امام محمد تقی علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

ولادت امام جواد علیہ السلام

حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام ہمارے نویں امام ہیں، آنحضرت کا نام محمد اور کنیت ابوجعفر الثانی اور القاب تقی ،جواد، مرتضی، مختار ،منتجب،قانع اور عالم ہیں، البتہ تقی اور جواد الائمہ کا لقب زیادہ مشہورہے،آنحضرت (ع) کےوالد گرامی کا نام حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ ہے،(آپکی والدہ ماجدہ کے دوسرے نام” سکینہ” ، "مرضیہ” اور” درہ” بھی نقل کیے گیے ہیں)حضرت امام رضا نے اس عظیم خاتون کا نام ” خیزران ” رکھاتھا،(1)
” خیزران ” شمالی افریقہ کے علاقے ” نوبہ ” اور پیغمبر اسلام(ص) کی ہمسر ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہیں اور وہ اپنے زمانے کی عظیم خاتون تھیں، پیغمبر اسلام (ص)نے اپنے زمانے میں اس خاتون کے بارے میں پیشنگوئی کی تھی اور ایک حدیث میں فرمایا تھا : بابی ابن خیرہ الاماء النوبیہ الطیبہ(2)میرےوالد اس بہترین کنیز کے فرزند کے قربان جو ” نوبہ ” کی ہو گی اور پاکیزہ سرشت ہوگی،
امام موسی کاظم علیہ السلام نے بھی اس عظیم خاتون کے بارے میں پیشن گوئی کی ہے، امام (ع) نے ایک حدیث میں یزید بن سلیط سے فرمایا:مکہ کے راستے سے جب میرے بیٹے علی( امام رضا) کے ساتھ ملاقات کرو گے تو اسکو بیٹے کی بشارت دیناجو کہ امانتدار اور مبارک ہوگا، اس دن میرا بیٹاتجھے اس بات کی خبر دے گاکہ کس دن میرے ساتھ ملاقات کی اور کیا گفتگو ہوئی اور اس وقت تم بھی اسکو یہ خبر دینا کہ تمہارا بیٹا جس کنیز سے پیدا ہوگا وہ پیغمبر اسلام(ص) کی کنیز ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہو گی، اگر اس خاتون کو دیکھوگے تو اس تک میرا سلام پہچادینا،(3)
حضرت امام جواد علیہ السلام مدینہ منورہ میں امام رضا (ع)کے گھرمیں پیدا ہوئے، البتہ تاریخ پیدایش کے حوالے سے مورخین اور سیرہ نویسوں کے درمیان اتفاق نہیں ہے، کیونکہ بعض نے 5 رمضان اور بعض نے 15 رمضان اور بعض نے تو 19 رمضان اور بعض دوسروں نے 10 رجب سن 195 ہجری کو حضرت کا یوم پیدایش لکھا ہے،(4)
ابن عیاش نے بھی انکا یوم پیدایش 10 رجب لکھا ہے اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں اس کی تائید ہے، دعائے ناحیہ میں ہم پڑھتے ہیں:اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب(5)
کلیم بن عمران سے روایت ہے: میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام سے درخواست کی کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ آپ کو اولاد عطا فرمائے، امام رضا علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:حق تعالی مجھے فرزند عطا کرے گا اور وہ میرا جانشین اور امامت کا وارث ہوگا،جب امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوئے تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا خدائے متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا کیا ہے کہ جسکی شباھت موسی ابن عمران سے ہے جس نے دریا کے دو ٹکڑے کئے اور اسکی مثال عیسی ابن مریم کے مانند ہے کہ خداوند نے اسکی والدہ کو پاکیزہ ،طاہر و مطہر خلق کیا،(6)
امام رضا علیہ السلام نے جب مامون کی درخواست پر خراسان (ایران )کا سفر کیا تو اس وقت انکے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام پانچ سال کے تھے اور جب حضرت امام رضا علیہ السلام مامون کے ہاتھوں شہید ہوئے اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام 8 سال کے تھے، امام محمد تقی علیہ السلام بچپن میں ہی امامت کے منصب پر فائز ہوئے،اور اس کم سنی میں تشیع کی کشتی کی ہدایت کے فریضہ کو بطریق احسن انجام دیا اور اپنے والد اور اجداد کے مانند عدالت کے طلب گاروں اور مکتب اھل بیت(‏ع) کے پیرو کاروں کی پناہ گاہ بنے رہے۔
مامون عباسی جوکہ ایک زبردست دانشمندتھا اور اپنے زمانے کے خردمندوں میں سےتھا، اس نے عباسیوں کی مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی "ام الفضل” کا نکاح امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ کیا،امام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے،” واما ابو جعفر محمد بن علی اخترتہ لتبریرہ عیی کااھل الفضل فی علم و الفضل مع صغر سنہ، والا عجوبہ فیہ بذالک، وانا ارجو ان یظھر للناس ما قد عرفتہ منہ،فیعلموا ان الرای ما رائت فیہ”(7)یعنی : البتہ یہ کہ میں نے ابو جعفرمحمد بن علی کو اپنا داماد بنایا اور اس کو اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کم سنی میں ہی تمام اہل فضل اور صاحبان علم و اندیشہ کے درمیان برتری حاصل کر چکا ہے وہ اپنے زمانے کا نابغہ ہے، مجھے امید ہے کہ جس طرح میں نے اسکے علمی کمالات کو سمجھا ہے اور لوگ بھی اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جان لیں کہ صحیح وہی ہے جو میں پسند کروں،
مامون عباسی کہ جس نے امام (ع) کا علمی مقام سمجھا تھا اور انھیں اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا تھالیکن مامون کے مرنے کے بعد جب امام نے دوسری بار بغداد کا سفر کیا، ام الفضل کے چچا نے اس کو امام (ع) کو مسموم کرنے کیلئے اکسایا اور اس طرح امام اپنی بیوی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوگئے،(8)
—————
1{منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص324؛کشف الغمہ(علی ابن عیسی اریلی)ج3ص186 }
2{الارشاد (شیخ مفید)ص615؛ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325}
3{ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325}
4{ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325}
5{مفاتیح الجنان( شیخ عباس قمی) رجب کی چھٹی دعا}
6{ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص326}
7{2{الارشاد (شیخ مفید)ص621}
8{2{الارشاد (شیخ مفید)ص621}

Related Articles

Back to top button