فقیہ کی ولایتِ مطلقہ
سوال۱۷:فقیہ کی مطلقہ ولایت سے کیا مراد ہے یعنی اس کے اور ولایت فقیہ کے درمیان کیا فرق ہے ؟اور یہ کہ فقیہ کی ولایت مطلقہ کی کیسے توجیہ کی جا سکتی ہے ؟کیا اس کا نتیجہ ڈکٹیٹرشپ اور آمریت نہیں ہے ؟
ولایت فقیہ ایک عمومی اصطلاح ہے جسے مقید اور مطلق میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس بناپر’’فقیہ کی مطلقہ ولایت ‘‘اپنے مفہوم کے لحاظ سے ولایت فقیہ کی ایک قسم شمار ہوتی ہے،البتہ آج کل عام طورپر’’ولایت فقیہ ‘‘کے لفظ کو جس معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ وہی ’’فقیہ کی مطلقہ ولایت ‘‘ ہی ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں ہے، اس کی وجہ اس کے معنی کی تشریح میں واضح ہو جائے گی ۔
فقیہ کی مطلقہ ولایتِ‘‘شیعہ فقہ میں دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے :
۱۔ولایت ِفقیہ فقط عدالتی فیصلے کرنے اور محجورین وغیرہ پر ولایت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ سیاسی اوراجتماعی سربراہی اور قیادت کو بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے ۔
۲۔’’ولیّ امر‘‘(اسلامی حاکم)کو حاکمیت کے اختیارات صرف احکام اوّلیہ اور ثانویہ تک محدود نہیں ہیں، با الفاظ دیگر اس کی ذمہ داری معاشرہ کی اس طرح قیادت کرنا ہے کہ معاشرے کے مفادات اورمصالح کاہدایتِ الٰہی کے سایے میں تحفظ کیا جائے اور مختلف حالات میں معاشرے کی گونا گوں اور قابل تغیر ضروریات پوری ہو سکیں ، ان میں کوئی کمی نہ آنے پائے اور معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہو اور پس ماندگی کا شکار نہ ہو ۔
اس لحاظ سے اگر بعض خاص حالات میں معاشرے کے کسی مفاد اور ضرورت کے ساتھ احکام اوّلیہ کا تصادم اور ٹکرائو ہو جائے تو ایسی صورتحال میں ولی فقیہ اِن دونوں کا موازنہ کرے، پس اگر اس مسئلہ میں جو حکم اوّلی کے ساتھ متصادم ہو اہے ، معاشرے کی اعلیٰ مصلحت اور مفاد ہے تو اس صورت میں ولی فقیہ اس حکم اوّلی کو بطور مؤقت (Temparary) معطل کر سکتا ہے اور معاشرے کے اعلیٰ مفاد کو اس پر ترجیح دے سکتا ہے ۔
مثال کے طور پر اسلامی فقہ میں مسجد کو گرانا حرام ہے، اب اگر سڑک کو کشادہ کرنے کے لیے مسجد کو گرانے کی ضرورت پڑے تو کیا کرنا چاہیے ؟
ولایت مطلقہ ، کے مخالف نظریے کے مطابق صرف اہم اجتماعی مفاد اور مصلحت مسجد گرانے کا جواز نہیں بن سکتی جب تک کہ یہ کام نا گریز نہ ہو جائے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہ ہو تو اس وقت تک مسجد کو نہیں گرایا جا سکتا، لیکن ’’ ولایت مطلقہ ‘‘ کے نظریے کے مطابق ضروری نہیں ہے کہ اسلامی حکومت اس قدر انتظار کرے کہ عوام کے لیے سنگین مشکلات اور مسائل پیدا ہو جائیں اور سرپر تلوار لٹکنے لگے اس مجبوری کی حالت میں بند گلی سے نکلنے کے لیے اور عوامی دبائو سے بچنے کے لیے مسجد کو گرایا جائے، بلکہ ایسی صورت میں تو ہم ترقی اور تمدن کی دوڑمیں بہت پیچھے رہ جائیں گے اور ہمیشہ مشکلات اور مسائل میں الجھے رہیں گے جبکہ شارع مقدس ایسی صورتحال سے قطعاً راضی نہیں ہے ۔ گزشتہ باتوں سے چند چیزیں واضح ہو گئی ہیں ۔
