کلیسا کی حکومت
سوال ۱۴:قرونِ وُسطی میں کلیسا کے دینی حکومت کے طرز تفکر اور عصر حاضر میں ایران اور شیعی دینی حکومت کے طرز تفکّر میں کیا فرق ہے ؟
قرونِ وسطی کی مذہبی حکومت (Theocracy) ( جسے غلطی سے کلیسا کی حکومت کہا جاتا ہے ) اور اسلامی حکومت اور اسلامیہ جمہوریہ کے نظام حکومت کے درمیان بنیادی فرق موجود ہے ۔ اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لیے درج ذیل نکات سامنے رکھنا ضروری ہیں:
۱۔ مروجہ کلیسائی طرز تفکر میں حکومت اور سیاست دین سے بالکل جداہے ، کیونکہ :
الف :انسان کی سیاسی اوراجتماعی زندگی کے بارے میں مسیحیت منظم اورجامع دستورالعمل اور شریعت سے فاقد ہے،اجتماعی حوالوں سے عیسائیت کی تعلیمات صرف چند اخلاقی احکامات پرمشتمل ہیں۔
ب :دوران تاریخ انجیل کی بعض تعلیمات نے عیسائی دنیا میں دین کی سیاست سے جدائی کے تفکّر کا پرچار کیا ہے ۔ انجیل میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے ’’پیلاطس‘‘ سے فرمایا : اس دنیا میں میری حکمرانی نہیں ہے (۱) اور ہیرو دسیان سے فرمایا : قیصر (روم کے بادشاہوں کا لقب ) کا مال قیصر کو دو اور خدا کا مال خدا کو دیں ‘‘ ۔ (۲)
اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ مروجہ عیسائی تفکر میں دین و دنیا کی جدائی اور سیکولرزم کی فکری بنیادیں موجود ہیں،البتہ عیسائیت سے ہماری مراد ’ عیسائیت کی موجودہ شکل و صورت اور آئین و دستور ہے نہ کہ حضرت عیسیٰؑ کی حقیقی تعلیمات ‘ بنابریں حکومت اور معاشرے کو چلانے کے بارے میں وحی اور قانون شریعت کی بنیاد پر کلیسا نے کوئی دعویٰ نہ کل کیا تھا اور نہ آج کر رہا ہے، کلیسا کی مرکزیت اور فرما نروائی صرف چند اجتماعی امور جیسے تعلیم و تربیت ، فیصلے کرنا وغیرہ (کی حد تک ہے نہ کہ تمام سیاسی اور اجتماعی شعبہ جات میں اور اس کا مطلب یہ بھی نہیںکہ ان جیسے امور میں دین کی مداخلت ہے ، حکومت بھی ہمیشہ بادشاہوں کے ہاتھ میںرہی ہے اس صورت میں’’ بادشاہوں کی حکومت کو لوگوں پر خدا کی حکومت (Theocracy)کہا جاتاتھا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ بادشاہ خود خدا سے اپنی حکومت کی اجازت لیتا ہے اور صرف اسی کے سامنے جوابدہ ہے ‘‘ ۔
لہٰذا مغربی طرز تفکر میں بندوں پر خدا کی حکومت ( تھیوکریسی) کا مطلب ’’ دین اور قوانین الٰہی کی حاکمیت ‘‘ہرگزنہیں ہے جبکہ اسلامی نظام ایک مکمل دینی نظام ہے ، جس کے اغراض و مقاصد ، قوانین ، شرائط ، حکمران ،حکومتی کارندوں کی خصوصیات اور اجتماعی و معاشرتی روابط کے اصولوں کا سرچشمہ دین ہے،یہ دین ہے جو ایک خاص معاشرے اور تمدن کی بنیادیں فراہم کرتا ہے ،اس کے برعکس عیسائی معاشرہ رومی تمدن کا مہمان اور پھر اس کا وارث بنا اور اس کے پاس اُسے قبول کرنے، حمایت کرنے اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔(۳)
۲۔قرونِ سطیٰ کی تھیوکریسی میں حکمران کا نعرہ اور شعار یہ تھا کہ ’’ حکمران صرف خدا کے سامنے جوابدہ ہے نہ لوگوں کے سامنے ‘‘اور خدا بھی وہ جس نے حکمران کے لیے نہ کوئی شرائط مقررکی ہیں اورنہ ہی اسکی حکومت کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیا ہے ۔ انگلستان کے بادشاہ جمینراوّل (جواس نظریے کے بانیوں میں سے ایک تھا ) سے نقل کیا گیا ہے کہ ’’ سلاطین روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی بولتی تصویریں ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بحث کرنا کفر اور الحاد ہے کہ وہ کون سے کام کر سکتا ہے اور کون سے کام اُسے نہیں کرنے چاہیں اسی طرح رعایا کے لیے بھی یہ بحث کرنا کفر اور الحاد ہے کہ بادشاہ کو یہ بات کہنی چاہیے یا نہیں ، یہ کام کرنا چاہیے یا یہ کام نہیں کرنا چاہیے ، زمین پر سلطنت ہر چیز سے مافوق ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بادشاہ او ر حکمران نہ صرف زمین پراللہ تعالیٰ کے معاونین ہیں اور اس کے تخت پر بیٹھتے ہیں بلکہ انہیں خود خدا کی طرف سے خدائوں کا نام دیاگیاہے۔‘‘(۴)
