دانشکدہمقالات

حضرت بال

حضرت بال

حضرت بال

مسجد حضرت بال جہاں پیغمبر اکرمؐ کا موئے مبارک محفوظ ہے

ابتدائی معلومات
تأسیس: سن 1655ء
محل وقوع: کشمیر ہندوستان
مشخصات
معماری

حضرت بال ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلمانوں کی اہم ترین عبادت گاہ اور زیارت گاہ ہے جہاں حضرت محمدؐ سے منسوب موئے مبارک محفوظ ہے۔ مؤرخین کے مطابق گیارہویں صدی ہجری کے اوایل میں گنبد خضریٰ کے ایک خادم کے ذریعے موئے مبارک ہندوستان لایا گیا۔ اس موئے مبارک کو ہر سال پیغمبر اکرمؐ کی یوم ولادت، معراج اور کئی دوسری مناسبتوں میں عام لوگوں کی زیارت کیلئے رکھی جاتی ہے۔ درگاہ حضرت بال سرینگر میں دریائے دل کے مغربی حصے میں واقع ہے۔

حضرت بال وہاں کے مسلمانوں کے عقیدے میں پیغمبر اکرمؐ کا اپنے پیرکاروں کے ساتھ روحانی اتصال کا مرکز ہے۔ ایک دفعہ 9 دن کیلئے موئے مبارک کے غایب ہونے کی وجہ سے پورے کشمیر میں ایک قسم کی بے چینی دیکھنے میں آئی جو یہاں کے مکینوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں موئے مبارک کی تقدس اور اہمیت کی نشانی ہے۔

وجہ نام گزاری

"بال” کشمیری زبان میں "پانی کے کنارے” کو کہا جاتا ہے اور چونکہ یہ بارگاہ دریائے دل کے کنارے پر واقع ہے،[1] شاید اسی وجہ اس مقدس مقام کا نام حضرت بال رکھا گیا ہے۔ یا شاید یہاں پر رکھئے ہوئے موئے مبارک کی مناسب سے ای کا نام حضرت بال رکھا گیا ہے۔[2]

موئے مبارک کی منتقلی اور اس عمارت کی تعمیر

پیغمبر اکرمؐ سے منسوب موئے مبارک کی مدینہ سے ہندوستان منتقلی کا ذکر تاریخ میں پہلی مرتبہ گیارہویں صدی ہجری کے اوائل ہوا[3] 1005ھ ابراہیم عادلشاہ دوم کے دور میں میرمحمد صالح ہمدانی نے موئے مبارک رسول اکرمؐ کو مدینہ سے بیجاپور لے آیا جس اس وقت کے بادشاہ نے گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔

شاہ جہان (حکومت: 1037-1068ھ) میں سید عبداللّہ بیجاپوری نامی گنبد خضری کے ایک خادم نے آنحضرتؐ سے منسوب موئے مبارک کو سعودی عرب سے برصغیر کے شہر بیجاپور لے آئے۔ موئے مبارک کی پیغمبر اکرمؐ سے دی گئی نسبت کے صحیح ہونے اور اس کے بیجاپور منتقلی کی دقیق تاریخ سے متعلق معلومات میں تناقض پایا جاتا ہے۔

سنہ 1111ھ اورنگ زیب کے دور حکومت میں خواجہ نورالدین ایشباری نامی ایک کشمیری تاجر نے اس موئے مبارک جو کہ موئے مقدس کے نام سے مشہور تھا کو خریدا جب وطن واپس آنے کا قصد کیا تو وہ وہیں پر ہی فوت ہوا اس کے بعد اس موئے مبارک کو اس کے جسد خاکی کے ساتھ سرینگر لایا گیا۔[4]

حضرت بال کی عمارت

حضرت بال.jpg

شروع میں موئے مبارک کو سرینگر میں خانقاہ نقشبندیہ میں عام لوگوں کی زیارت کیلئے رکھا گیا لیکن خانقاہ میں زیادہ لوگوں کیلئے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مغل بادشاہ، فاضل خان کے حکم اور لوگوں کے اصرا پر موئے مبارک کو باغ صادق‌آباد منتقل کیا گیا اور اس باغ کی عمارت کو موئے مبارک کی زیارتگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا یوں یہ عمارت "حضرت بال” کے نام سے مشہور ہو گئی۔

کہویہامی کے بقول یہ عمارت جو صادق آباد کے نام سے مشہور تھی پہلی بار[5] 1033ھ میں بنائی گئی جو مغولوں اور کشمیریوں کی معماری کا مرکب تھا[6] جب اس میں موئے مبارک کو لایا گیا تو اس کی مزید توسیع کی گئی اور اس کے مغرب میں مسجد اور مشرق میں ایک بڑی خانقاہ بنائی گئی۔[7] سنہ 1943 ء سے حضرت بال پر اوقاف اسلامیہ کی نگرانی شروع ہوئی۔[8] موجودہ عمارت مکمل طور پر سفید سنگ مرمر سے مسجد نبوی کے طرز پر بنائی گئی ہے۔[9] اس وقت کے کشمیری وزیر اعظم شیخ عبداللّہ کے حکم پر سنہ 1968ء کو اوقاف اسلامیہ نے اس عمارت کی تعمیر شروع کی۔[10]

