عرف اور قانون سازی
سوال ۲۱:حکومت ِاسلامی میں قانون سازی میں عرف ، ثقافت اور آداب و رسوم کا کتنا اثر اورکردارہے ؟
فقہ اور حقوق اسلامی اور اسلامی حکومت میں قانون سازی میں ’’عرف ‘‘ کا کتنا اثر ہے ؟ اس سے آگاہی کے لیے عرف کی تعریف ، اس کی اقسام ، اس کے معتبر ہونے کا معیار اور کسوٹی، اس کی حدود اور شرائط کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے ۔
عرف کی تعریف
عرف کے مختلف معانی اور مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے :
ماتعارفہ النّاس وسارواعلیہ من قولٍ اوفعل اوترک ویسمی العادۃ (۱)
عرف ایسی چیز ہے جو لوگوں کے درمیان معمول اوررائج ہواوراسی پروہ چل رہے ہوں، یہ بات کی صورت میں ہویاعمل کی صورت میں یااس کے ترک کی شکل میں،اسے عادت بھی کہا جاتا ہے ۔
البتہ عادت اورعرف کے درمیان فرق بھی موجود ہے جن کے ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔(۲)
عرف کے وجود میں آنے کے لیے درج ذیل عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔
۱۔مشخص اورمعیّن عمل ہو(یہاں عمل کا معنی عمومی ہے جو گفتار،کردار،انجام اورترک سب کوشامل ہے)
۲۔عمل کا تکرارہو۔ ۳۔عمومی ہو۔ ۴۔ارادے سے ہو نہ کہ فطری اورجبلّی۔
عرف کی اقسام
عرف کی مختلف اقسام ہیں،جیسے عرف عام اورعرف خاص، عرف صحیح اور عرف غلط ، عرف جوضرورت کی بنیادپروجودمیں آیاہواورعرف جوبغیرضرورت کے وجودمیں آیاہو،عرف اُمرہ، عرفِ لفظی اور عرف ِعملی وغیرہ مذکورہ اقسام پرتفصیلی بحث ہماری اس تحریر کے دائرے سے خارج ہے ، خواہشمند افراد اس سے متعلقہ کتب سے رجوع کرسکتے ہیں ۔(۳)
فقہ اور حقوق اسلامی میں عرف کا مقام
اسلام میں دینی احکام اور حقوق کو اخذ کرنے اور معلوم کرنے کے مآخذ کو بنیادی طور پردوحصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
۱۔مآخذ اولیہ
ان سے مراد وہ ماخذ ہیں جو ذاتی طور پر معتبر اور حجیت رکھتے ہیں ، جیسے عقل یا شارع نے انہیں براہ راست حجت قرار دیا ہے ، جیسے کتاب اور سنت ۔
۲۔مآخذثانویہ
یہ وہ ماخذہیں جن کا معتبراورحجت ہونافرعی ہے اوران کی بازگشت ماخذ اولیہ میں سے کسی ایک کی طرف ہوتی ہے،اجماع ( فقہا کی متفقہ رائے)شہرت (کسی حد تک اتفاق ) سیرہ مسلمین اور بنائی عقلاء(عرف)انہی مآخذ میں سے ہیں، عرف کی حجیت اور اس کے معتبر ہونے کے معیار کے بارے میں تمام فقہاء کا نظریہ ہے کہ عرف ذاتی طورپرحجت اورمعتبر نہیں ہے،بلکہ اس کامعتبرہوناکسی اورچیزسے متعلق ہے،وہ اورچیزکیاہے،اس بارے میں دو مختلف رائے موجود ہیں ۔
پہلی رائے
بعض افراد کی رائے ہے کہ عرف کی بازگشت سنت کی طرف ہوتی ہے ۔
اس صورت میں جو چیز اصلی ہے وہ شارع کی رائے ہے ،بنا برایں عرف اس وقت حجت ہو گا جب شارع اس کی تائید اور تصدیق فرمائے گا ، لیکن عرفِ عام کے لیے جو شارع کے سامنے اور موجودگی میں تھا ، شارع کا سکوت اور مخالفت نہ کرنا اس کے حجت ہونے کے لیے کافی ہے، لہٰذا عرف یا بنای عقلا ء اس صورت میں معتبر اور قابل ِ استناد ہے جب شارع کی طرف سے اس کی بلا واسطہ یا با لواسطہ مخالفت نہ کی گئی ہو ۔ (۴)
