اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

خاندان کے متعلق معصومین کی سفارش

مصنف:
غلام مرتضیٰ انصاری
اخلاق، معاشرتی اخلاق
خاندان پر خرچ کریں
امام سجادؑ نے فرمایا: خدا تعالیٰ سب سے زیادہ اس شخص پر راضی ہوگا جو اپنے اہل وعیال پر سب سے زیادہ خرچ کرتاہے
عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ(۱)
امام رضاؑ سے منقول ہے کہ جو شخص اپنے اہل وعیال کے خاطر خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے کسب کرتا ہے تو اس کے لئے اس مجاہد سے زیادہ ثواب ملے گا ،جو راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں۔آپؑ ہی سے منقول ہے :
أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى عِيَالِهِ كَيْلَا يَتَمَنَّوْا مَوْتَه(۲)
جس کو بھی خدا تعالی کی نعمتوں پر دست رسی حاصل ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، تاکہ اس کی موت کی تمنا نہ کریں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: مؤمن خدا تعالی کے آداب پر عمل کرتا ہے جب بھی خدا تعالی اسے نعمت اور رزق میں وسعت عطا کرتاہے تو وہ بھی اپنے زیردست افراد پر زیادہ خرچ کرتاہے۔اور جب خدا وند نعمت کو روکتا ہے تو وہ بھی روکتا ہے۔(۳)
اور فرمایا: جو میانہ روی اختیار کرے گا اس کی میں ضمانت دونگا کہ وہ کبھی بھی مفلس نہیں ہوگا۔

پہلے گھر والے پھر دوسرے
ایک شخص نے امام باقر (ع) سے عرض کیا ، مولا !میرا ایک باغ ہے جس کی سالانہ آمدنی تین ہزار دینار ہے۔ جس میں سے دو ہزار دینار اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں ایک ہزار فقراء میں صدقہ دیتا ہوں۔ تو امام نے فرمایا: اگر دوہزاردینار سے اہل و عیال کا خرچہ پورا ہوتا ہے تو بہت اچھا ہے۔ کیونکہ تو اپنی آخرت کیلئے وہی کام کر رہے ہو جو تیرے مرنے اور وصیت کرنے کے بعد وارثوں نے کرنا تھا۔ تو اپنی زندگی میں اس سے نفع حاصل کر رہے ہو۔ (۴)

اسراف نہ کرو
امام زین العابدین ؑنے فرمایا:
مرد کو چاہئے کہ اندازے سے خرچ کرے اور زیادہ تر اپنی آخرت کیلئے بھیجا کرے۔ یہ نعمتوں کا دوام اور زیادتی کیلئے زیادہ مفید ہے اور روز قیامت کیلئے زیادہ سود مند ہے۔
امام صادقؑ نے فرمایا؛
میانہ روی ایسی چیز ہے جسے خدا تعالیٰ بہت دوست رکھتا ہے۔ اور اسراف ایسی چیز ہے جس سے خدا تعالی نفرت کرتا ہے ، اسراف ایک دانہ کھجورہو یا بچا ہوا پانی کیوں نہ ہو۔(۵)

روز جمعہ کا پھل
قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع أَطْرِفُوا أَهَالِيَكُمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْفَاكِهَةِ كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمُعَةِ (۶)
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: اپنے اہل و عیال کیلئے ہر جمعہ کوئی نہ کوئی تازہ پھل کھلایا کرو تاکہ روز جمعہ سے خوش ہوں۔

خاندان کیساتھ نیکی اورلمبی عمر
امام صادق ؑنے فرمایا:
من حسن برّ ہ باھلہ زاداللہ فی عمرہ ۔جو بھی اپنے خاندان کیساتھ نیکی کرے گا خدا تعالی اس کی زندگی میں برکت عطا کریگا۔اس کے مقابلے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا وَ قَالَ ع مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ يَعُولُ (۷)لعنتی ہے لعنتی ہے وہ شخص جو اپنے زیر دست افراد کے حقوق دینے میں کوتاہی کرتا ہے۔
خاندان اور آخرت کی بربادی
قال علی (ع) : لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ وَ وُلْدِكَ فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ وَ وُلْدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَهُ وَ إِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فَمَا هَمُّكَ وَ شُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّهِ (۸)
آپ نے اپنے بعض اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: اپنے بیوی بچوں کے خاطر اپنے آپ کو زیادہ زحمت میں نہ ڈالو ، اگر وہ لوگ خدا کے صالح بندوں میں سے ہوں تو خدا تعالی اپنے نیک بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اگر وہ خدا کے دشمنوں میں سے ہوں تو کیوں خدا کے دشمنوں کے خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ پس ایسا نہ ہو کہ ان کی خاطر ہم خدا اور دین خدا کو فراموش کر بیٹھیں اور حلال حرام کی رعایت کئے بغیر ان کو کھلائیں اور پلائیں۔

محبت خاندان کی کامیابی کا راز
خاندان کی بنیاد ،عشق و محبت پر رکھنا چاہئے کیونکہ محبت کا اظہار میاں بیوی کے درمیان آرام و سکون کا باعث بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ دونوں کی سعادت اور خوش بختی کی صورت میں پیدا ہوتاہے۔ اورمحبت کی پہلی شرط ایک دوسرے کی روش اور سوچ کی شناخت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان لیں کہ کن چیزوں سے خوش ہوتے ہیں اور کن چیزوں سے ناراض۔بیوی کومعلوم ہو کہ اس کا شوہرکس وقت تھکا ہوتا ہے اور کس وقت اس کے ساتھ گفتگو کرنا ہے۔اور یہ ایسے امور ہیں کہ ہر فرد میں مختلف ہیں ۔ معیار محبت یہ نہیں ہے کہ کسی بھی وقت غصہ میں نہ آئے بلکہ اگر گھر کا کوئی فرد غیر اخلاقی کام کربیٹھتا ہے تو سربراہ کو چاہئے کہ اپنی ناراضگی کا احساس دلائے اور نصیحت کرے۔ ہاں جب محبت زیادہ ہوجاتی ہے جسے عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے غصّہ کرنے میں مانع بنتا ہے۔ لیکن کبھی بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے ایسی گہری اور عمیق محبت کا انتظارنہ رکھے۔ میاں بیوی کے درمیان حد اعتدال میں محبت ہو تو کافی ہے۔ بہر حال جس قدر یہ محبت قیمتی ہے اسی قدر اس کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔پس ہمیشہ میاں بیوی کو اس محبت کی مراقبت اور پاسداری کرنی چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ گھر کی اندرونی اور بیرونی مشکلات ہمیں اس قدر مشغول کردے کہ صفا اور وفا سے دور ہوجائیں ۔ لہٰذا دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے درمیان پیار و محبت ، صلح و صفا اور مہرووفا کاسماں پیداکریں۔

حوالہ جات

1 ۔ الکافی ،ج۵، ص۸۸۔
2 ۔ الکافی ، ج۴ ، ص۱۱۔
3 ۔ الکافی، ص ٢٥٩۔
4 ۔ الکافی،ص٢٥٧۔
5 ۔ الکافی،ج٢٥، ص٢٤٩ ۔ ۲۵۰۔
6 ۔ بحار، ج١٠١،ص ٧٣۔
7 ۔ من لایحضرہ ،ج۳، ص ۵۵۵۔
8 ۔ بحار ج ۱۰۱، ص ۷۳۔

Related Articles

Back to top button