امام حسن عسکری علیہ السلاممقالات

امام حسن عسکری علیہ السلام

حسن بن علی بن محمد (232ھ260ھ)، امام حسن عسکریؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ امام علی نقیؑ کے فرزند ارجمند اور امام مہدیؑ کے والد گرامی ہیں۔ آپ کا مشہور لقب عسکری ہے جو حکومت وقت کی طرف سے آپ کو شہر سامراء جو اس وقت فوجی چھاونی کی حیثیت رکھتا تھا، میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کے دوسرے القاب میں ابن‌ الرضا، ہادی، نقی، زکی، رفیق اور صامت مشہور ہیں۔ حکومت وقت کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اپنے پیرکاروں سے رابطہ برقرار رکھنے کی خاطر آپ نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کئے اور وکالت سسٹم کے تحت اپنے نمایندوں سے رابطے میں رہے۔ عثمان بن سعید آپ کے خاص نمائندوں میں سے تھے جو آپؑ کی وفات کے بعد غیبت صغریٰ کی ابتدا میں امام زمانہ(عج) کے پہلے نائب خاص بھی رہے ہیں۔

امام حسن عسکری 8 ربیع الاول سنہ 260 ھ کو 28 سال کی عمر میں سامرا میں شہید ہوئے اور اپنے والد محترم امام علی نقیؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔ ان دونوں اماموںؑ کا مدفن حرم عسکریین سے مشہور ہے اور عراق میں شیعہ زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ حرم دو مرتبہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006 ء کو ہوا جبکہ دوسرا حملہ اس کے 16 مہینے بعد یعنی 13 مئی 2007ء کو کیا گیا۔

تفسیر قرآن، اخلاق، فقہ، اعتقادات، ادعیہ، زیارت جیسے مختلف موضوعات پر امام حسن عسکریؑ سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام
مرقد امام هادی علیه السلام.jpg
منصب شیعوں کے گیارہویں امام
نام حسن بن علی
کنیت ابو محمد
القاب صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی
تاریخ ولادت 10 ربیع الثانی سنہ 232ھ
جائے ولادت مدینہ
مدت امامت 6 سال (254 تا 260ھ)
شہادت 8 ربیع الاول، سنہ 260ھ
مدفن سامرا، عراق
رہائش سامرا
والد ماجد امام علی نقی
والدہ ماجدہ سلیل یا حدیثہ یا سوسن
ازواج نرجس خاتون
اولاد امام مہدی
عمر 28 سال

سوانح عمری

  • نسب:‌

امام حسن عسکریؑ کا نسب آٹھ واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالبؑ سے ملتا ہے۔ آپؑ کے والد گرامی شیعہ اثنا عشریہ کے دسویں امام امام علی النقیؑ ہیں۔ شیعہ مصادر کے مطابق آپ کی والدہ کنیز تھی جنکا نام حُدیث یا «حدیثہ» تھا۔[1] کچھ اور اقوال کے مطابق آپکی مادر گرامی کا نام "سوسن"[2] اور "عسفان"[3] یا "سلیل"[4] بتایا گیا ہے اور دوسری عبارت میں"کانت من العارفات الصالحات”( یعنی وہ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں”) کے ساتھ آپ کا تعارف کروایا گیا۔[5]

آپ کا صرف ایک بھائی جعفر تھا جو امام حسن عسکری کے بعد امامت پر دعوا کرنے کی وجہ سے جعفر کذاب کے نام سے معروف ہوا اور امام حسن عسکری کی اور کوئی اولاد ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو امامت کی میراث کا اکیلا دعویدار قرار دیا۔[6]سید محمد اور حسین آپ کے دوسرے بھائی تھے۔[7]

  • القاب:

آپ کے القاب صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب خالص بھی کہا۔ ابن الرضا کے لقب سے امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ مشہور ہوئے[8]۔ امام حسن عسکریؑ کے والد محترم امام علی نقی نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے سامراء میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام عسکری کے نام سے مشہور ہوئے، عسکر سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا۔[9]جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو اخیر کہا جاتا ہے ۔[10]

احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکریؑ کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے۔

  • کنیت:

آپؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض کتابوں میں ابوالحسن[11]، ابو الحجہ[12]، ابوالقائم[13] مذکور ہیں۔

  • تولد:

معتبر منابع کے مطابق آپ مدینہ میں پیدا ہوئے۔[14]بعض نے آپ کی جائے پیدائش سامرا ذکر کی ہے۔ [15] کلینی اور اکثر متقدم امامی منابع آپ کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ [16] شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اسے امام نے خود ایک روایت میں بیان کیا ہے۔[17] شیعہ و سنی بعض قدیمی مصادر میں حضرت کی ولادت 231ھ میں ہونے کا ذکر ہے۔[18] شیخ مفید نے اپنے بعض آثار میں گیارہویں امام کی ولادت کو 10 ربیع الاخر ذکر کی ہے۔[19] چھٹی صدی میں یہ قول متروک ہو گیا اور اس کی جگہ 8 ربیع الاول معروف ہو گیا[20] اور امامیہ کے ہاں یہی مشہور قول بھی ہے۔ بعض اہل سنت اور شیعہ مآخذ حضرت کی پیدائش کا سال ۲۳۱ ھ نیز لکھتے ہیں۔[21]

  • شہادت:

مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ ربیع الاول سنہ۲۶۰ ھ کے شروع میں معتمد عباسی کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سرّ من رأی (سامرا) میں جام شہادت نوش کرگئے۔[22] البتہ ربیع الثانی اور جمادی الاولی میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں۔[23] طبرسی نے اعلام الوری میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد».[24] بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی۔[25] ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی۔[26] امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے۔[27]

  • ازواج:‌

مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ حضرت مہدی(عج) کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن شیخ صدوق اور شہید ثانی نے یوں نقل کیا ہے کہ امام زمان(عج) کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکریؑ کی زوجہ تھیں۔[28]

منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے زیادہ تر خادم رومی، صقلائی اور ترک تھے[29] اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر امام مہدی(عج) کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔

لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے۔[30]

دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سوسن[31]، ریحانہ اور مریم[32] بھی ہیں۔

  • اولاد:‌

اکثر شیعہ اور سنی منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں۔[33]

امام حسن عسکریؑ، حضرت امام زمانہ(عج) کے والد ہونے کے ناطے[34]، امام حسن عسکریؑ کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے۔ اور امامیہ (اہل تشیع) کے نزدیک مشہور ہے ہے کہ امام مہدی(عج) کی ولادت 15 شعبان سنہ 255 ھ کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254 ھ یا سنہ 256 ھ میں ہوئی ہے۔[35]

آپ کی اولاد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے تین بیٹے اور تین بیٹیوں کا کہا ہے۔ اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے[36]؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری ؑ کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں[37]۔ ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی ، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عائشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں[38]۔ لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکریؑ کے بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں[39] جو شاید ان مورخوں نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے ابن جریر طبری، یحیٰ بن صاعد اور ابن حزم کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں۔[40] لیکن مذکورہ بالا روایات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بے بنیاد دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
  • سامرا آمد:

بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر عراق طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت سامرا تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا ۔بعض کتابوں میں 236 ھ کو اور [41] اور بعض میں ۲۳۳ ھ کو اس سفر کا سال قرار دیا ہے۔[42] مذکور ہے۔ امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری اور مشہور ہے کہ صرف آپ ہی وہ امام ہیں جو حج پہ نہیں گئے، لیکن عیون اخبار الرضا اور کشف الغمہ میں راوی نے آپ سے ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ انہوں نے مکہ میں امام سے سنی ہے،[43] مکہ کے اس سفر کے علاوہ جرجان کی طرف ایک سفر کا بھی ذکر ہوا ہے۔[44]

آپ کے دورۂ امامت میں معتز عباسی (۲۵۲-۲۵۵ ھ)، مہتدی (۲۵۵-۲۵۶ ھ) و معتمد (۲۵۶-۲۷۹ ھ)۔[45] عباسی خلیفہ رہے۔

امامت کی مدت اور دلائل

جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے سال ۲۵۴ قمری کے بعد، اپنے معاصرین میں سے فضیلت اور برتری رکھنے کی وجہ اور امام ہادیؑ کی روایات کے مطابق آپؑ اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں۔[46] علی بن عمر نوفلی، امام ہادیؑ سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادیؑ کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام حسن ہو گا۔

بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادیؑ کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکریؑ اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔[47]

