خاندان اور تربیتمقالات

آثار تقویٰ

استاد آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری ؒ

تقویٰ کے دو خاص اثر:
قرآن مجید میں تقویٰ کے جن دو خاص اثرات کا ذکر ہے، زیر نظر تحریر میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ ان میں سے ایک روشن ضمیری اور بصیرت ہے جس کے متعلق سورہ ٔ انفال کی آیت ۲۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إَن تَتَّقُواْ اللّہَ یَجْعَل لَّکُمْ فُرْقَاناً
اگر تمہیں تقوی الٰہی حاصل ہوگا تو اللہ تمہارے لیے ایسی کسوٹی بہم پہنچادے گا جس سے تم برے بھلے کی تمیز کر سکو۔
تقویٰ کا دوسرا اثرمشکلات میں آسانی پیدا ہونا ہے ۔ سورۃ طلاق کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً
جسے تقویٰ الٰہی حاصل ہوگا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا کردے گا۔
اسی سورہ میںدو آیات کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْراً
جسے تقویٰ الٰہی حاصل ہو گا اللہ اس کے کاموں میں ایک طرح کی آسانی پیدا کر دے گا۔
تقویٰ اور روشن ضمیری:
جہاں تک تقویٰ کے پہلے اثر کا تعلق ہے اس کے متعلق قرآن مجید میں یہی ایک آیت نہیں بلکہ یہ تو اسلام میں ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس حقیقت کی طرف قرآن کی متعددآیات میں اشارہ ہے، احادیث نبویؐ اور روایات ائمہ اطہارؑ میں بھی یہ مضمون باربار دہرایا گیا ہے، اور یہی وہ مضمون ہے جس سے سلوک و عرفان کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اہل عرفان نے تو آیۂ کریمہ
یایھاالذین امنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی
سے بھی استدلال کیا ہے، یہ قرآن شریف کی طویل ترین آیت ہے، اس کا وہ حصہ جس میں تقویٰ کے اثر کی طرف اشارہ ہے یہ ہے :
واتقوااللہ و یعلمکم اللہ
تقویٰ الٰہی اختیار کرو ، اللہ تمہیں تعلیم دے گا ۔

کہتے ہیں کہ اس آیت میں تقویٰ کے بعد تعلیم کا جو ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی صورت میں خاص فیضان الہٰی سے تمہیں تعلیم دی جائے گی۔

حدیث نبوی ؐ ہے:
جاھدو اانفسکم علی اھوائکم تحل قلوبکم الحکمۃ
ہواو ہوس کے خلاف جہاد کرو تاکہ حکمت تمہارے دلوں میں جاگزیں ہو جائے۔
ایک اور حدیث نبوی ہے اور اسلامی کتابوں میں یہ حدیث خاصی مشہور ہے:
من اخلص للّٰہ اربعین صباحاجرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ
جو اللہ کے لئے چالیس روز مخصوص کردے گا حکمت کے چشمے اس کے دل سے پھوٹیں گے اور اس کی زبان پر جاری ہو جائیں گے ۔
یہی مضمون الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اصول کافی، باب الاخلاص میں امام محمد باقر ؑسے منقول ہے:
جو شخص خلوصِ دل سے چالیس روز تک اللہ پر ایمان رکھے گا یاامام محمد باقر ؑ نے فرمایا : جو شخص چالیس روز تک اللہ کو خوب یاد کرے گااللہ اسے دنیا میں زہد عطا کرے گا اور اسے ایسی بصیرت دے گا کہ اسے دنیا کی بیماریاں اور ان کا علاج نظر آنے لگے گا۔ حکمت اس کے قلب میں جاگزیں کردے گا جو اس کی زبان پر جاری ہوجائے گی ۔

حافظ نے مندرجہ ذیل رباعی میں اس مشہور حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے:
شنیدم رہردِ در سر زمینے
ہمی گفت این معماّ باقرینے
کہ اے صوفی شراب آنگہ شود صاف
کہ در شیشہ بماند اربعینی
میں نے کسی مقام پر ایک مسافر کی بات سنی جو اپنے دوست سے یہ معمہ کہہ رہاتھا کہ اے صوفی شراب اس وقت صاف ہوتی ہے جب شیشہ میں چالیس دن تک رہے۔
حضرت علامہ محمد حسین طباطبائی نے اپنی تفسیر ’’المیزان ‘‘ میں اہل تسنّن کی کتابوں سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ جناب رسول اکرم ؐ نے فرمایا:
لولاتکثیرفی کلامکم و تمریج فی قلوبکم لرایتم ما اری و لسمعتم ما اسمع
اگر تم یا وہ گوئی میں مبتلا نہ ہوتے اور لغو خیالات تمہارے دل میں نہ گھسے پھرتے تو تم بھی وہی کچھ دیکھتے جو میں دیکھتاہوں اور وہی کچھ سنتے جو میں سنتاہوں۔
اس حدیث میں تَمرِ یج کا لفظ ہے جس کا مادہ مَرج ہے اس کے معنی چمن زار اور چراگاہ کے ہیں جس میں ہر جانور داخل ہوسکتاہے اور چر سکتا ہے، رسول ؐ خدا فرماتے ہیں کہ تمہارے دل کھلی ہوئی چراگاہ کی مانند ہیں جس میں ہر قسم کے جانور داخل ہوسکتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں امام صادق ؑ فرماتے ہیں: اگر شیاطین فرزندانِ آدم کے دلوں کے ارد گرد نہ گھومتے پھرتے تو وہ بھی ملکوت ِ سماوی کا مشاہدہ کر سکتے تھے۔

