دانشکدہعقائدمقالات

خدا کون ھے

وہ کونسی ذات ھے جس کو عربی زبان میں الله، انگلش میں GOD ، فارسی میں خدا کہا جاتا ھے اور ھر دیگر زبان والے اپنے اپنے اعتبار سے پکارتے ھیں؟ اس کے اوصاف کیا ھیں؟ اس کا ھم سے کیسا اور کیا رابطہ ھے؟ھم اس کے ساتھ کیسا رابطہ برقرار کریں؟یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالات ھمیشہ اور ھر زمانے میں پائے جاتے رھے ھیں۔
اگر بشری افکار ونظریاتی تاریخ پر ایک اجمالی اور سرسری نظر ڈالی جائے توواضح ھوجاتاھے کہ خدا کے وجود پر اصل اعتقاد وایمان گذشتہ قدیم زمانوں سے ھی رائج اور مشھور رھا ھے۔ دوسرے الفاظ میں خدا پر ایمان کی تاریخ اتنی ھی قدیم ھے جتنی کہ تاریخ وجود انسانی ،لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ تمام افراد بشر، وجود خدا کے معتقد رھے ھیں اور خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ یکساں رھا ھے یا سبھی نے خدا کی تعریف یکساں طور پر کی ھے۔
یہ نظریاتی اختلافات مخصوصاً ان لوگوں کے یھاں جو انبیائے الٰھی کے تعلیمات سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنے افکار و نظریات پر زیادہ بھروسہ کرتے ھیں، ھمیشہ اور بھت زیادہ رھے ھیں۔ قبل اس کے کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے بیان شدہ صفات خدا کو بیان کیا جائے بھتر ھے کہ بعض اھم ترین اوربزرگ ترین مشرقی و مغربی دانشمندوں کے خدا کے بارے میں نظریات وخیالات اور اعتقادات پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اس سلسلے میںاسلامی توحید کے عروج وبلندی کا دیگر مکاتب وافراد کے توحیدی نظریات سے تقابل کیا جاسکے۔

خدا، سقراط کی نظر میں
SOCRATES 470-399BC)) دیگر یونانی معاصر کی طرح مختلف خداؤں کے وجود پر ایمان رکھتا تھا۔ تاریخ فلسفہ میں نقل شدہ حقائق کے پیش نظر، سقراط کے مطابق سعادت و کمال حاصل کرنے کے لئے انسان کو خدا اور اس کی ھدایت کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ اگرچہ وہ کمال انسانی کو اصول اخلاقی میں مقید گردانتا ھے لیکن اس نے خدا اور انسانی زندگی میں اس کے رابطے اور دخل کا کوئی تذکرہ نھیں کیاھے۔

خدا، افلاطون کی نگاہ میں
PLATO (BC 427/8۔347/) خدا کے عنوان سے دوموجودات کا تذکرہ کرتاھے۔ ایک خیر مطلق اور دوسری صانع۔ اس کی نگاہ میں خیر مطلق ھی حقیقی خدا ھے جس کو وہ پدر یا باپ اور صانع کو پسر یا بیٹا کھتا ھے۔
افلاطون کے مطابق خیر مطلق کی شناخت نھایت مشکل بلکہ دشوار ترین معرفت ھے جو تمام معرفتوں کے حصول کے بعد حاصل ھوتی ھے اور ان دونوں خداؤں کو فقط فلسفی حضرات ھی درک کرسکتے ھیں۔ افلاطون کے مطابق فلسفی حضرات وہ افراد ھیں جو روحی اور ذھنی حتی جسمانی لحاظ سے مخصوص صفات کے حامل ھوتے ھیں البتہ یہ فلسفی حضرات بھی مختلف مراحل سے گزر کر اور اپنی عمر کے پچاس برس گزارنے کے بعد ھی خیر مطلق کا ادراک کرسکتے ھیں لیکن دوسرے افراد جن میں غالباً عوام الناس آتے ھیں ھمیشہ ھمیشہ شناخت وادراک خدا سے محروم رھتے ھیں۔