موئے مبارک کا گم‌ ہونا

موئے مبارک 26 دسمبر سنہ 1963ء کو گم ہو گیا اور 9 دن بعد اس کے دوبارہ پیدا ہونے کا دعوا کیا گیا۔ اسحاق‌خان[11] کے بقول اس واقعے کے اسرار سے کوئی مکمل طور پر باخبر نہیں۔ ان چند دنوں میں کشمیر سمیت ہندوستان کے دیگر کئی شہروں میں ایک عجیب الجھن پیدا ہو گئی جو ان لوگوں کی مذہبی اور سماجی زندگی میں موئے مبارک کی تاثیر کا پتہ دیتا ہے۔[12]

معنوی مقام

کشمیری مسلمانوں کے مطابق حضرت بال پیغمبر اکرمؐ کا اپنے پیروکاروں کے ساتھ معنوی اتصال کا ذریعہ ہے۔[13] اس عظیم یادگار کی قدر و قیمت کا اندازہ وہاں کے مسلمانوں کے اشعار اور ترانوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جن میں حضرت بال کی زیارت کو مدینے میں مسجدی نبوی کی زیارت کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔ اس درگاہ کو مدینہ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔[14]

اہم مواقع پر عمومی نمایش

رسول اکرمؐ سے منسوب موئے مبارک شیشے کے ایک صندوق میں رکھا ہوا ہے اور ہر سال پیغمبر اکرمؐ کی یوم ولادت، معراج اور دیگر کئی مواقع پر عام لوگوں کی زیارت کیلئے رکھا جاتا ہے اور پورے کشمیر سے لوگ موئے مبارک کی زیارت کیلئے یہاں پر آتے ہیں۔[15]

متبرک ہونا

موئے مبارک اور حضرت بال کی زیارت پر آنے والے لوگ یہاں پر اپنی حاجتیں(بیماروں کی شفایابی، بچہ‌دار ہونا، طول عمر اور قدرتی آفات سے محفوظ رہنا) طلب کرتے ہیں اور ان حوائچ کی برآوری کیلئے نذر و نیاز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔[16]

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۷۲، ۱۷۴.
  2. اوپر جائیں کہویہامی، حصہ ۱، ص۳۰۲ـ۳۰۳ و پانویس ۹۷۵؛ اسحاق خان، ہمانجا؛ گوہر، ص۲۴، ۲۷، ۳۵؛ اسکوفیلد، ص۲۲؛ برای دیگر معانی بال رجوع کنید بہ گوہر، ص۱۵.
  3. اوپر جائیں فرشتہ، ج ۲، ص۸۹ـ۹۰۔
  4. اوپر جائیں کہویہامی، حصہ ۱، ص۳۰۲؛ اسحاق خان، ص۱۷۴۔
  5. اوپر جائیں حصہ ۱، ص۳۰۳ و پانویس ۹۷۷۔
  6. اوپر جائیں گوہر، ص۲۲۹۔
  7. اوپر جائیں کہویہامی، حصہ ۱، ص۳۰۱ـ۳۰۲۔
  8. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۸۱ و پانویس ۳۳؛ گوہر، ص۲۵۵۔
  9. اوپر جائیں گوہر، ص۲۳۰۔
  10. اوپر جائیں گوہر، ص۲۳۰۔
  11. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۸۴ـ۱۸۵۔
  12. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۸۴ـ۱۸۵؛ اکبر، ص۱۵۷، ۱۶۳ـ۱۶۴۔
  13. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۷۵۔
  14. اوپر جائیں رجوع کنید بہ دیدمری، ص۴۲۳؛ اسحاق خان، ص۱۷۵، ۱۷۷؛ گوہر، ص۲۷ـ۳۱، ۲۳۷ـ۲۴۶۔
  15. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۷۲ـ۱۷۳؛ گوہر، ص۵۳۔
  16. اوپر جائیں اسحاق خان، ص۱۷۸۔

مآخذ

  • دیدمری، محمداعظم بن خیرالدین، واقعات کشمیر، ترجمہ ظہور شہداد اظہر، سرینگر، ۲۰۰۳م۔
  • فرشتہ، محمدقاسم بن غلامعلی، تاریخ فرشتہ (گلشن ابراہیمی)، لکہنو: مطبع منشی نولکشور، بی‌تا۔
  • کہویہامی، غلامحسن، تاریخ حسن، حصہ ۱، سرینگر، ۱۹۵۴م۔
  • M۔J۔ Akbar, Kashmir: behind the vale, New Delhi 2002۔
  • G۔N۔ Gauhar, Hazratbal: the central stage of Kashmir politics, New Delhi 1998۔
  • Muhammad Ishaq Khan, ” The significance of the dargah of Hazratbal in the socio- religious and political life of Kashmiri Muslims”, in Muslim shrines in India: their character, history and significance, ed۔ Christian W۔ Troll, New Delhi: Oxford University Press, 2004; Victoria Schofield, Kashmir in the crossfire, London 1996۔

Related Articles

Back to top button