اس قسم کی روایات ہماری دینی کتابوں میں بہت ہیں جن میں تقویٰ اور گناہوں سے پرہیز کو براہ راست بصیرت اور روشن ضمیری کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے یا بالواسطہ طور پر یہی مضمون بیان کیا گیا ہے مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ ہواپرستی اور ترک ِ تقویٰ کا نتیجہ روح کی تاریکی، دل کی تیرگی اور نور ِ عقل کا خاتمہ ہے۔

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
من عشق شیعاً اعشی بصرہ و امرض قلبہ
کسی چیز کی حد سے بڑھی ہوئی محبت آنکھ کو اندھا اور دل کو بیمار کردیتی ہے ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۷)
نہج البلاغہ میں آپ کا ایک اور ملفوظہ ہے:
عجب المرء بنفسہ احد حسادعقلہ
آدمی کی خود پسندی اس کی عقل کی دشمن ہے ۔
آپ ہی کا ایک اور قول ہے :
اکثر مصارع العقول تحت بروق المطامع
عموماً عقل وہاں ماری جاتی ہے جہاں لالچ کی بجلی چمکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں تو یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، اسلامی ادبیات میں بھی خواہ وہ عربی ہو یا فارسی ، اس حقیقت کی طرف جا بجا اشارے ملتے ہیں ادباء اور فضلاء نے اس مضمون کو اقتباس کرکے اس سے خوب کام لیا ہے، یوں کہا جاسکتاہے کہ یہ مضمون اسلامی ادبیات کا ایک اہم ستون ہے، نمونہ کے طور پر ابوالفتح بستی کے مشہور قصیدہ نونیہ کا ایک شعر تمثیلاً پیش خدمت ہے، قصیدہ کا مطلع یہ ہے۔
زیادہ المرء فی دنیا ہ نقصان
و ربحہ غیر محض الخیر خسران
یہ قصیدہ ادبیات عربی کا شاہکار تصور ہوتاہے جس شعر سے ہمیں استشہاد مقصود ہے وہ یہ ہے :
ھما رضیعالبان حکمۃ و تقی
و ساکنا وطن ما ل وطغیان
حکومت اور تقویٰ دودھ شریک بھائی ہیں اور دولت و سرکشی کا چولی دامن کاساتھ ہے ۔

سعدی نے بوستان میں سلطان محمود غزنوی اور ایاز کی محبت کا قصہّ بیان کیا ہے اور اس میں محمود پر ملامت کی ہے، آخر میں کہتے ہیں:
حقیقت سرا است آراستہ
ہواو ہوس گرد برخاستہ
نہ بینی کہ ہر جاکہ برخاست گرد
نہ بیند نظر گرچہ بینا ست مرد
حقیقت کی مثال ایک آراستہ مکان کی سی ہے مگر ہوا و ہوس نے گرد اڑا رکھی ہے، تم دیکھو گے جہاں گرد اڑ رہی ہو وہاں اچھے بھلے بینا آدمی کو کچھ نظر نہیں آتا
گلستان میں کہتے ہیں :
بدوزد شدہ دیدہ ہوشمند
در آرد طمع مرغ و ماہی بہ بند
لالچ ایسی بلا ہے کہ ہو شیار آدمی کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے، لالچ مرغ و مچھلی کو جال میں پھنسا دیتی ہے ۔

