے لفظوں میں عوام کی رائے ، عدالت اور فقاہت کی طرح ولایت کی شرعی شرائط میں سے ہے اور اس کے بغیر فقیہ جامع الشرائط شرعی لحاظ سے ولایت نہیں رکھتا ، پس رہبریت کی اہلیت رکھنے والے ایک ہوں یا متعدد اس کی رو سے مسئلہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔(۳)
(حوالہ جات)
(۱) یا بن ابی طالب لک ولاء امتی فان و لوک فی عافیۃ واجمعوا علیک بالرضا فقم بامرھم والا فدعھم و ما ھم فیہ ، کشف المحجۃ ، ص ۱۸۰
(۲) ۔ امام خمینی ؒ ، البیع ، ج ۲ ، ص ۴۶۶
(۳) مزید مطالعے کے لیے ، حکومت اسلامی ، سال دوم ، شمارہ ۴ ، ص ۱۰۵ ، ۱۰۶ ، ۱۰۷