دوسری رائے
بعض افرادکی رائے میں عرف یابنائی عقلاء کی بازگشت عقل کی طرف ہوتی ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان کے دو بنیادی پہلو ہیں ۔
۱۔جذبات واحساسات کا پہلو
انسان کا یہ پہلو اُسے لذت بخش عادات ، عشق ، نفرت وغیرہ پر برانگیختہ کرتا ہے ۔
۲۔عقل و شعور کا پہلو
انسان کے وجود کا یہ پہلو اس کی تدبیری عادات و اطوار کو منظم کرتا ہے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ دو پہلو ایک دوسرے سے بالکل اجنبی نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان تعامل موجودہے۔
اس نظریے سے عرف چونکہ قوہ عاقلہ رکھتا ہے ، اس کی سرگرمیاں عقل پر مبنی ہوتی ہیں اوربناوسیرہ عقلاء اس کے عقلی ادراکات سے وجود میں آتا ہے،چونکہ عقل حجت ہے اور ایک معتبرماخذہے ، اس بنا پر عرف اور بناء عقلا کا منبع عقلی ہے،دوسری طرف حکم ، عقل اور شرع کے درمیان لازم و ملزوم قاعدہ کی بنیاد پر اس قسم کے امور معتبر اور حجت ہوتے ہیں، پس اس امرکی بنیاد پر سیرہ عقلا کی حجیت حکم ، عقل اور شرع کے درمیان ملازمہ کی رُو سے ہے ۔
اس بناء پر اوّلاً اگر کوئی عمل اور فعل انسان کے جذباتی اور احساسی پہلو سے وجود میں آئے اور بتدریج عرف اور عادت کی شکل میں تبدیل ہو جائے اور عقل سے اس کا تعلق نہ ہو تو وہ معتبر نہیں ہے ۔
ثانیاً اگر شارع بنا عقلاء میں سے کسی چیز( مثلاً قرض اور معاملات میں سود )کو غلط قرار دیتا ہے اور اسے مسترد کر دیتا ہے تو اس کا مسترد کرنا اس کی عدم حجیت کو سالبہ بہ اکتفای موضوع کی طرز پر کشف کرتا ہے،یعنی شارع کا انکار ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ طرز عمل اور بناء بالکل عقل و تفکّر سے عاری ہے اور عقلی بنیاد سے خالی ہے ۔
اس وقت مذکورہ دو تصورات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا ، ان کے بارے میں فیصلہ کرنا اور ان کے درمیان فرق واضح کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے ، اسی طرح اس مختصر تحریر میں عرف کے معتبر ہونے کی تمام شرائط( مذکورہ صورتوں میں )کو ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان دو نظریوں میں درج ذیل مشترکہ چیزیں موجود ہیں ۔
۱۔عرف اور بناء عقلاء فی الجملہ قابلِ توجہ اور قابل اعتبار ہے ۔
۲۔عرف اور بناء عقلا کا معتبر ہونا ذاتی نہیں ہے بلکہ اس کی بازگشت دیگر مآخذ کی طرف ہوتی ہے اس لحاظ سے اس کے ضوابط ، اس کا دائرہ اہمیت اور اس کا معتبر ہونا اس کے اصلی منبع کے تابع ہے ۔
۳۔جب بھی عرف حکم عقل یا شرع کی مخالف صورت اختیار کر لے تو وہ بالکل معتبر نہیں ہوتا اور اُسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا،اس بنا پر اسلامی معاشرے کی قانون سازی کے لیے عرف کو دلیل بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے کچھ اصول و ضوابط اور حدود و قیود ہیں جن پر فقہ اور حقوق کی مفصل کتب میں بحث کی جاتی ہے ۔