حافظ کہتے ہیں:
جمال یا رندارد نقاب و پردہ دلے
غبارِ رہ بنشاں تا نظر تو انی کرد
جمالِ یار پردہ میں چھپا ہوانہیں ہے ،لیکن غبار رہ کو دور کرو تاکہ کچھ نظر آئے
اس طرح کے مضامین عربی اور فارسی ادب میں بکثرت ملتے ہیں۔
دین اسلام اور اسلامی ثقافت دونوں کے لحاظ سے یہ مضمون ایک امر مسلّم ہے، آئیے اب دیکھیں کہ تقویٰ اور بصیرت میں کیا منطقی تعلق ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا تقویٰ ایک اخلاقی فضیلت ہے اور اس کا آدمی کے طرزِ عمل و تربیت سے کوئی تعلق نہیں؟۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کہا جاتا ہے کہ تقویٰ سے سوجھ بوجھ بڑھتی ہے اور بصیرت اور روشن ضمیری میں اضافہ ہوتاہے اس بات کا تعلق نظریاتی مسائل اور عقلِ نظری سے نہیں اور بعض لوگوں کو جو اس بات کو ماننے میں مشکل محسوس ہوتی ہے ، شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ تقویٰ سے نظریاتی مسائل کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
البتہ جہاں تک عقل عملی کا تعلق ہے تو یہ بالکل صحیح ہے کہ تقویٰ، پاکیزگی اور نفسِ اماّرہ کو زیر کرنے سے بصیرت میں اضافہ ہوتاہے اور روشن ضمیری کے حصول میں مدد ملتی ہے، اس بات کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں بلکہ تجربہ خود اس کا گواہ ہے۔
تاہم اس کے یہ معنی نہیں کہ عقل بمنزلہ چراغ کے ہے اور تقویٰ تیل کا کام دیتا ہے کہ تقویٰ کے بغیر عقل کام ہی نہ کرے ، نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل گویا بجلی کا جنریٹر ہے جو بجلی کی ایک خاص مقدار پیدا کرتا ہے اور تقویٰ سے بجلی کی اضافی مقدار پیدا ہونے لگتی ہے ۔ اس قسم کی کوئی بات نہیں، یہاں کچھ اور ہی صورت ہے۔ وضاحت کے لیے پہلے ایک تمیہدی بیان پیش خدمت ہے۔
دشمنانِ عقل کے دشمن:
امام علی ؑ کے ملفوظات میں ہے:
اصدقاک ثلایۃواعدائک ثلاثۃ
تیرے تین دوست ہیں اور تین دشمن ۔
فاصدقاوک: صدیقک و صدیق صدیقک و عدو عدوک ۔
تیرا ایک دوست تو وہ ہے جو براہ راست تیرا دوست ہے، دوسرا دوست وہ ہے جو تیرے دوست کا دوست ہے اور تیسرا دوست وہ ہے جو تیرے دشمن کا دشمن ہے۔
و اعداوک: عدوک و عدو صدیقک و صدیق عدوک
اس کلام کو نقل کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دوستوں کی ایک قسم دشمن کا دشمن بھی ہے، دشمن کے دشمن کو جو دوست کہا گیا ہے اس
کی وجہ یہ ہے کہ یہ دشمن کو کمزور کرتاہے ، اس کے ہاتھ باندھ دیتاہے اور اس طرح آدمی کی مدد کرتا ہے، یہ بجائے خود ایک قاعدہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست کی طرح آدمی کی تقویت کا باعث ہوتاہے ۔
یہ قاعدہ جس طرح انسان پر چسپاں ہوتاہے ، اسی طرح انسان کے حالات اور اس کی اخلاقی و روحانی طاقتوں پر بھی چسپاں ہوتا ہے، انسان کی اندرونی طاقتیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک طاقت دوسری پر منفی اثر ڈالتی ہے اور اسے بیکار کر دیتی ہے، یہ ایسا قاعدہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس کا اعتراف قدیم و جدید سب ہی عالموں نے کیا ہے اور یہ خود اپنی جگہ ایک وسیع مضمون ہے۔
روشن ضمیری میں تقویٰ کے اثر کا راز:
کچھ حالات اور کچھ قوتیں ایسی ہیں جو انسان کی عقلِ عملی یعنی اس کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان سے متاثر ہو کر آدمی یہ طے کرتاہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ، کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کیا ضروری ہے اور کیا غیرضروری، اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ۔ اس قسم کی منفی قوتوں میں نفس پرستی، لالچ، ضد، تعصّب وغیرہ شامل ہیں کیونکہ انسان کے طرزِ عمل کا اس کے احساسات، اس کی خواہشات اور اس کے جذبات سے گہرا تعلق ہے، اگر یہ قوتیں حدّاعتدال سے گزرجائیں اور انسان ان پر حاکم ہونے کی بجائے ان کا محکوم ہو جائے تو پھر وہ عقل اور ضمیر کی آواز کو دبا دیتی ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ
پھر آدمی ان کے شوروغل میں ضمیر کی آواز نہیں سن سکتا، عقل کے چراغ پر دھند چھا جاتی ہے۔ جب کسی مقام پر کچھ لوگ بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں تو وہ بیک وقت کہہ، سن اور دیکھ رہے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک بول رہا ہوتا ہے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک آدمی بات کررہا ہے، دوسرے خاموشی سے سن رہے ہیں، چراغ روشن ہیں، فضا بھی صاف و شفاف ہے لیکن اگر کسی فضامیں بیک وقت سبھی بولنا اور بلند آواز سے کچھ پڑھنا شروع کردیں تو ظاہر ہے کہ بولنے والے کو خود اپنی آواز بھی صاف سنائی نہیں دے گی۔ اگر فضا میں گرد و غبار کے بادل چھا جائیں تو کسی کو نہیں دیکھ سکے گا۔
بقول سعدی:

حقیقت سرائی است آراستہ
ہواوہوس گرد برخاستہ
نہ بینی کہ ہر جا کہ برخاست گرد
نبیند نظر گرچہ بیناست مرد
کسی اور کا ایک شعر ہے:
چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد
صد حجاب از دل بسویِ دیدہ شد