امام عسکریؑ ۲۵۴ تا ۲۶۰ تک ۶ سال کی مدت امامت کے فرائض انجام دیتے رہے پھر انکی شہادت کے بعد ان کے بیٹے امام زمانؑ امامت پر فائز ہوئے ۔ امام حسن عسکری

سیاسی حالات

امام حسن عسکریؑ کی امامت عباسی تین خلفاء کی خلافت کے دور میں تھی:بود: معتز عباسی(252-255ھ)، مہتدی (255-256ھ) اور معتمد (256-279ھ)۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں عباسی حکومت امیروں کیلئے ایک بازیچہ بن چکی تھی خاص طور پر ترک نظامی سپہ سالاروں کا حکومتی سسٹم میں مؤثر کردار تھا ۔امام کی زندگی کی پہلی سیاسی سرگرمی اس وقت تاریخ میں ثبت ہوئی جب آپ کا سن 20 سال تھا اور آپ کے والد گرامی زندہ تھے ۔آپ نے اس وقت عبدالله بن عبدالله بن طاہر کو خط لکھا جس میں خلیفۂ وقت مستعین کو باغی اور طغیان گر کہا اور خدا سے اس کے سقوط کی تمنا کا اظہار کیا۔یہ واقعہ مستعین کی حکومت کے سقوط سے چند روز پہلے کا ہے ۔ عبد اللہ بن عبد اللہ عباسی حکومت میں صاحب نفوذ اور خلیفۂ وقت کے دشمنوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔[48]

مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا ۔حضرت امام حسن عسکری کے مقتول خلیفہ کی نسبت احتمالی اطلاعات کی بنا پر معتز نے شروع میں آپ کی اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا ۔حضرت امام علی نقی کی شہادت کے بعد شواہد اس بات کے بیان گر ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی ۔آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے شیعوں سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو زندان میں قید کر دیا لہذا امام آزار و اذیت میں گرفتار ہو گئے ۔نیز امام حسن عسکری اس کے بعد کے خلیفہ مہتدی ک دور میں بھی زندان میں ہی رہے ۔256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام زندان سے آزاد ہوئے ۔ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو مرتب و منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان کیلئے پریشانی کا موجب بن گئیں۔ پس 260 ق میں معتمد کے دستور پر امام حسن عسکری کو دوبارہ زندانی کیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا ۔[49] ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا ۔[50]

قیام اور شورشیں

امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں شیعوں کی جانب سے عباسیوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور کچھ سوئے استفادہ کی بنیاد پر علویوں کے نام سے شورشیں برپا ہوئیں۔

  • علی بن زید اور عیسی بن جعفر کا قیام

یہ دونوں علوی امام حسن مجتبیؑ کے ممتاز صحابہ میں سے تھے ۔انہوں نے سال ۲۵۵ ہجری کو کوفہ میں قیام کیا۔ معتز عباسی نے سعید بن صالح کی سرکردگی میں فوج بھیج کر اس قیام کو شکست دی ۔[51]

  • علی بن زید بن حسین

یہ امام حسینؑ کی اولاد میں سے تھا ۔انہوں نے مهتدی عباسی کے زمانے میں کوفہ میں قیام کیا۔ شاه بن میکال ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کے مقابلے میں آیا لیکن شکست سے دو چار ہوا ۔ معتمد عباسی جب تخت نشین ہوا تو اس نے کیجور ترکی کو اس کے مقابلے کیلئے بھیجا ۔ علی بن زید نے پسپائی اختیار کی اور فرار ہو گیا بالآخر سنہ257 ہجری میں قتل ہوا [52]

  • احمد بن محمد بن عبدالله

اس نے معتمد عباسی کے زمانے میں مصر کے برقہ اور اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔ بہت بڑی تعداد اپنے پیروکاروں کی پیدا کر لی اور خلافت کا ادعا کیا ۔ترک خلیفہ نے کارگزار احمد بن طولون کو اسکے مقابلے کیلئے بھیجا تا کہ اس کے اطرافیوں کو اس سے جدا اور منتشر کرے۔احمد بن محمد بن عبد اللہ نے مقاومت کی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔[53]

