مقالاتکربلا شناسی

شہادت امام حسینؑ اور شاہ عبدالعزیز دہلوی

( ثاقب اکبر)
محرم الحرام کا مہینہ ہے اور شہادت امام حسینؑ کا ذکر پوری دنیا میں جاری ہے۔ امام حسینؑ کے بارے میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ آپ کی یاد نہ فقط پوری دنیا میں منائی جاتی ہے بلکہ آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے والے دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام مسلمہ گروہ اور مکاتب فکر سید الشہداء امام حسینؑ سے اظہار محبت کرتے ہیں اور مختلف انداز سے ان کے حضور نذرانۂ مودّت پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو دوسرے مکتب فکر کے ساتھ کچھ اچھا سلوک روا نہیں رکھتے بلکہ ان کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں، تاہم امام حسینؑ کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی شاہ ولی اللہ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ 25 رمضان 1159 ہجری کو پیدا ہوئے اور انھوں نے 7 شوال 1239 ہجری کو وفات پائی۔ شاہ ولی اللہ کی اپنی روایت کے مطابق وہ حضرت عمر ابن خطاب کی نسل میں سے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز نے شیعہ عقائد کے خلاف ایک باقاعدہ معرکۃ الآرا کتاب لکھی۔ ان کے جواب میں بھی کئی کتابیں لکھی گئیں۔ ہم ذاتی طور پر فرقہ وارانہ کتابوں اور

خطابوں کو امت اسلامیہ کے لئے سود مند نہیں جانتے، لیکن کیا کیا جائے کہ تاریخ ایسی نامبارک کوششوں کی بہت سی شہادتوں کو اپنے سینے میں داغ ہائے درد کی طرح یا رستے زخموں کی طرح رکھے ہوئے ہے۔ اے کاش ہم ان سے اپنا دامن چھڑا سکیں۔

بات کہیں اور نہ نکل جائے، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ایک مختصر سا رسالہ سر الشہادتین کے نام سے رقم کیا ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت دراصل پیغمبر اسلامؐ ہی کی شہادت ہے۔ شاہ عبدالعزیز اہل سنت کے ہاں بہت زیادہ احترام رکھتے ہیں۔ ان کے علمی مرتبے کو ویسے تو سب تسلیم کرتے ہیں، لیکن خاص طور پر احناف اور اہل حدیث آج بھی ان کے علمی ذخائر سے کسب فیض کرتے ہیں۔ ان کا رسالہ سرالشہادتین آج کے دور میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو یزید کی حمایت میں طرح طرح کی دلیلیں گھڑ کر خلق خدا کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں اور دوسری طرف ایسی بلند مرتبہ شخصیات کے مقام علمی و مذہبی کو بھی قبول کرتے ہیں، نیز ان کے اقوال دیگر پہلوؤں سے اپنے لئے حجت سمجھتے ہیں، ان کا سدباب کیا جانا ضروری ہے۔ ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ سر الشہادتین کا بھی بنظر غائر مطالعہ کریں۔ ہم ذیل میں اس کتاب کے چند ایک اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

جمع کمالات انبیاء
شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں: اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے۔ آگاہ رہو کہ تمام کمالات جو انبیاء کرام علیہم السلام کی ذوات مقدسہ میں متفرق و منتشر تھے، وہ سب کے سب ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بتحقیق جمع فرما دیئے گئے۔ پس آپؐ کو آدم و داؤد علیھما السلام کی طرح خلافت عطا فرمائی گئی، سلیمان علیہ السلام کی طرح ملک و سلطنت عطا ہوئی، یوسف علیہ السلام کی طرح حسن و جمال عطا ہوا، جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرح خلت سے نوازا گیا، جناب موسٰی علیہ السلام کی طرح کلام و خطاب سے سرفراز فرمایا گیا، یونس علیہ السلام کی طرح عبادت و اطاعت سے مالا مال کیا گیا اور نوح علیہ السلام کی طرح شکر گزاری کی دولت عطا فرمائی گئی۔ تحقیق آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دیگر کمالات کا اضافہ کیا گیا، جن میں: ولایت تصرفات، محبوبیت مطلقہ، کامل برگزیدگی، دیدار حق تعالٰی، قرب اتم، شفاعت عظمٰی، دشمنان خدا سے جہاد و محاربہ اور اس کے علاوہ دیگر کمالات از قسم: علم وسیع، عرفان کامل، قضا و فتویٰ، اجتہاد و احتساب، قرأت قرآن وغیرہ بھی عطا ہوئے۔ اس سلسلے میں یہ معروف شعر انہی حقائق کی ترجمانی کرتا ہے:
حسن یوسف، دم عیسٰی، ید بیضا داری
آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری
لیکن آنحضرتؐ کو بظاہر شہادت نصیب نہ ہوسکی، شاہ عبدالعزیز کے الفاظ میں: "لکن بقی لہ کمال لم یحصل لہ بنفسہ وھی الشھادۃ۔”
مگر یہ وصف شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنفس نفیس حاصل نہ ہوا۔