وہ مقامات اور موارد جہاں عرف کو معیار قرار دیا جا سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔دلالتِ الفاظ ، عبارات اور مفاہیم، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ الفاظ اور جملے جن میں کوئی فقہی حکم پایا جاتا ہے ، ان سے شارع کے موردِنظرمعانی کو جاننے کے لیے فہم و ادراک کا پہلا مرجع عرف ہے ۔
یہ مسئلہ دینی زبان کو پہنچاننے کے لیے اصول اور قواعد کو وجود میں لاتا ہے اور انہیں لفظی اصول و قواعد کہا جاتا ہے، ان میں سے اہم اصول یہ ہیں :
اصالۃ الظھور، اصالۃ العموم ، اصالۃ الاطلاق اوراصالۃ الحقیقۃ
۲۔عدالتی اور انصاف کے قوانین میں بھی عرف کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور اصل عدم کے علاوہ منکرکو مدعی سے تشخیص دینے کے ذریعوں میں سے ایک ذریعہ عرف بھی ہے۔(۵)
۳۔عقودکی شرائط میں بھی عرف کو ایک قانونی مآخذکے طورپراپنایاجا سکتا ہے،وہ شرائط جوعام طورپرمعاہدوں میں قبول کی جاتی ہیں ، فقہا معاہدوں کے مبنی علیہ کے عنوان سے انہیں معتبر سمجھتے ہیں۔
۴۔عناوین ِ ثانویہ کے موضوعات ( جیسے ضرورت ، اہم اور مہم ، ضرر ، حرج وغیرہ ) کی تشخیص میں عرف کا کردار کھل کر سامنے آتا ہے ۔
۵۔بعض احکام فقہی کی دلیل عرف ہے،اسلام کے تائید شدہ احکام(جوکہ بہت سے قانونی ، معاشرتی اوراقتصادی امورسے متعلق ہیں)اسلامی معاشرے میں قانون سازی اورفقہ میں عرف کے قبول ہونے اور مؤید ہونے کے لیے وسیع میدان فراہم کرتے ہیں، مثال کے طور پر صیغوں کے بغیر انجام پانے والے معاملات ، عقد فضولی ، خراب ہونے والے اور درختوں کے نیچے گرے ہوئے پھلوں کو گزرنے والے شخص کا مالک کی اجازت کے بغیر کھانا وغیرہ ۔
۶۔احکام کے موضوعات اور بعض مقامات پر حکم کے عنوان کے متعلق ، اس کے اجزاء اور شرائط کی تغیر و تشریح کے لیے بھی عرف کو سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔
استاد عمید زنجانی لکھتے ہیں :
اس لحاظ سے کہ موضوع یا متعلق حکم کے بارے میں جو وضاحت اور تشریح عرف سے حاصل ہوتی ہے ، عرف بالواسطہ طور پر خود حکم پر اثر اندازہوتا ہے اورکبھی تو حکم کی تبدیلی کا موجب بھی بنتا ہے، مثلاً کفار سے مشابہت کی حرمت کاحکم،ایک وقت تھا جب خاص مغربی لباس پہننے کی صورت میں یہ حکم صادق آتا تھا لیکن اب جبکہ وہ لباس مغرب سے مختص نہیں رہا اور عرف میں عمومی اور مشترک لباس بن گیا ہے تو ذکورہ حرمت کا حکم اب اس لباس پر لاگو نہیں ہو گا ۔
اس طرح اثر انداز ہونا حکم کی تبدیلی متصور نہیں ہوتی بلکہ اس کا تعلق موضوع کی تبدیلی سے ہے جس کا سرچشمہ عرف ہے ۔
۷۔بین الاقوامی قوانین اور اس سے متعلق امور میں بھی عرف کا عمل دخل پایا جاتا ہے اور ان روایات اور رسومات میں بھی جو انسانی معاشرے میں تدریجاً وجود میں آئی ہیں اور اب وہ ضروری محسوس ہوتی ہیں (چنانچہ شرعی لحاظ سے ان کے ممنوع ہونے پر کوئی دلیل موجودنہ ہو)عرف کا ایک موثرکردارہے۔