  • صاحب زنج کی شورش

علی بن محمد عبدالقیسی نے سال ۲۵۵ق میں معتمد عباسی کے دور میں قیام کیا۔ اس نے اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جبکہ وہ نسب کے لحاظ سے علوی نہیں تھا کیونکہ اکثر نسب شناسانعبداقیس کی شاخ میں قرار دیتے ہیں۔۔[54] نیز وہ کردار کے لحاظ سے بھی علویوں کے نزدیک نہیں تھا [55] وہ عقیدے کے لحاظ سے خوارج کا ہم عقیدہ تھا۔[56] امام حسن عسکری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا صاحب زنج اہل بیت سے نہیں ہے ۔[57] اس نے غلاموں کی آزادی کے نعرے کے ساتھ بصره کے مدینۃ الفتح اور کرخ کے درمیان بئر نخل نامی محلے سے قیام کا آغاز کیا ۔طولانی مدت تک اس نے عباسیوں کے سامنے مقاومت کی جو 15 سال تک جاری رہی ۔نہایت کار سال ۲۷۰ھ میں قتل ہو گیا۔[58]

شیعوں سے رابطہ

امام حسن عسکری کے دور میں معاشرے میں اکثریتی مذہب اہل سنت تھا اور اسی طرح عباسیوں کی جانب سے شیعہ سخت حالات میں ہونے کی وجہ سے تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ان حالات میں امام حسن عسکری نے شیعوں کے امور چلانے کیلئے اور وجوہات شرعی کی جمع آوری کیلئے مختلف علاقوں میں اپنے وکیلوں کو روانہ کرتے تھے۔[59]

امام سے ملاقات

جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ۔اس دوران امام کے اصحاب آپ کی زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے ۔[60]اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئے مستقیم طور پر امام سے ملنا کس قدر دشوار تھا۔ اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امامؑ کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی۔[61] ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امامؑ کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے۔[62] اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔[63]

امام کے نمائندے

حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امامؑ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم عقید تھا جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا[64]۔ اسی طرح آپکے خادم جس کی کنیت ابو الادیان تھی اس کے ذمےبعض خطوط پہنچانا تھا[65]۔ لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کے شروع کے دور میں پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا۔[66]

مراسلہ نگاری

امام کا اپنے شیعوں سے رابطہ خطوط کے ذریعے بھی تھا ۔نمونے کے طور پر علی بن حسین بن بابویہ[67] اور قم کے لوگوں کے خط کو ذکر کیا سکتا ہے [68] شیعہ اپنے مسائل اور مختلف موضوعات کے متعلق سوالات خط کی صورت میں لکھتے اور امام انہیں تحریری صورت میں جواب دیتے تھے ۔

معارف دینی کی وضاحت

شیعہ تعلیمات

آخری آئمہ کے زمانے میں امامت سے مربوط ابہامات اور پیچیدگوں کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری ؑکے اقوال اور خطوط میں اس کے متعلق ارشادات کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی ۔[69] اگر امامت کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور اس کا تسلسل ٹوٹ جائے تو خدا کے امور میں خلل واقع ہو جائے گا ۔[70] زمین پر خدا کی حجت ایسی نعمت ہے جو خدا نے مؤمنوں کو عطا کی ہے اور اس کے ذریعے ان کی ہدایت کرتا ہے ۔[71]

اس زمانے کی ایک اور دینی تعلیم کہ جس کی وجہ سے شیعہ تحت فشار رہے وہ مومنین کو آپس میں صبر کی تلقین انتظار فرج کا پیغام ہے جو امام کے ارشادات میں زیادہ بیان ہوا ہے ۔[72]اسی طرح آپ کی احادیث میں شیعوں کے درمیان باہمی منظم ارتباط اور باہمی بھائی چارے کی فضا کے قیام کے بارے میں بیشتر تاکید ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔[73]

تفسیر قرآن

تفصیلی مضمون: تفسیر امام حسن عسکریؑ

امام حسن عسکری ؑ کے مورد توجہ قرار پانے والی چیزوں میں سے ایک تفسیر قرآن کا عنوان ہے ۔تفسیر قرآن کا ایک مکمل اور تفصیلی متن امام حسن عسکری(تفسیر امام حسن عسکری) سے منسوب ہے کہ جو امامیہ کے قدیمی آثار میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ امام کی طرف اس کتاب کی نسبت درست نہ ہونے کی صورت میں بھی اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تفسیری ابحاث کی نسبت امام حسن عسکریؑ کی شہرت نے اس کتاب کے امام کی طرف منسوب ہونے کے مقدمات فراہم کئے ہیں ۔