طبعی وفات کا راز
شاہ عبدالعزیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبعی وفات کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "بنفس نفیس شہادت کے مرتبہ پر فائز نہ ہونے میں یہ راز ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی معرکۂ جنگ میں شہید ہو جاتے تو شوکت اسلام میں کمی واقع ہوتی اور دین متین میں خلل پیدا ہوجاتا۔” شاہ عبدالعزیز کا یہ نکتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہم اس پہلو پر غور کریں گے کہ آنحضرتؐ آخری رسول تھے اور آپؐ کے بعد کسی اور رسول کو نہیں آنا تھا تو پھر یہ بات زیادہ واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ آپؐ کی ظاہری شہادت سے شوکت اسلام کو کتنا نقصان پہنچتا۔ معاشرے میں انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان کی اکثریت فتح و شکست کے ظاہری معیارات پر نظر رکھتی ہے۔ اس لئے زیادہ ضروری تھا کہ آنحضرتؐ ہر لحاظ سے کامیابی و کامرانی کا نمونہ بن کر رخصت ہوتے۔ شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں: "اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچانک اور خفیہ طور پرشہید کر دیا جاتا، جیسے آپ کے بعض خلفاء کو شہید کر دیا گیا تو آپ کی شہادت مشہور نہ ہوتی۔” یہ نکتہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔

آگے چل کر شاہ صاحب نے مزید وضاحت بھی کی ہے کہ امام حسینؑ کی شہادت کو جس درجے کی شہرت حاصل ہوئی، وہ کسی اور شہادت کو نہیں ہوئی، جبکہ دنیا میں بڑی بڑی شخصیات کو خفیہ طور پر شہید کر دیا گیا، جس سے قربانی کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے۔ علاوہ ازیں جن خلفاء کو شہید کیا گیا، اگرچہ ان کی شہادت خفیہ نہ تھی لیکن قدرت کا اہتمام خاص کربلا کے لئے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں لق و دق صحرا میں اور اس دور کے تمام تمدنی مراکز سے دور شہادتیں ہوئیں اور ان کی شہرت دنیا بھر میں ہونے والے تمام واقعات کی شہرت پر غالب آگئی۔ شاہ صاحب نے ایک اور نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور وہ ہے امام حسینؑ کی شہادت کا ہر پہلو سے مکمل ہونا۔ چنانچہ وہ جہاں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کو اچانک اور خفیہ طور پر شہید کر دیا جاتا تو وہ شہادت مشہور نہ ہوتی، لہٰذا وہ یہ بھی کہتے ہیں: "بلکہ شہادت مکمل نہ ہوتی، کیونکہ مکمل شہادت یہ ہے کہ ایک شخص مسافری اور مشقت میں مارا جائے، اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹی جائیں، اس کی لاش میدان میں پڑی رہے اور اس کے ساتھ اس کے بہت سارے احباب و اعزہ قتل کر دیئے جائیں، اس کا مال لوٹ لیا جائے اور اس کی خواتین کو اسیر بنا لیا جائے اور یہ تمام مصائب محض رضائے الٰہی کے لئے ہوں۔”

ایام خلافت نبوت کے بعد
شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں: "فاقتضت حکمۃ اللہ تعالیٰ ان یلحق ھذا الکمال العظیم بسائر کمالاتہ بعد وفاتہ وانقضاء ایام خلافتہ التی تنافی المغلوبیۃ والمظلومیۃ برجال من اھل بیتہ بل باقرب اقاربہ واعز اولادہ ومن یکون فی حکم ابناء ہٖ حتی یلحق حالھم بحالہ ویندرج کمالھم فی کمالہ۔”
سو حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ جملہ دیگر کمالات کے ساتھ یہ کمال حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی وفات اور ایام خلافت نبوت جو کہ مغلوبیت و مظلومیت کے منافی ہے، گزرنے کے بعد اپنے اہل بیت میں سے چند افراد کے توسط سے میسر آئے، بلکہ ان کے توسط سے جو رشتے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کے نہایت قریب ہوں، اولاد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت عزیز ہوں اور بیٹوں کے حکم میں داخل ہوں، یہاں تک کہ ان کا حال اور کمال حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حال اور کمال سے متصل ہو جائے۔ اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کے نزدیک امام حسن ؑ اور امام حسینؑ کی شہادت کا زمانہ خلافت و نبوت کے بعد کا زمانہ ہے۔ جیسا کہ اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرتؐ کا زمانۂ خلافت حضرت امام حسنؑ کی طرف سے پیش کی گئی شرائط صلح کی قبولیت کے بعد دستبرداری کے ساتھ ہی تمام ہوگیا اور پھر بعد کے دور کو ملوکیت یا قیصریت سے یاد کیا جاتا ہے۔