ہم ایک جوان طالب علم کی مثال لیتے ہیں، یہ نوجوان اپنے مدرسہ سے واپس آکر سوچتا ہے کہ اپنے اسباق کی تیاری کرے اور اس مقصد کے لیے چند گھنٹے بیٹھ کر پڑھے لکھے، سوچے سمجھے کیونکہ ظاہر ہے بیکاری اور سستی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ امتحان میں فیل ہو جائے گا، جاہل اور پسماندہ رہ جائے گا اور ہزار خرابیاں پیدا ہوں گی
یہ تو ہے اس کی عقل کی آواز، مگر یہ ممکن ہے کہ اس آواز کے مقابل میں سیر و تفریح کا شوق یا آنکھیں لڑانے اور عیاشی کی خواہش اپنا غل مچانا شروع کر دے اور اسے نیچے نہ بیٹھنے دے، ظاہر ہے اگر ان خواہشات کا شور زیادہ ہو گا تو وہ نوجوان اپنی عقل کی آواز نہیں سن سکے گا، فطری روشنی سے آنکھیں چرا لے گا اور دل میں کہے گا، فی الحال تو عیش کرو، بعد میں جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا، اس قسم کی ہوس بازی کی خواہش اگر شدید ہو تو آدمی کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں: ہوس بازی عقل کی دشمن ہے، تکبّر اور خودپسندی کے بارے میں امام علی ؑ نے فرمایا ہے:
عجب المرء بنفسہ احد مساد عقلہ
خود پسندی انسان کی عقل کی دشمن ہے۔
لالچ کے بارے میں آپ نے فرمایاہے کہ عموماً عقل وہاں ماری جاتی ہے جہاں لالچ کی بجلی کوندتی ہے ۔
بدوزد شرہ دیدہ ٔ ہوشمند
در آرد طمع مرغ و ماہی بہ بند
رسولِ اکرم ؐ فرماتے ہیں:
اعدی عووک نفسک التی بین جنبیک
تمہارے بدترین دشمن وہ سرکش جذبات ہیں جو خود تمہارے سینہ میں موجزن ہیں۔
ان کے بدترین دشمن ہونے کی وجہ ظاہر ہے۔ یہ عقل کے دشمن ہیں جو انسان کی بہترین دوست ہے ۔ خود رسولِ اکرم ؐ نے فرمایا ہے:
آدمی کی عقل اس کی بہترین دوست ہے ۔ ہر دشمن کا مقابلہ عقل کی مدد سے کیا جاسکتاہے لیکن جو دشمن عقل ہی سلب کرلے وہ خطرناک ترین دشمن ہے ۔
صائب تبریزی کا ایک شعر ہے جو گویا مذکورہ بالا حدیثِ نبوی کا ترجمہ ہے ۔
بستر راحت چہ اندازیم بہرِ خواب ِ خوش
ما کہ چوں دل دشمنے داریم در پہلویِ خویش
ہم کس طرح چین کی نیند سوسکتے ہیں جبکہ ہمارے پہلو میں دل جیسا دشمن موجود ہے۔
اس لیے اس مضمون پر پوری توجہ دینا ضروری ہے کہ انسان کے حالات اور اس کی اندرونی قوتیں ہمیشہ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کا اثر زائل کرتی رہتی ہیں، بالفاظ دیگر ایک دوسرے سے دشمنی اور حسد رکھتی ہیں، عقل کے ساتھ ہوا و ہوس کی دشمنی بھی اسی ضمن میں آتی ہے۔
یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح تقویٰ عقل کو تقویت دیتاہے اور بصیرت اور روشن ضمیری میں اضافہ کا باعث بنتا ہے، تقویٰ نہ ریتی ہے اور نہ چراغ کا تیل۔ چونکہ وہ عقل کی دشمن کا دشمن ہے اس لیے عقل کا دوست ہے، حضرت امیر المومنین ؑنے دوستوں کی تین قسمیں بتلائی ہیں جن میں سے ایک ہے
وَعَدُوُّعَدُوِّکَجب تقویٰ کا ملکہ پیدا ہو جاتاہے تو وہ ہوس کو جو عقل کی دشمن ہے، قابو میں کرلیتاہے ۔ پھر ہوس کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ وہ عقل کو بیکار کرسکے یا اس کے راستے میں روڑے اٹکا سکے ۔
مولانا روم نے کیا خوب کہاہے:
چونکہ تقویٰ بست دو دست ِ ہوا
حق گشاید ہر دو دوست عقل را
جب تقویٰ ہوس کے ہاتھ باندھ دیتاہے حق تعالیٰ عقل کے ہاتھ کھول دیتاہے ۔
ان باتوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ تقویٰ واقعی انسان کے طرزِ فکر اور قوت ِ فیصلہ پر اثر انداز ہوتاہے لیکن اس کے اثر کی نوعیت یہ ہے کہ وہ دشمن یعنی ہوس کے اثر کو زائل کرتاہے اور عقل کے لیے آزادی سے اپنا کام کرنے کی راہ ہموار کرتاہے ۔ اس لیے امام علی ؑ نے فرمایا ہے:
عِتق من کل ملکۃ
فلاسفہ اس قسم کے عوامل کو جن کا اثر بالواسطہ ہوتاہے فاعل بالعرض کہتے ہیں، ان کے نزدیک عوامل کی دو قسمیں ہیں جن کا اثر براہِ راست بالواسطہ ہوانہیں فاعل بالعرض۔ فاعل بالعرض کی صورت میں اصل سبب تو کچھ اور ہوتاہے لیکن فاعل بالعرض راستے کی رکاوٹوں کو اس طرح دور کردیتاہے کہ اصل سبب کو کام کرنے کا موقع مل جاتاہے اس لیے آدمی بسا اوقات فاعل بالعرض کو ہی اصل سبب سمجھ لیتاہے۔
اور کسی بات میں شک ہو تو ہواس میں کوئی شک نہیں کہ غصہ، شہوت رانی، لالچ، حسد، ضد، تعصّب، خودپسندی اور ایسے ہی دوسرے عیوب آدمی کو زندگی میں اندھا اور بہرا بنا دیتے ہیں، ہوس کے سامنے آدمی اندھا اور بہرا ہو جاتا ہے، اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ آدمی کو عموماً اپنے عیب نظر نہیں آتے، وہ دوسروں ہی کے عیب دیکھتا ہے چاہے وہ خود دوسروں سے زیادہ عیوب میں مبتلا ہو، اپنے عیب نظر نہ

آنے کا سبب خودپسندی اور مغروری کے سوا اور کیا ہو سکتاہے؟ کیا اس میں بھی کوئی شک ہے کہ اہل تقویٰ اپنے اخلاقی مجاہدات کے سبب خودپسندی، لالچ اور دوسرے نفسانی رذائل پر غالب آجاتے ہیں، انہیں اپنے عیوب کا بہتر احساس اور ادراک ہوتا ہے، کیا انسان کے لیے اس سے بہتر اور مفید تر بھی کوئی علم و شعور ہو سکتاہے کہ اسے ذات کا علم ہو، وہ اپنے عیبوں سے واقف ہو اور اسے یہ معلو م ہو کہ وہ اپنی اصلاح کر سکتا ہے؟
اگر خدا ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم تقویٰ کی طاقت سے نفسِ امّارہ کو زیر کرسکیں تو اس وقت ہم دیکھیں گے کہ کس طرح ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں، سعادت ِ ابدی حاصل کرنے کا راستہ کیسا صاف نظر آنے لگتاہے اور ہماری عقل کتنی اچھی طرح ہماری رہنمائی کرتی ہے، اس وقت ہم سمجھیں گے کہ یہ مسائل کچھ ایسے پیچیدہ اور دلائل کے محتاج نہیں تھے، ہر بات واضح اور روشن تھی، صرف ہوا و ہوس کے شوروشغب میں ہم عقل کی بات پر کان نہیں دھر رہے تھے۔

جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ اس کے ذریعے ان کی سلامتی کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتاہے ۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے اور انہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔

کیا ہوش اور عقل میں کچھ فرق ہے؟
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ علمی مسائل کو سمجھنے میں بہت ہوشیار اور دوسروں سے بہت آگے ہوتے ہیں لیکن یہی لوگ زندگی کے مسائل کو سمجھنے او ر زندگی میں اپنی راہ متعین کرنے کے معاملہ میں پھسڈ ی ثابت ہوتے ہیں، یہاں ان کی سمجھ کام نہیں کرتی، بہت سے لوگ جو علمی لحاظ سے ان سے بہت پیچھے ہیں، اپنی زندگی کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتے ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا انسان میں دو چیزیں ہیں ایک ہوش، دوسری عقل، بعض لوگ زیادہ ہوشیار ہیں اور بعض دوسرے زیادہ عقلمند؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب ِ تقویٰ کے جذبات زیادہ بلند ، زیادہ نازک اور زیادہ پاکیزہ ہوں گے۔ وہ روحانی حسن سے زیادہ متاثر ہوگا۔ وہ دنیا کو کسی اور ہی نگاہ سے دیکھتاہے اور اسے کچھ اور ہی جلوہ نظر آتاہے ۔ جو عقلی اور ذہنی حسن و جمال دنیا میں موجود ہے وہ اپنے لطیف احساس کی بدولت اسے بہتر طور پر محسوس کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے ہم میں دو ایسی قوتیں نہیں جن میں سے ایک کا نام عقل ہو اور دوسری کاہوش۔ رہی یہ بات کہ کچھ ہوشمند لوگ عملی مسائل میں پریشان ہوجاتے ہیں اور ان کی سمجھ کا م نہیں کرتی ، اس کی وجہ وہی ہے کہ دشمنانِ عقل کی شورش سے ان کی عقل ناکارہ ہوجاتی ہے اور وہ عقل کی بات پر کان نہیں دھرتے ۔ دراصل اس قسم کے لوگوں میں یہ شورش زیادہ ہوتی ہے مگر یہ بات نہیں کہ ان کی عقل میں کچھ کمی ہو۔
ہم نے آغاز کلام میں اشارتاً کہا تھا کہ جہاں تک عقلِ نظری کا تعلق ہے تقویٰ، روح کی پاکیزگی اور مجاہدہ ٔ اخلاقی وغیرہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا حتیٰ کہ فلسفہ الٰہی کا بھی ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے برخلاف معرفت ِ الہٰی کے حصول میں تقویٰ اور مجاہدہ کی تاثیر مسلّم ہے۔ یہ مضمون مستقل بحث کا محتاج ہے۔ میں نے مختصر طور پر صرف اجمالی اشارے کیے ہیں۔
زمانہ ٔ قدیم میں بہت عقلاء کا یہ خیال رہا ہے کہ انسان میں عقل و ادراک کی دوسری قوّتوں کے علاوہ ایک اور پراسرار حس موجود ہے جس کو حس الہام گیری کہاجاسکتاہے ۔ عصر حاضر کی تحقیق بھی اس نظریہ کی تائید کرتی ہے ۔ اس کے مطابق انسان میں ایک ایسی حقیقی حس موجود ہے جو دوسرے تمام حواس اور قوتوں سے ممتاز ہے۔ یہ حسِ تمام افراد میں کمی بیشی اور قوت و ضعف کے فرق کے ساتھ موجود ہے ۔ تربیت اور مشق کے ذریعہ سے اس حس کو بڑھایا بھی جاسکتاہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو اس حس کی پرورش نشوونما اور تقویت کا سبب بنتی ہے۔
وہ باتیں جو کہ اس حس کی نشوونما اور تقویت کا سبب بنتی ہیں یہ ہیں تقویٰ، طہارت، اخلاقی مجاہدہ او رنفسانی خواہشات کے خلاف جہاد، دینی تعلیمات کے مطابق بھی یہ ایک مسلّمہ اور ناقابل انکار حقیقت ہے، اس ضمن میں یہاں صرف چند جملے نہج البلاغہ سے نقل کیے جاتے ہیں۔
حضرت امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں:
اس نے اپنی عقل کو زندہ کرلیا اور اپنے نفسِ اماّرہ کو کچل دیا ۔ اس مجاہدہ کا اثر اس کے بدن پر بھی نظر آنے لگا۔ اس کی موٹی ہڈیاں نازک ہوگئیں اور اس کے وجود میں ایک لطافت پیدا ہوگئی، اس وقت ایک تیز روشنی چمکی جس نے اس کی راہ میں روشنی کردی چنانچہ وہ صحیح راستہ پر چل پڑا اور سلامتی کے دروازہ تک پہنچ گیا ۔
یَہْدِیْ بِہِ اللّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم ( سورہ مائدہ ۔ آیت ۱۶)
جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ اس کے ذریعے ان کی سلامتی کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتاہے ۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے اور انہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
تقویٰ اور پاکیزگی احساسات:
تقویٰ اور طہارت ایک اور سمت سے بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یہ سمت احساسات و جذبات کی ہے ۔
تقویٰ سے احساسات زیادہ نازک اور لطیف ہوجاتے ہیں ۔ یہ بات نہیں کہ صاحب تقویٰ سے احساسات زیادہ نازک اور لطیف ہو جاتے ہیں۔ نہ یہ بات ہے کہ صاحب تقویٰ جو اپنے آپ کو گندے اور برے کاموں سے باز رکھتا ہے اور ایسی برائیوں سے بچتا ہے جیسے ریاکاری، خوشامد اور کاسہ لیسی۔ وہ اپنے ضمیر کو پاک و صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی عزت نفس کو برقرار رکھتا ہے اور اس کی توجہ مادّی امور سے زیادہ روحانی امور کی طرف مبذول رہتی ہے۔ اس کے احساسات و جذبات اس شخص کے سے ہوں جو گناہوں اور گندے کاموں میں غرق اور عیش پرستی میں منہمک ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب ِ تقویٰ کے جذبات زیادہ بلند ، زیادہ نازک اور زیادہ پاکیزہ ہوں گے۔ وہ روحانی حسن سے زیادہ متاثر ہوگا۔ وہ دنیا کو کسی اور ہی نگاہ سے دیکھتاہے اور اسے کچھ اور ہی جلوہ نظر آتاہے ۔ جو عقلی اور ذہنی حسن و جمال دنیا میں موجود ہے وہ اپنے لطیف احساس کی بدولت اسے بہتر طور پر محسوس کرتا ہے۔