کلام اور عقائد

ایسے حالات میں امامیہ کی رہبری اور امامت حضرت امام حسن عسکری ؑ کے ہاتھ آئی جب امامیہ کی صفوں میں بعض ایسی اعتقادی مشکلات موجود تھیں جن میں سے کچھ تو چند دہائیاں پہلے اور کچھ آپ کے زمانے میں پیدا ہوئیں۔ان اعتقادی مسائل میں سے خدا کی جسمیت کی نفی ایک مسئلہ تھا کہ جو کافی سال پہلے پیدا ہوا تھا اور ممتاز ترین اصحاب ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے درمیان اس کی وجہ سے اختلافات پائے جاتے تھے ۔امام حسن عسکری کے زمانے میں اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کی کہ سہل بن زیاد آدمی نے امام کو خط لکھ کر آپ سے راہنمائی حاصل کرنے کی درخواست کی۔

امام نے اسے جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پر اللہ کی ذات کے متعلق بحث کرنے سے پرہیز کرنے کا کہا پھر قرآنی آیات سے اس مسئلہ کی جانب ہوں اشارہ فرمایا کہ قرآن میں اس طرح آیا ہے :

اللہ واحد و یکتا ہے، وہ نہ تو کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ اسکا کوئی نظیر و ہمتا نہیں ہے ۔وہ پیدا کرنے والا ہے پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ جسم اور غیر جسم سے جسے چاہے خلق کرسکتا ہے ۔وہ خود جسم و جسمانیت سے مبرا ہے۔۔۔۔کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے وہ بصیر اور سمیع ہے ۔ [74]

فقہ

علم حدیث میں آپ کو فقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔[75] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان اس لقب سے خصوصی طور پر پہچانے جاتے تھے ۔اسی بنیاد پر فقہ کے بعض ابواب میں آپ سے احادیث منقول ہیں۔ البتہ امامیہ مذہب کی فقہ کا بیشترین حصہ حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ترتیب شدہ ہے اور اس کے بعد فقہ نے اپنے تکمیلی مراحل طے کئے ہیں لہذا امام حسن عسکری کی زیادہ تر احادیث ان فروعی مسائل کے بارے میں ہیں جو اس دور میں نئے پیدا ہوئے تھے یا ان مسائل کے بارے میں ہیں جو انکے زمانے میں چیلنج کے طور پر پیش ہوئے ۔مثال کے طور پر رمضان کے آغاز کا مسئلہ اور خمس کی بحث ۔[76]