خدا، ارسطو کے نقطہٴ نظر سے
ARISTOTLE (4 BC / 483۔321/2 ) کے عقیدے کے اعتبار سے عالم ھمیشہ موجود رھا ھے یعنی ازلی ھے اور کسی نے اس کو خلق نھیں کیاھے۔ لھٰذا ارسطو کا خدا، خالق کائنات نھیںبلکھ فقط محرک کائنات ھے او رایسا محرک جو خود کوئی حرکت نھیں رکھتا ھے۔ خدائے ارسطو کی روشن ترین صفت یھی عنوان”محرک غیر متحرک“ ھے ۔ ارسطوکی خدا شناسی کا اھم ترین گوشھ یھ ھے کھ ارسطو کے مطابق خدا کی پرستش، اس سے محبت اور اس سے رحم و کرم کی توقع ناممکن ھے۔ خدائے ارسطو کسی بھی طرح محبت انسان کا جواب نھیں دے سکتا۔ ارسطو کا خدا فاقد ارادہ ھے نیزاس کی ذات سے کسی بھی طرح کا کوئی فعل سرزد نھیں ھوتا ھے۔ ارسطو کا خدا ایک ایسا خدا ھے جو ھمیشہ فقط اور فقط اپنے متعلق غور و فکر کرتا رھتا ھے۔ (۱)

وجود خدا ، قرون وسطیٰ کے عیسائیوں کے نزدیک ”
مغربی دنیا میںدین سے فرار کے اسباب “کے تحت خدا کے بارے میں کلیسا کے نظریات کی طرف ایک ھلکا سا اشارہ کیا جا چکا ھے۔ یھاں اس نکتے کا اضافہ ضروری ھے کہ قرون وسطیٰ میںغالب نظریہ یہ تھا کہ دوسرے عوامل واسباب کے شانہ بشانہ خدا بھی اس جھان کے نظم و نسق میں موثر ھے۔ اس زمانے کے خدا معتقد افراد جب زلزلہ ، چاندگرھن، سورج گرھن، آندھی، طوفان وغیرہ کی کوئی علت تلاش نھیں کرپاتے تھے تو آخرکار ان حادثات کی علت خدا کو قرار دے دیتے تھے۔ظاھر ھے کہ اس طرز تفکر کا نتیجھ یھی ھوتا ھے کہ خداکو اپنے ارد گرد بکھرے ھوئے مجھولات میں تلاش کیا جائے۔ طبیعی ھے کہ جتنا ھماری معلومات میں اضافہ ھوتا جائے گا اور ھمارے مجھولات کم ھوتے جائیں گے اتنا ھی خدا کا دائرہ کار بھی سمٹتا جائے گا اور اگر فرض کرلیں کہ کسی دن تمام مسائل و معمہ ھائے بشر حل ھوجائیں اور انسان ھر حادثہ و واقعہ کی طبیعی علت و عامل کی شناخت کرلے تو اسی دن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس دنیا سے لفظ ”خدا“ کا بھی خاتمہ ھو جائے گا۔
مذکورہ کلیسائی نظریے کی بنا پر اس کائنات کے فقط کچھ ھی موجودات ایسے ھیں جنھیں وجود خدا کی نشانیاں کھا جاسکتا ھے یعنی فقط ایسے موجودات جن کی علت ابھی تک ناشناختہ ھے۔ یہ نظریہ چونکہ ھماری اس دنیا میں موجود تھا لھٰذا کانٹ KANT)) کو اعتراض کرنا پڑا:
”علم و سائنس نے خدا کو اس کے مشاغل سے جدا کرکے ایک گوشے میں قرار دے دیا ھے۔“ (نقل از شھید مطھری، مجموعہٴ آثار،ج/۱،ص/۴۸۲)
KANT کھنا یہ چاھتا ھے کہ اب تک بشریت یہ سمجھتی تھی کہ ھر حادثے کی علت خدا ھے یعنی خدا کو ایک پوشیدہ ومخفی قوت کے طور پر فرض کیا جاتاتھا جیسے ایک جادو گر اچانک کوئی فیصلہ کرے اور بغیر کسی مقدمے کے کوئی جادو کا نمونہ پیش کردے۔ مثال کے طور پر اگر اس زمانے میں کسی کو بخار ھوجاتاتھا اور اس سے سوال کیا جاتا تھا کہ بخار کیوں ھواھے تو جواب دیا جاتا تھا کہ خدانے ا سکے اندر بخار ایجاد کردیا ھے جس کا مطلب یہ ھوتا تھا کہ اس بخار کے ایجاد ھونے میں کوئی طبیعی عامل سبب نھیں بنا ھے لیکن اب جب کہ سائنس نے یہ ثابت کردیا ھے کہ بخار کا سبب فلاں مائیکروب ھے تو ظاھر ھے کہ اب اس معلول یا بخار کی علت خدا تو نھیں ھے اور اسی طرح جس قدرمختلف اشیاء یا حادثات کی نا شناختھ علتیں اور عوامل کشف ھوتے رھیں گے اتنا ھی خدا کا دائرہ کاربھی محدود ھوتا جائے گا۔
حقیقت یہ ھے کہ اس طرح کا نظریہ رکھنے والے افراد کے نزدیک دوسرے تمام موثر اسباب و عوامل کی طرح بھی خدا ایک سبب و علت اور اس کائنات کے اجزاء میں سے ایک جز ھے۔
شھید مرتضیٰ مطھری اس نظریہ پر تنقید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”سبحان اللہ ! کتنا غلط طرز تفکر اور کتنی گمراھی ھے اور مقام الوھیت سے لا علمی کا کیا عالم ھے ۔! یھاں تو قرآن کریم کا یہ قول نقل کرنا چاھئے کہ وما قدرو االلہ حق قدرہ (۲) ترجمہ:اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نھیں کی۔(۳)