۸۔نیزتمام سیاسی اور حکومتی مسائل اور امور میں عرف ایک قانونی سرچشمہ کے طورپرقابل ِ اعتبار ہے،البتہ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ عرف کے قابل اعتبار ہونے کی کچھ شرائط ہیں،ان شرائط کودوچیزوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
۱۔شرط موضوعی
یعنی وہ شرائط جن سے عرف کاپتہ لگایاجاتاہے،اس بارے میں بعض افراد دو بنیادی شرطوں کے قائل ہیں،مسلسل انجام پانااوراس کا ضروری ہونا۔(۶)
۲۔شرط حکمی
یعنی شارع کی طرف سے نہی یا مخالفت کا نہ ہونا۔
مذکورہ دو شرائط تمام فقہا کے نزدیک متفق علیہ ہیں ، بعض فقہا نے اپنے خاص نقطہ نظر کی وجہ سے حجیت عرف کے مبنیٰ کے لیے دیگر شرائط کو بیان کیا ہے جن کو ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
سیکولرعرف
یہاں پر ایک اور نکتہ جو قابل ِاہمیت ہے وہ عرف کے بارے میں دو مختلف آراء ہیں، ایک ’’عرف‘‘شریعت کے مطابق ‘‘ دوسری ، سیکولر یا بے دین عرف ۔
پہلی رائے کے مطابق عرف کو شریعت کے سایے میں دیکھا جاتا ہے اور اُسے شریعت سے مربوط مآخذ کے طور پر ملاحظہ کیا جاتا ہے، گزشتہ مطالب میں جو کچھ بیان ہوا وہ زیادہ عرف کے بارے میں اِسی نقطئہ نظر کے مطابق تھا۔
دوسری رائے کے مطابق پہلے ہی مرحلے میں عرف کو شریعت سے جدا طور پر ملاحظہ کیا جائے گا ، یعنی اصل میں سوال یہ ہوگا کہ :
۱۔کیا عرف کتاب اور سنت کے مقابل میں قانون سازی کا جداگانہ سرچشمہ بن سکتا ہے ؟
۲۔کیاعرف سے مراد صرف اور صرف اس کی عقلی صورت نہیں ہے ، باالفاط دیگر اصلی مقصود اور مرادیہ ہے کہ چونکہ عقلاء سمجھ بوجھ،سوچ وفکررکھنے والے اور ذہین انسان ہوتے ہیں اس لیے انہیں قانون سازی کا ایک منبع قراردیاجائے،بلکہ جیسا کہ گزر چکا ہے کہ عقلاء کی دو حیثیتیں ہیں،ایک عقلی اورمؤفتی اور دوسری جذبات و احساسات کے حوالے سے اصلی سوال یہاں پریہ ہے کہ کیا عرف کے رحجانات اور خواہشات کا بھی قانون سازی میں عمل دخل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟
دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ اگر بعض امور میں عرف صرف اور صرف نفس امّارہ کی خواہش اور رحجان کی وجہ سے کسی چیز کا ارادہ کرے ، کیا اُسے قانونی طور پر قابل اعتبار سمجھا جائے ؟
مذکورہ دو نکات کی روشنی میں اس سوال کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کیا لوگوں کی پسند اور خواہشات و میلانات حکومت ِاسلامی میں قانون سازی کے لیے کتاب و سنت کے مقابل بطور جداگانہ مآخذ اورمنبع بن سکتا ہے ؟
احکام ِ دین :اس کے جواب کے لیے اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ دین کے احکام کی پانچ اقسام ہیں : واجبات ، مستحبات ، مباحات ، مکروہات اور محرمات ۔
الف:واجبات اور محرمات
