کافر مسلمان ہوگیا
بغداد کے بازار میں کہیں سے ایک کافر آگیا تو لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے،وہ لوگوں کو ان کے دل کا حال سناتا اور جو کچھ ان کے گھروں میں ہوتا وہ بھی انہیں بتلاتا تھا،کسی نے امام موسیٰ کاظمؑکو اس ماجرے سے آگاہ کیا تو آپ بھی عامل لباس زیب تن کر کے بازار میں پہنچ گئے،آپؑ نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ تم اپنے دل میں کوئی بات رکھ کر اس کے بارے میں سوال کرو،آپ کے ساتھی نے اس سے پوچھا کہ بتائو میرے دل میں کیا ہے تو کافر نے بالکل صحیح صحیح بتا دیا ،امام موسیٰ کاظمؑ اس کافر کو علیحدہ لے گئے اور فرمایا:تم نے یہ مقام کیسے حاصل کر لیا جب کہ یہ چیز تو نبوت کا ایک جزو ہے۔
کافر نے کہا:میں نے اپنی خواہش نفسانی کی مخالفت کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
امامؑ نے فرمایا:کیا تو نے اپنے نفس کے سامنے کبھی اسلام کو بھی پیش کیا ہے؟اس نے کہا :جی ہاں!میرا نفس اسلام کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
آپؑ نے فرمایا:تم تو ہمیشہ نفس کی مخالفت کرنے کا دعویٰ کرتے ہو،پھر کیا وجہ ہے کہ اس مسئلے میں تم نے نفس کا کہنا مان لیا؟تمہیں اس مسئلے میں بھی نفس کی مخالفت کرنی چاہیے۔
امامؑ کی اس بات پر اس نے کچھ تک غور کیا پھر مسلمان ہوگیا اور وہ اچھا مسلمان ثابت ہوا۔
مسلمان ہونے کے بعد وہ کبھی کبھار امام موسیٰ کاظمؑکی خدمت میں حاضر ہوتا تھا،ایک دن کسی نے اس سے کہا کہ مجھے میرے دل کا حال سنائو۔
پھر اس نے امامؑ سے پوچھا:مولا!میں کافر تھا تو اتنا روشن ضمیر تھا کہ لوگوں کی نیت بھی جان لیتا تھا مگر جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھ سے میری روشنی چھن گئی ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟امامؑ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ہر شخص کی محنت کا اسے ثمر ضرور دیتا ہے،جب تک تو کافر تھا تیری مخالفت نفس کا ثمر اللہ تعالیٰ تجھے اسی دنیا میں دے دیتا تھا اور آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہ تھا اور اب جبکہ تو مسلمان ہوگیا ہے تو تیرا اجر اللہ کے پاس محفوظ ہے،وہ تجھے آخرت میں اس کا اجر ضرور دے گا،اسی لیے اس نے دنیا میں تجھے اجر دینا چھوڑ دیا ہے۔
(حوالہ)
(کشکول بحرانی،ص۳۵۸)