کبھی کبھی یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ اب کیوں پہلے جیسے شعراء پیدا نہیں ہوتے؟ جو لطف اور شگفتگی مثلاً سعدی او رحافظ کے کلام میں ہے وہ آجکل کے شعرا ء کے کلام میں کیوں نہیں؟ حالانکہ ہر چیز نے ترقی کی ہے، علم میں پیشرفت اور خیالات میں بالیدگی آئی ہے اور ہر لحاظ سے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔
معاصر شعراء مانیں یا نہ مانیں میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اچھے شعر کے لیے فطری ذوق اور تخلیقی قوّت کے علاوہ ضمیر کی شگفتگی ، لطافت اور اثر پذیری بھی ضروری ہے اور یہ شگفتگی اور لطافت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب شاعر میں تقویٰ اور روحانیت بھی ہو۔ وہ غیظ و غضب اور شہوت کا بندہ نہ ہو۔ اس کے مزاج میں آزادی اور وارستگی ہو۔
یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ گزشتہ زمانے کے شعراء تو خود گناہوں میں اپنی آلودگی کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہے تو یہ عجیب معمّہ لیکن میراذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی بد اعمال شخص ذہنی اور روحانی لطافتوں کا صحیح ادراک نہیں کرسکتااور نہ ایسے شگفتہ و دل پسند مضامین تخلیق کرسکتاہے جو بعض شعراء کے کلام میں دیکھنے میں آتے ہیں۔
تقویٰ اور مشکلات پر قابو کی طاقت:
تقویٰ کے ایک اور اثر کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً
جسے تقویٰ الٰہی حاصل ہوگا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دیگا۔
ایک اور آیت میں ہے:
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْراً
جسے تقویٰ الٰہی حاصل ہو گا اللہ اس کے کاموں میں ایک طرح کی آسانی پیدا کر دے گا۔

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جس نے تقویٰ اختیار کیا اس پر مصیبتیں آتی ہیں لیکن ٹل جاتی ہیں اور تلخیاں شیریں ہوجاتی ہیں، موجیں چڑھ کرآتی ہیں لیکن پرے ہٹ جاتی ہیں، صعوبتیں برستی ہیں لیکن چھٹ جاتی ہیں۔ ‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ تقویٰ تو ایک روحانی اور اخلاقی معاملہ ہے اس کا مصائب و مشکلات پر قابو پانے سے کیا تعلق!
مشکلات کی دو قسمیں:
یہاں ایک تمہید عرض کرتا ہوں۔ مصائب و شدائد جو انسان کو پیش آتے ہیں اور جن مشکلات میں انسان گرفتار ہوتاہے ان کی دو قسمیں ہیں:
ایک تو وہ مشکلات ہیں جن میں انسان کے اپنے ارادہ اور اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً آدمی ہوائی جہاز پر سوار ہو اور جہاز خراب ہو جائے یا کشتی پر سوار ہو اور کشتی طوفان میں گھر جائے اور ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جائے، اس قسم کی مصیبت ہر شخص پر آسکتی ہے اس کا پہلے سے کوئی علم نہیں ہوتااور نہ انسان کے اپنے ارادہ و اختیار کو اس میں کوئی دخل ہے ۔