شاہ صاحب نے اگلے مرحلے میں بھی یہ بات وضاحت سے لکھی ہے کہ امام حسن اور حسین کو آنحضرتؐ نے اپنا بیٹا قرار دیا۔ انھوں نے آل عمران کی آیہ مباہلہ جس میں واضح طور پر حسنین شریفین کو ابناءنا کے مصداق کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہمراہ میدان مباہلہ میں تشریف لائے کا ذکر نہیں کیا، تاہم پوری صراحت کے ساتھ دونوں آئمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی ایک روایات بھی درج کی ہیں۔ پھر اس کے بعد لکھتے ہیں: "سو عنایت الٰہی ایام خلافت کے گزرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کمال کے الحاق و اتصال کی جانب متوجہ ہوئی۔

مقام شہادت و نیابت رسولؐ
شاہ عبدالعزیز اس کے بعد حسنین کریمینؑ کی رسول اللہؐ کے ساتھ نسبتوں اور مشابہتوں کا خوبصورتی سے ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "سو عنایت باری تعالٰی سے حضرات حسنین علیہما السلام کو ان کے نانا (ان پر افضل صلوۃ و سلام ہوں) کی نیابت عطا ہوئی اور حضرات حسنین کریمین علیہما السلام کو مشاہدہ کمال محمدی کے دو آئینے اور مشاہدہ جمال مصطفوی کے دو رخسار بنا دیا گیا۔” پھر اس کے بعد شہادتوں کی دو قسموں کا ذکر کرتے ہیں: "اور جیسا کہ شہادت کی دو اقسام ہیں: شہادت سرّی و جہری تو ان دونوں اقسام کو شہزادوں پر تقسیم کر دیا گیا۔”

امام حسن ؑ کی سرّی شہادت
شاہ عبدالعزیز نے امام حسن کی سرّی شہادت کا مقدمہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "پس سبط اکبر (حضرت حسن علیہ السلام) کو قسم اول کے ساتھ مخصوص کیا گیا اور جو امر مخفی تھا

(جبریل علیہ السلام نے) کبھی بذریعہ وحی اس کا ذکر نہ کیا اور جب شہادت واقع ہوئی تو بھی شبہ ہی رہا، یہاں تک کہ یہ ان کی اپنی بیوی کے ہاتھوں واقع ہوا، حالانکہ بیوی کا تعلق محبت کا تعلق ہے نہ کہ عداوت کا۔ اس سب کی وجہ یہی تھی کہ اس شہادت کی بنا پوشیدہ رہے۔ اسی وجہ سے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی خبر نہ دی اور نہ ہی امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کا کچھ تذکرہ کیا۔”

امام حسینؑ کی جہری شہادت
پھر اس کے بعد امام حسینؑ کی جہری شہادت کا ذکر یوں کرتے ہیں: "اور چھوٹے صاحب زادے (یعنی امام حسین علیہ السلام) کو دوسری قسم کی شہادت کے ساتھ مخصوص کیا گیا، جس کی بنا شہرت و اعلان پر ہے۔ اس لئے سب سے پہلے اس کا بیان وحی میں زبان جبریل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں کے ذریعہ ہوا، پھر شہادت کے مقام کا اس کے نام اور پتہ کے ساتھ تعین ہوا۔ نیز اس کا ذکر امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجھہ کی زبان پر آیا، جب آپ صفین کی طرف سفر فرما رہے تھے۔

شہادت کی شہرت
امام حسینؑ کی شہادت کی بنیاد شاہ عبدالعزیز کے نزدیک پہلے دن سے شہرت کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں: "پھر جب سانحہ شہادت پیش آچکا تو چند ایسے امور واقع ہوئے، جن سے سانحہ شہادت کی چار دانگ عالم میں شہرت ہوگئی، جن میں مٹی کا خون ہو جانا، آسمان سے خون برسنا، ہاتف سے گریہ و زاری اور مرثیہ خوانی کی آوازوں کا سنا جانا، جنات کا رونا اور نوحہ کرنا، درندوں کا آپ علیہ السلام کی نعش مبارک کا بغرض حفاظت طواف کرنا اور قاتلوں کے نتھنوں میں سانپوں کا گھسنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام واقعات سے سانحہ کو انتہا درجہ کی شہرت ملی۔ تاکہ سب حاضر اور غائب اس واقعۂ جاں گداز سے آگاہ ہو جائیں، بلکہ ان دردناک مصائب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ایک تسلسل کے ساتھ روز قیامت تک یاد رکھا جائے۔ اسی لئے اس شہادت کا عالم بالا، عالم خاک او عالم غیب و شہادت میں جن و انس اور خاموش و گویا تمام مخلوق یعنی حیوانات و جمادات میں شہرہ ہوگیا۔”سرالشہادتین تمام کی تمام غوروفکر کے ساتھ پڑھنے کے لائق کتاب ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی تمام مقدماتی باتوں کو اگلے مرحلے میں حدیث اور تاریخ کے معتبر حوالوں سے ثابت کیا ہے۔ سرالشہادتین کا عربی و اردو متن ہم نے سید شاکر قادری کی کتاب تحریر الشہادتین سے لیا ہے اور اسکے عربی متن کا ایک قدیم متن سے موازنہ بھی کیا ہے۔ سرخیاں ہم نے قارئین کی سہولت کے لئے لگائی ہیں۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button