خدا ،گلیلیو کے تصور
میں قرون وسطیٰ کے خاتمہ اور علوم تجربی کی چوطرفہ ترقی و پیش رفت کے بعد گلیلیو GALILIO ( 1564۔1624) جیسا دانشمند پیدا ھوا اوراس نے خدا کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا۔
GALILIO کے مطابق یہ کائنات ایٹم( ATOMS)کا ایک مجموعہ ھے۔ اس کائنات میں رونما ھونے والی تمام تبدیلیاں اور تغییرات ان ATOMS کی ترکیبات اورحرکات کا نتیجہ ھوتی ھیں۔ اس درمیان خدا کادائرہ کار صرف اور صرف ATOMS کوخلق کرنا ھوتا ھے اور بس۔ قدرت خدا کے ذریعے جیسے ھی یہ کائنات خلق ھوئی ویسے ھی خدا کی ضرورت بھی ختم ھو گئی اوراب کائنات مستقل وآزادانہ طور پر رواں-دواں ھے۔

خدا کے بارے میں نیوٹن کا نظریہ
نیوٹن 1727) ISAAQ NEOTON ۔1642 ) نے کائنات سے خدا کے رابطے کو گھڑی ساز اور گھڑی کے رابطے سے تشبیہ دی ھے۔ جس طرح گھڑی ساز کے گھڑی ایجاد کرنے کے بعد گھڑی اس سے بے نیاز ھو کر اپنا کام کرتی رھتی ھے اسی طرح یہ کائنات بھی خدا کے ذریعہ خلق کئے جانے کے بعد آزادانہ طور پررواں دواں ھے۔ نیوٹن اس نکتے کا بھی اضافہ کرتاھے اور یھیں سے اس کانظریہ GALILIO سے مختلف ھوجاتاھے کہ خداکبھی کبھی امور کائنات میں دخیل ھوتا اور بعض غیر مرتب اشیاء و سیاروں کو منظم ومرتب کرتا رھتاھے۔ اس کے علاوہ خدا ھی وہ ذات ھے جو ستاروں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے میں مانع ھوتی ھے۔
اس نظریہ پر بھی قرون وسطیٰ میں موجود نظریے کا کسی حد تک اثر پڑتا نظر آتا ھے کہ خدا کے وجود کو ان موارد سے مخصوص کیا جاتا تھا جن کی علت و سبب ناشناختہ ھوتی تھی۔ بعدمیں سائنس نے یہ کشف کیا کہ سیاروںکی حرکت فعلی اور ان کے کے ایک دوسرے سے نہ ٹکرانے میں براہ راست خدا کی کوئی دخالت نھیں ھے۔ جس کانتیجہ یہ ھوا کہ خدا کا دائرہ کار مزید محدود ھوگیا۔
۱۷/ویں اور ۱۸/ویں صدی کے بھت سے دانشمندوں نے خدا کے بارے میں GALILIO کے نظریے کو ھی قبول کیاھے۔ ان کے نذدیک خدانے آغاز خلقت میں اس کائنات کو خلق کیا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اب اپنی بقا کی خاطر اس کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نھیں ھے جیسے ایک عمارت اپنی تعمیر کے بعد معمار سے بے نیاز ھوجاتی ھے۔

حوالہ جات:

۱۔فلسفہ یونان اور ادیان الٰھی میں خداشناسی کی بنیادیں، رضابر نجکار، ص/۸۱تا ۱۰۳
۲۔ انعام:۹۱
۳۔ شھید مرتضیٰ مطھری، علل گرایش بہ مادی گری

Related Articles

Back to top button