فقہی اور علمی نظامت (Management)
سوال ۲۲:اسلامی حاکمیت اور حکومت میں نظامت کا کتنا رول ہے ؟
علمی اور فقہی نظامت کا اسلامی حکومت میں کیا مقام ہے ؟ کون زیادہ اہم کردار کا حامل ہے ؟
واضح بات ہے کہ کوئی بھی نظامِ حکومت نظامت (Management) کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ،ہرحکومت میں نظامت کا بنیادی اور حیاتی کردار ہوتا ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فقہی نظامت ایک جدید اور نئی اصطلاح ہے جس کی پہلے تو اس کی صحیح اور دقیق تعریف نہیں کی گئی ۔
دوسرے فقہا اور اسلام کے سیاسی نظام کے دانشوروں میں سے کسی نے بھی ’’نظامت ِ فقہی‘‘کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے ۔
تیسرا یہ کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام حکومت میں مختلف سطحوں پر مشاہدہ کیاجاسکتا ہے کہ عام طور پر ملک کا انتظام و انصرام اعلیٰ تعلیم یافتہ با صلاحیت منتظمین کے ہاتھوں میں ہے، جوچیزاہم ہے وہ یہ ہے کہ تمام منتظمین اورمختلف شعبوں میں منصوبہ بندی کرنے والے افراد (بہترین اور مفید ترین علمی اور سائنسی طریقوں سے استفادہ کرنے کیساتھ)دینی اقدار کا خیال رکھیں،ان کی پابندی کریں اور شریعت کی تعلیمات کو سائنسی ایجادات کیساتھ بروئے کارلائیں۔
مطلب کوزیادہ واضح کرنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہے کہ ہر معاشرہ کا نصب العین‘اہداف ومقاصد اور اقدار ہوتی ہیں،ان اغراض و مقاصد اور اقدار کو سائنسی لحاظ سے معیّن نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ یہ سائنس سے ماوراء امور ہیں، البتہ سائنس ان اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو طریقے اور روشیں سکھا سکتی ہیں ۔
بنا بر ایں ہمار ا نصب العین کیا ہونا چاہیے مثلاً کیا ہمارا مقصود اور مطلوب انسان کی دنیاوی اور اخروی سعادت ہونا چاہیے یا ہمیں صرف دنیا کی فکر کرنی چاہیے ؟
کیا انسان کی ترقی اور تکامل کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیں یا مادی زندگی سے لطف اور لذت اٹھانااپنامقصودبنائیں ؟کیا ہمیں معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا چاہیے یا انفرادی آزادی کو اہمیت دینا چاہیے ؟
ان میں سے کوئی چیز بھی سائنس سے تعلق نہیں رکھتی اور تجربہ ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصرہے ، لیکن ان میں سے جس کسی کا بھی انتخاب کیا جائے اس تک پہنچنے کے لیے انسانی علم ایک حد تک ہماری مددکرسکتا ہے۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر نصب العین دوجہانوں کی’’خیروسعادت ‘‘ قرار پائے اور ہمارا بنیادی مقصد انسان کی ترقی اور تکامل ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے حصول کے لیے ہمیں عام علم سے مافوق (جیسے وحی کے ذریعے علم و معرفت)اور امور کو منظم کرنے کے لیے بیشتراقداربروئے کارلائی جائیں گی،اس کیساتھ اس میدان میں علم بھی انسان کو بعض طریقوں اور روشوں سے روشناس کراتا ہے ، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ علم کی طرف مجوزہ طریقے اور روش کو دین میں قبول شدہ اقدار اور اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ دینی اور سیکولر دونوں حکومتیں اپنے اغراض و مقاصد اور اقدار کو ماورائے علم سے دریافت کرتی ہیں اور طریقہ کار اور حکمت عملی کو اختیار کرنے میں انسانی علم سے مدد طلب کرتی ہیں لیکن منتخب شدہ طریقہ کار اور حکمت عملی اس کے نظام کے اہداف اور مقاصد کے مطابق ہو گی ۔
نتیجہ
۱۔نظامت کے شعبے میں فقط علم کسی خاص غرض و غایت اور معیّن ہدف کو بیان نہیں کرتا اور علمی اور سائنسی طور پر خالص نظامت کا کہیں وجود نہیں پایا جاتا ۔
۲۔نظامت دینی اورنظامت علمی اورسائنسی کاآپس میں تقابل ہی نہیںہے،بلکہ اسلامی نظامت اورسیکولرنظامت کے درمیان تقابل ضرورہے اوران دونوں کے درمیان فرق بھی اس جہت سے ہے کہ سیکولر نظامت کے پاس مافوق البشرکوئی علمی منبع اورسرچشمہ نہیں ہے جبکہ دینی نظامت کا سرچشمہ وحی الٰہی اور ہدایت ِ الٰہی ہیں۔
۳۔سیکولر نظامت کو سائنسی کہنا دھوکے اور فریبی نعرے کے سوا کچھ نہیں، اسلامی اور غیر اسلامی نظامت اپنے اپنے نظاموں سے ہم آہنگ مناسب استفادہ عقل،انسانی دانش اور علم سے کرتے ہیں ۔ (۱)
(حوالہ)
(۱) مزید آگاہی کے لیے ، مصنف ، سیکولرزم ، بحث مدیریت علمی و مدیریت فقہی