اوّل :
فقیہ کی مطلقہ ولایت ، تزاحم اور تصادم کو دور کرنے کا ایک اصول اور قاعدہ ہے ، یعنی ولایت کا مطلق ہونا احکام او ر اجتماعی مصالح کے درمیان تزاحم اور تصادم کی مشکل کو حل کرتا ہے اور اسلام کی زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کے حوالے سے حقیقت بینی کی علامت ہے ۔
دوّم :ولایت ِ مطلقہ کیلئے بھی قیود و شرائط ہیں نہ یہ کہ وہ ہرچیزسے آزاداوربلاقیدوشرط ہے ۔
یہ قیودوحدودِدرج ذیل ہیں :۔
۱۔وہ احکامِ الٰہی کا نفاذ کرنے والا ہے اُسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی خواہش اور مرضی سے عمل کرے ، بلکہ یہ تو ولایت فقیہ کا اصلی فلسفہ ہے ۔
۲۔عوام اور معاشرے کے مفاد اور مصلحتوں کا خیال رکھے۔
۳۔وہ اس وقت حکم اولیٰ کو وقتی طور پر معطل کر سکتا ہے جب وہ معاشرے کی اہم ترین مصلحت سے متصادم ہو،نہ یہ کہ وہ اپنی ذاتی رحجان اورذاتی مفادکی خاطریایہ کہ حکم اولیٰ شرعی سے کمترمفادکی خاطر۔
اب اگر ہم حقیقت پسندی سے کام لیں تو ہم سمجھ جائیں گے کہ ولایت مطلقہ (مذکورہ معنی میں ) وہ اہم ترین راہ حل ہے جو اسلام نے اجتماعی مفادات او ر مصالح کے درمیان تصادم اور تزاحم کے دوران پیش کیا ہے اور اس کے بغیر حکومت کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا استاد شہید مطہری نے اس قسم کے اختیارات کو در حقیقت اسلامی معاشرے کے اختیارات میں شمار کیا ہے اور اسے اسلام کے زندہ جاوید ہونے کے رموز میں سے قرار دیا ہے۔ (۱)
دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس حد تک اختیارات تو ہر حکومت کو حاصل ہوتے ہیں ، بلکہ دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو ولی فقیہ سے بہت زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔(۲)
گزشتہ بحث سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ ’’مطلقہ ‘‘ کا مذکورہ معنی ، کسی طرح سے بھی آمریت اور ڈکٹیٹر شپ سے مربوط نہیں ہے، جو چیز ڈکٹیٹر شپ سے غلط فہمی کا سبب بنی ہے وہ ’’ ولایت مطلقہ ‘‘ کا مطلقہ رژیموں (Absolutisic) سے لفظی مشابہت ہے ۔ اس میں حکمران مطلق العنان ہوتے ہیں ،حالانکہ مطلقہ مندرجہ بالا معنی میں اس سے بہت زیادہ مختلف ہے ۔ اسی لیے امام خمینیؒ نے فرمایا تھا ’’ولایت فقیہ ، ڈکٹیٹر شپ کا متضاد ہے ‘‘۔ (۳)
(حوالہ جات)
(۱) ۔ مزید معلومات کے لیے ، مطہری ، مرتضیٰ ، ختم نبوت ، ص ۶۴ ، ۶۵ ، قم صدرا ، طبع نہم ، ۱۳۷۴
(۲) مزید معلومات کے لیے ، جوان آراستہ ، حسین ، مبانی حکومت دینی ، ص ۳۸ ، ۳۵
(۳) صحیفہ نور ، ج ۱۰ ، ص ۳۰۶