مصائب کی دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان کے اپنے ارادہ کو دخل ہے اور وہ چاہے تو ان مصائب میں گرفتار ہو اور نہ چاہے تو نہ ہو اور اگر ان مصائب میں مبتلا بھی ہوجائے تو وہ اپنے ارادے سے ان سے نکل سکتاہے ۔ یہ اخلاقی و اجتماعی مصائب ہیں ۔
اب یہاں دو سوال پیش آتے ہیں ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ پہلی قسم کے مصائب کی صورت میں تقویٰ کا کیا اثر ہوتاہے اور دوسرا یہی سوال دوسری قسم کے مصائب کے متعلق ہے۔
پہلی قسم کے متعلق تو میں اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا کہ قرآنی آیات کا اطلاق اس قسم کے مصائب پر بھی ہے یا نہیں لیکن ہو سکتاہے کہ اس طرح کا کوئی روحانی آئین اور اس قسم کی ضمانت ِ الہٰی موجود ہو۔ اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسی قبولیت ِ آیات میں مصائب و شدائد سے نجات سے مراد دوسری قسم کے مصائب اور تکالیف ہی ہیں ۔ جناب امیر المومنین ؑ خطبہ نمبر ۱۸۱ میں فرماتے ہیں:
واعلموا انہ من یتق اللہ یجعل لہ مخرجامن الفتن و نورا من الظلم
سمجھ لو کہ جو شخص تقوائے الہٰی اختیار کرتاہے اللہ اسے فتنوں سے نکلنے اور تاریکیوں سے روشنی میں آنے کا کوئی نہ کوئی راستہ سُجھا دیتا ہے۔
پہلی قسم کی مشکلات بہت کم پیش آتی ہیں، زیادہ تر مشکلات جو انسان کو پیش آتی ہیں اور اسکی زندگی کو تلخ اور مکدّر کردیتی ہیں اور دنیا و آخرت کی ہر سعادت سے اسے محروم کردیتی ہیں وہ اخلاقی اور معاشرتی فتنے اور مصیبتیں ہی ہوتی ہیں۔
اس بات کے پیش نظر کہ خود انسان ہی اپنی زیادہ تر مشکلات کا ذمہ دار ہوتاہے یہ کہاجاسکتاہے کہ آدمی خودہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک
ہر شخص اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرتاہے لیکن عموماً اس کا رویہ خود اپنے ساتھ معاندانہ ہی ہوتا ہے۔
دشمن بدشمن آن نہ پسندو کہ بے خرد
بانفسِ خود کند بمراد ہوای خویش
کوئی دشمن بھی دشمن کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتاجو بے عقل خود اپنے ساتھ ہواو ہوس کے چکر میں پڑکر کرتاہے