ایسے طرز تفکر کے نتیجے میں اقتدار نہ تو دینی اداروں کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرتی اور ثقافتی اداروں کے ذریعے سے ، اس کا انجام حکومت کے فاسد اور اقتدار اور طاقت سے سو أستفادہ کی صورت میں ہوتا ہے ۔
لوتر کہتا ہے :
کوئی بھی عیسائی اپنے حکمران ( اچھے یا برے ) کی مخالفت نہیں کر سکتا ، بلکہ اُسے ہرظلم ناانصافی کو برداشت کرنا ہو گا ، جو بھی مقابلہ کرے گااس پرلعنت ہوگی۔(۵)
مجموعی طور پر اس نظریے کے بنیادی اصول یہ ہیں :
۱۔ بادشاہ کو خدا نے مقرر کیا ہے اور بادشاہ اپنا اقتدار اس سے حاصل کرتا ہے ۔
۲۔ بادشاہت موروثی ہے اور یہ وراثت باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔
۳۔ بادشاہ صرف خدا کے حضور جوابدہ ہے ،نہ اپنی رعایا کے سامنے ۔
۴۔ بادشاہ اور اس کے احکامات کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے ۔ (۶)
لیکن اسلام میں صورتحال بالکل مختلف ہے ، حکومت ِ اسلامی میں حکمران اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی جوابدہ ہے اور عوام کے سامنے بھی ۔
دوسری طرف قرآن مجید نہ صرف بُرے اور ظالم حکمرانوں پر تنقید کو دین سے خروج کا سبب قرار نہیں دیتا بلکہ اسے واجبات دین میں سے قرار دیتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
ظالم رہبروں کی پیروی نہ کرو جنہوں نے فسق و فجور کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے اور لوگوں کے امور کی اصلاح کے لیے اقدام نہیں کرتے۔(۷)
اسلام میں حکومت اور عوام کے تعلقات اور روابط متقابل حقوق اور فرائض کی بنیاد پر استوار ہیں جبکہ مغربی تھیوکریسی میں بادشاہ کے عوام پر حقوق ہیں اور بادشاہ کے حوالے سے عوام پر صرف فرائض ہیں یعنی عوام کا بادشاہ پر کوئی حق نہیں ہے ۔
۳ ۔ قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ دور حکومت میں کلیسا جاگیرداری نظام کا ایک اہم ترین مرکزاور بڑی بڑی جاگیروں کا ملک تھا، (۸) صاحبان کلیسا پر دنیا پرستی ، تکلفات اور زرق و برق دنیا پورے طور پر مسلط تھی، جس کے نتیجے میں مسیحیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کلیسا دولت مندوں اور طاقتوروں کے ساتھ آن کھڑا ہوا ، فاسد نظاموں کی توجیہ کرنے لگا اور عدل و انصاف اور ظلم ستیزی ( جو دین الٰہی کی روح ہے ) سے دور ہو گیا ۔
؎ اسلامی معاشرے میں دینی قائدین اور اسلامی حکمرانوں کی اہم ترین صفت دنیا پرستی سے پرہیز ہے ، اس کا انسانی تاریخ میں دینی پیشوائوں میں سے اعلیٰ نمونہ حضرت امیر المومنین علیؑ ہیں ، اسی طرح یہ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینیؒ کی اقتدار کے اوج میں سادہ زندگی اس مسئلے کی بہترین مثال ہے ۔
نیکارا گوٹہ کی انقلابی حکومت کا وزیر تعلیم اور مسیحی عالم دین ’’ ارنسٹ کارڈینالہ ‘‘ کہتا ہے :