دین کے ضروری احکامات ہیں ان کی پابندی نہ کرنا گناہ اور نافرمانی شمارہوتی ہے ، امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں :
لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق(۷)
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی خواہ وہ مخلوق حکمران ہو یا عمومی خواہشات یا رحجانات ہوں ۔
اس بناء پر کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی مرضی سے اس طرح کے امور میں تبدیلی لے آئے اوراس کے برخلاف عمل کرے یاکسی اورسے اس کے خلاف عمل درآمد کروائے،لہٰذا صرف عوام کی پسند اور مرضی کے( بغیر اس کے کہ اضطراری وثانویہ عنوان یا اہم اجتماعی مصلحت اس کا تقاضا کرے ) دین کے ضروری احکام کے مقابلے میں قانون سازی کا سرچشمہ قرار نہیں پا سکتی ، بلکہ ایسے مقامات پر عرف کی مداخلت اسلامی حکومت کے بنیادی فلسفہ سے تضاد رکھتی ہے اور اس کے سیکولر ہونے کا سبب بنتی ہے ،کیونکہ اسلامی حکومت ، الٰہی احکام پرمشتمل نظام ہے اور الٰہی احکام انسان کے حقیقی مصالح اور مفادات پر مشتمل ہیں نہ کہ ہوا و ہوس اور میلانات اور رحجانات کی اساس اور بنیاد ہیں،اس بناء پر اگر عوام کی مرضی اور پسند اللہ تعالیٰ کے قانون کے مقابل قرار پائے اور اس پر اُسے ترجیح دی جائے تو پھر حکومت اسلامی اوردیگر غیر اسلامی اور بے دین نظاموں میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔
ب: مستحبات ، مکروہات اور مباحات
یہ وہ احکام ہیں جو لازمی اور ضروری نہیں ہیں ، ان میں شارع نے مومنین کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے عمل کریں اور مختلف طریقوں میں سے جسے چاہیں اپنے لیے انتخاب کریں۔
یہاں پر ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ مستحبات میں فعل کے انجام دینے اور مکروہات میں ترکِ فعل کو ترجیح دی گئی ہے لیکن مباحات میں کسی طرف کو بھی ترجیح نہیں دی گئی،انجام دینا اور ترک کرنا برابر ہے ۔
بنا برایں دنوں اطراف میں سے کسی ایک کا انتخاب مکمل طور پر انسان کے ہاتھ میں دیاگیاہے،اس دائرہ کار میں انسانوں کی پسند اور خواہش بڑے بڑے معاشرتی معاملات میں قانون سازی کا مآخذ اور فیصلوں کا سر چشمہ بن سکتی ہے ۔
(حوالہ جات)
(۱) دیکھئے ،منصوری ، خلیل رضا ، دراسۃ موضوعیۃ حول نظریۃ العرف ودورھا فی عملیۃ الاستنباط ، ص ۵۱
(۲) حوالہ سابق ، ص ۵۲ ، ۵۴ ، نیز محمدی ، ابو الحسن ، مبانی ، استنباط ، حقوق اسلامی یا اصول فقہ ، ص ۲۵۱
(۳) دیکھئے ، جبار ، گلباغی ماسولہ ، سید علی ، در آمدی بر عرف
(۴) اس بارے میں قیود اور شرائط بھی ذکر کی گئی ہیں اور بعض خصوصیات میں اختلاف نظر بھی پایا جاتا ہے ، اس پر تفصیلی گفتگو کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔
(۵) عمید زنجانی ، عباس علی ، فقہ سیاسی اسلام ، ج ۲ ، ص ۲۱۹ اور شرح اللمعۃ الدمشقیۃ ، ج ۵ ، ص ۳۷۶
(۶) فقہ سیاسی اسلام ، ج ۲ ، ص ۲۲۳
(۷) نہج البلاغہ ، حکمت نمبر ۱۶۵