ہماری زیادہ تر مشکلات باہر سے نہیں آتیں۔ خود ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔ میں نے خود اپنی زندگی میں اور دوسروں کی زندگی میں بھی جن کو میں نے قریب سے دیکھا ہے یہی تجربہ کیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تقویٰ کا ہتھیار کتنا مؤثر ہے ۔ تقویٰ انسان کو فتنوں سے دور رکھتاہے اور بالفرض اگر کوئی کسی مشکل میں گرفتار بھی ہوجائے تو یہ اسے اس مشکل سے نجات دلا دیتا ہے۔ قرآن کریم کی سورہ ٔ اعراف آیت ۲۰۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُون
اہل تقویٰ کا تویہ حال ہے کہ اگر شیطان کے اثر سے کبھی کوئی برا خیال انہیں چھوبھی جاتاہے تو وہ چوکنّے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتاہے ۔
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ تقویٰ کا پہلا اثر یعنی روشن ضمیری اور ازدیادِ بصیرت کے ساتھ ساتھ دوسرا اثریہ ہوتاہے کہ ان کو ان مشکلات اور تکالیف سے نجات مل جاتی ہے جو گناہوں کی تاریکی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، معاصی اور ہوا و ہوس کے سیاہ بادل چھٹ جاتے ہیں اور تقویٰ کی روشنی میں راستہ صاف دکھائی دینے لگتاہے تاکہ آدمی گڑھوں اور کھائیوں سے بچ کر چلے، اگر اتفاق سے کہیں یہ پھنس بھی جائے تو تقویٰ کی روشنی میں باہر نکلنے کا راستہ مل جاتاہے۔
علاوہ ازیں تقویٰ اور احتیاط کے سبب آدمی اپنی اندرونی طاقتوں کے اس ذخیرہ کو جو خود اس کے اندر موجود ہے ، لغو و حرام کاموں اور لہوو لعب میں ضائع کرنے کی بجائے اسے محفوظ رکھتاہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا آدمی جو باہمت ہو اپنی مرضی کا مالک ہو اور جس کی شخصیت مکمل ہو ، بہتر فیصلے کرسکتاہے اور اپنی نجات کی راہ تلاش کرسکتاہے ۔
جس طرح روشنی نجات کا ذریعہ ہے اسی طرح ہمت و ارادہ بھی ایسا وسیلہ ہے جو خداوند تعالیٰ نے آدمی کو دیا ہے۔
سورۃ یوسف کے اواخر میں ایک آیت ہے جسے اس عجیب اور ولولہ انگیز، داستان کا اخلاقی نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ حضرت یوسف ؑ کا قصہ کم و بیش سب ہی نے سنا ہے جب یہ قصہ اختتام کو پہنچنے والاہوتاہے یعنی حضرت یوسف ؑ عزیز ِ مصر بن جاتے ہیں اور برادرانِ یوسف ایک قحط کے سبب غلّہ حاصل کرنے کے لیے کنعان سے مصر آتے ہیں ، وہ یوسف ؑ کو نہیں پہچانتے مگر یوسف ؑ انہیں پہچان لیتے ہیں اور ایک بہانہ سے اپنے سگے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیتے ہیں ۔ اس وقت برادرانِ یوسف ؑ دوبارہ آتے ہیں اور بڑی عاجزی سے یوسف ؑ سے غلہ کی درخواست کرتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس تذلل و زاری کا نقشہ اس آیت میں کھینچا ہے :
اے سردار! ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں پورا غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتاہے۔
اب تک یوسف ؑ نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا ۔ اب انہوں نے چاہا کہ اپنا تعارف کرادیں ۔
تب انہوں نے کہا :
’’ تمہیں یاد ہے کہ از روئے نادانی و جہالت تم نے یوسف کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا ‘‘۔
اس پر وہ چونکے اور کہنے لگے :
’’ہائے کیا تم ہی یوسف ہو ؟
فرمایا : ’’ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اور اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے ‘‘۔
انہ من یتق و یصبرفان اللہ لایضیع اجر المحسنین
اگر کوئی تقوی اور صبر سے کام لے تو ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے یہاں ضائع نہیں جاتا۔
یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو تقویٰ، پاکبازی کا اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کا نتیجہ ہے، میں غلام بنا، ہر کس و ناکس کا محکوم ہوا مگر میں نے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ مصر کی سربرآوردہ ترین اور حسین ترین عورت نے مجھ جیسے حقیرفقیر سے اپنی خواہش پوری کرنے کی درخواست کی لیکن میں اپنے تقویٰ پر قائم رہا میں نے کہا :
بارِ الہٰا ! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کام کے جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں، اس دن کے تقویٰ نے مجھے آج عزیز مصر بنادیا۔
تقویٰ اور صبر ، پاکبازی و پاکدامنی کبھی اس دنیا میں رائیگاں نہیں جاتی، تقویٰ آدمی کو قعرِ مذلت سے نکال کر اوج عزت پر پہنچاتاہے
إِنَّہُ مَن یَتَّقِ وَیِصْبِرْ فَإِنَّ اللّہَ لاَ یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِیْن
ایسا معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم نے قصۂ یوسف ؑ کے اخلاقی نتیجہ کا اخلاص اس ایک آیت میں بیان کردیا ہے کہ بالآخر تقویٰ ہی کامیاب ہوتاہے ۔ تقویٰ آدمی کو بہت سے مصائب اور مشکلات سے نجات دلاتاہے اور اوج عزت پر پہنچا دیتاہے ۔
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً
جو صاحبان تقویٰ ہر حال میں اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں ان کے لیے ناکامی اور بے بسی کا کوئی وجود نہیں۔
جب انسان حضر ت امام حسین ؑ کے وہ اقوال اور خطبات دیکھتا ہے جو آپ نے اپنے خاندان محترم کے سامنے دیے تو انگشت بدندان رہ جاتا ہے کہ کس اعتماد و یقین کے ساتھ آپ انہیں اطمینان دلا رہے تھے ۔
اللہ اللہ ! کیا جذبہ اور کیا ایمان تھا۔ خدایا ! یہ یقین انہیں کہاں سے حاصل ہوا تھا ۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ جب وہ دوسری بار اپنے اہل بیت ؑ سے رخصت ہونے لگے تو فرمایا :
استعداد و اللبلاء و اعلموا ان اللہ حافظکم و حامیکم ۔
سختی برداشت کرنے کے لیے تیار رہو اور سمجھ لو کہ اللہ تمہارا حافظ و مددگار ہے ۔
و سینجیکم من شرالاعداء و یجعل عاقبۃ امرکم الی خیر ۔
وہ تم کو دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور بالآخر تمہارا انجام بخیر ہوگا۔
و یعذب اعادیکم بانواع البلاء و یعوضکم اللہ عن ھذہ البلیۃ بانواع النعم و الکرامۃ۔
تمہارے دشمنوں کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کرے گا اور تم کو اس تکلیف کے بدلے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازے گا۔
فلاتشکوا ولاتقولو ا بالسنتکم ماینقض من قدرکم ۔
لہٰذا شکایت مت کرو او رکوئی ایسی بات زبان پر مت لاؤ جو تمہارے شایان شان نہ ہو۔
امام حسین ؑ کو جو اطمینان تھا کہ آخر میں وہی کامیاب ہوں گے اور جس کی تلقین وہ اپنے اہل خاندان کو کررہے تھے اس کا سرچشمہ یہی آیت تھی:
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً
اُن کے پاس قرآن کی ضمانت موجود تھی اور انہیں اسی قسم کا اطمینان اور یقین حاصل تھا جیسا یوسف صدیق کو حاصل تھا ۔ جب ان کے تقویٰ کا نتیجہ برآمد ہوا تو حضرت یوسف ؑ نے جوش مسرت سے کہا تھا:
إِنَّہُ مَن یَتَّقِ وَیِصْبِرْ فَإِنَّ اللّہَ لاَ یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِیْن
لیکن امام حسین ؑ کی نظر داستان تمام ہونے سے پہلے ہی نتیجہ پر تھی۔
امام حسین ؑ کے نپے تلے جملے ان کے اہل خاندان کے قلب پر تیرکی طرح اپنے نشانہ پر بیٹھے انہوں نے سختی اور قید کو برداشت کیا چنانچہ تقویٰ اور صبر کی بدولت انجام وہی ہوا جس کی پیشین گوئی امام حسین ؑ نے کی تھی  اور جس کی ضمانت خداوندکریم نے قرآن میں دی تھی، عاشورہ کے چند ہی روز بعد ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے امام حسین علیہ السلام کا قول بتغیر الفاظ بڑے اطمینان سے دہرایا۔
یزید بن معاویہ کو مخاطب کر کے کہا:
’’تو جو چاہے تدبیرکر اور جیسی چاہے کوشش کرکے دیکھ لے تو ہمارا نام نہیں مٹاسکتا اور نہ ہماری مقبولیت اور احترام میں کمی کرسکتاہے ، نہ ہی تو اس وحی کو ختم کرسکتاہے جو ہمارے خاندان میں زندہ ہے، تیرے لیے اس دنیا میں بجزننگ و عار کچھ باقی نہ رہے گا۔ ‘‘

Related Articles

Back to top button