نیکارا گوٹہ کے انقلاب کے بعد ہمارے اوپر سخت اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں ۔ گنا(جوکہ ہمارے ملک کی برآمدات کا ایک بڑا ذریعہ تھا )ہم سے نہیں خریدا جاتا تھا ، ہماری حالت انتہائی ناگفتہ اور غیر واضح تھی ، اسی دوران ایران کے سفرمیں رہبر انقلاب اسلامی سے ایک ملاقات ہوئی، جماران کی پیچ و خم والی گلیوں سے گزرنے کے بعد میں نے رہبر انقلاب اسلامی کا سادہ سا گھر دیکھا ، وہ شخص جس نے مشرق اور مغرب پر لرزہ طاری کر دیا ہے وہ ایک بوڑھا شخص ہے جس کا لباس سادہ اور معمولی سے کمرے میں تشریف فرما ہے ،انہوں نے صرف ایک بات کہی اور وہ یہ تھی کہ’’ہم ظالموں کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ ہیں ‘‘،ان کی اس بات نے جو قلبی طاقت دی اس کا کسی چیز سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔
اسی سفر میں کیتھولک فرقہ کے عالمی رہبر پاپ کی رہائش گاہ پر بھی میں گیا تو اس عظیم الشان محل کے بڑے بڑے کمروں کے اندر کمرے ، پاپ کا گراں قیمت اور فاخرہ لباس اور اس کا سخت رویہ اور ناگوار اور تلخ لہجے کا ملاحظہ کیا ، اس نے کہا اگر تم چاہتے ہو کہ کلیسا کی جانب سے تمہاری مدد ہو تو سیاست سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے اور اسی طرح امریکہ کے مقابلے پر بھی نہ آئیں اور اس سے پھڈا مول نہ لیں ۔
میں نے کہا اصولی طور پر تمہیں میرارہبر اور قائد ہونا چاہیے جو کہ نہیں ہیں ، میرا رہبر توامام خمینیؒ ہے جو اس طرح سادہ زندگی گزار رہا ہے اور در حقیقت وہ حضرت مسیح ؑ کی سیرت پر چل رہا ہے اور امریکہ کا دشمن ہے ،اگر حضرت مسیح ؑ اس دور میں ہوتے تو وہ امام خمینیؒ (قدس سرہ ) کا طرز عمل اپناتے ۔ (۹)
اسلام اور حکومت
مذکورہ بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر عیسائیت میں ’’ دینی حکومت ‘‘ہرگز نہیں ہے ؛ لیکن اسلام میں صورتحال بالکل مختلف ہے ،اس کی وجوہات درج ذیل ہیں
الف :اسلام میں دین اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق اور رابطہ ہے ۔
ب :اسلام کے پاس حکومت سے مربوط تمام شعبوں میں خصوصی پرگرام اور لائحہ عمل موجود ہے ، اس بارے میں درج ذیل چیزیں قابل ذکر ہیں ۔
۱۔حکمران کی صفات اور شرائط کا تعیّن کرنا۔
۲۔داخلی اور خارجی سیاست کا منظم کرنا ۔
۳۔عوام اور معاشرے کے ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کو واضح بیان کرنا ۔
۴۔اداروں اور امور کو منظم کرنا ، قدرت اور طاقت کو کنٹرول کرنا اور خرابیوں کا راستہ روکنا ۔
۵۔عوامی اشتراک کو مضبوط بنانا اور ترقی کی راہ ہموار کرنا ۔
۶۔شرعی لحاظ سے جائز بنیادیں فراہم کرنا ۔
۷۔پیداوار کی کیفیت کی وضاحت ، حکومت کے اخراجات اور خزانہ کی حفاظت ۔
(حوالہ جات)
(۱) انجیل یوحنا ، باب ۱۹ ، آیت ۳۶ (۲) انجیل لوقا ، باب ۲۰ ، آیت ۲۵
(۳) مزید معلومات کے لیے دیکھئے ، ۱ ۔ رہنمائی ، سید احمد ، غرب شناسی ، موسئسہ آموزشی ویژہ و ہستی امام خمینی ؒ ، ۲ ۔ ہاملٹون آ ۔ ر گیب مذہب و سیاست ، ترجمہ مہدی قائنی
(۴) خدادادی ، محمد اسماعیل ، مبانی علم سیاست ، ص ۵۴ ، قم ، یاقوت ، طبعہ اولی ، ۱۳۸۰
(۵) علی عبدالرزاق ، الاسلام و اصول الحکم ، ص ۱۰۳ ، اقتباس ، محمد سروش ، دین و دولت در اندیشہ اسلامی ، ص ۱۳۹ ، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم ، طبعہ اول ۱۳۷۸
(۶) عالم ، عبدالرحمن ، بنیادہای علم سیاست ، ص ۱۶۸ ، تہران نشرنی ، طبعہ ثانی ۱۳۷۵ (۷)سورہ شعراء آیت ۱۵۱،۱۵۲
(۸) سفر بن عبدالرحمن الحوالی ، العلمانیۃ ، ویل ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ۴ ، عصر ایمان ، باب ۲۷ ، ڈاکٹر علی رضا رحیمی بروجردی ، سیر تحول تفکر جدید در اروپا
(۹) پیام زن ، سال ۵ ، شمارہ ۱ (فرور دین ۷۵ )