حرم

تفصیلی مضمون: حرم عسکریین
امام عسکری کی شہادت کے بعد آپؑ کو اپنے والد گرامی امام علی النقیؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔[77]بعد میں اس جگہ ایک بارگاہ بنی جو حرم عسکریین سے مشہور ہے۔ امامین عسکرینؑ کا حرم دو بار وہابی دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکا ہے۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006ء کو[78]دوسرا حملہ سولہ ماہ بعد یعنی 13 جون 2007ء کو ہوا۔[79] تخریب حرم عسکریین اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 2008ء کو حرم کی تعمیر نو شروع ہوگئی۔[80]اور 2015ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔[81]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں کلینی، کافی، ۱۳۹۱ق، ج۱، ص۵۰۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳
  2. اوپر جائیں ابن طلحہ، مطالب السؤول، نجف، ۱۳۷۱ق، ج۲، ص۷۸؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، نجف، ۱۳۸۳ق، ص۳۶۲؛ البتہ بعض مآخذ میں یہ نام امام علی نقی ؑ کی والدہ کا مذکور ہوا ہے(نوبختی، فرق الشیعہ، ص۹۳) اور بعض نے یہ نام امام زمانہ کی والدہ کا ذکر کیا ہے (ابن ابی الثلج، «تاریخ الائمہ» مجموعہ نفیسہ، قم، ۱۳۹۶ق، ص۲۶)
  3. اوپر جائیں نوبختی، فرق الشیعہ، نجف ۱۳۵۵ق، ص۹۶؛ کہا گیا ہے کہ اس کنیز کا نام عسفان تھا بعد میں امام ہادی نے اس کا نام تبدیل کر کے حدیث رکھا۔
  4. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، بیروت ۱۴۰۹ق، ص۲۵۸
  5. اوپر جائیں حسین بن عبدالوہاب، عیون المعجزات، نجف ۱۳۶۹ق، ص۱۲۳
  6. اوپر جائیں طبسی، حیاه الامام العسکری، ص۳۲۰-۳۲۴
  7. اوپر جائیں مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۱-۳۱۲.
  8. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص۴۲۱۔
  9. اوپر جائیں ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۲، ص۹۴۔
  10. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، ج۳، ص۵۲۶، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۸۔
  11. اوپر جائیں دلائل الإمامہ، طبری،ص:۴۲۴
  12. اوپر جائیں موسوعہ الإمام العسکریؑ، خز علی،ج۱،ص:۳۲
  13. اوپر جائیں موسوعہ الإمام العسکریؑ، خزعلی،ج۱،ص:۳۲
  14. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۵۸، ۲۶۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۱۳
  15. اوپر جائیں ابن حاتم، الدر النظیم، ص۷۳۷
  16. اوپر جائیں رجوع کریں: نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۳۵۵ق، ص۹۵؛ سعد، ص۱۰۱؛ کلینی، کافی، ۱۳۹۱ق، ج۱، ص۵۰۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳
  17. اوپر جائیں ابن رستم طبری، دلائل الامامہ، ۱۴۱۳ق، ص۴۲۳
  18. اوپر جائیں مرجعہ کریں: ابن ابی الثلج، «تاریخ الائمہ» مجموعہ نفیسہ، ۱۳۹۶ق، ص۱۴؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۰۹ق، ص۲۵۸
  19. اوپر جائیں مفید، مسار الشیعہ، ص۵۲؛ ابن طاووس، الاقبال، ج۳، ص۱۴۹؛ طوسی، مصباح المجتهد، ۱۳۳۹ق، ص۷۹۲
  20. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۵۲۳؛ کلینی، ج۱، ص۵۰۳
  21. اوپر جائیں مراجعہ کریں: ابن ابی الثلج، ص۱۴؛ ابن خشاب، ۱۹۹؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۵۸
  22. اوپر جائیں کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۵۰۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۴.
  23. اوپر جائیں مراجعہ کریں: مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان، ۱۳۹۱، ص۵۳۰-۵۳۳
  24. اوپر جائیں طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۳۱.
  25. اوپر جائیں شیخ طوسی، الغیبہ، ۱۳۹۸ق، ص۲۰۸؛ عطاردی، مسند الإمام العسكریؑ، ۱۴۱۳ق، ص۹۲.
  26. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۰۹ق، ص۲۶۸؛ کلینی، کافی، ۱۳۹۱ق، ج۱، ص۳۲۹.
  27. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳.
  28. اوپر جائیں شیخ صدوق؛ کمال الدین، ج۲، ص۴۱۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۵۱، ص۲۸۔
  29. اوپر جائیں مسعودی، إثبات الوصیہ، ص۲۶۶، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۸۔
  30. اوپر جائیں رک: شیخ صدوق، کمال الدین، ص۳۰۷ و۔۔۔؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ص۲۴۸؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، ۲۱۳، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»،ص ۶۱۸۔
  31. اوپر جائیں مثلاً ابن ابی الثلج، مجموعہ نفیسہ، ص۲۶؛ ابن خشاب، تاریخ موالید، ص۲۰۱؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱۳، ص۱۲۱، بہ نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۸۔
  32. اوپر جائیں رک: طریحی، جامع المقال، ص۱۶۰، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۸۔
  33. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب، ج۳، ص۵۲۳؛ ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، ص۱۱۳؛ طبرسی، تاج الموالید، ص۵۹؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۲۷۴؛ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ص۲۷۸؛ شبلنجی، نور الابصار، ص۱۸۳،نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۸۔
  34. اوپر جائیں ابن طلحہ، مطالب السؤول، ج۲، ص۷۸۔
  35. اوپر جائیں رک: طریحی، جامع المقال، ص۱۹۰؛ ابو المعالی، بیان الادیان، ص۷۵، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۸۔
  36. اوپر جائیں زرندی، معارج الوصول الی معرفہ فضل آل الرسول (ص)، ص ۱۷۶، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، صص ۶۱۸۶۱۹۔
  37. اوپر جائیں خصیبی، الہدایہ الکبری، ص۳۲۸۔
  38. اوپر جائیں ابن ابی الثلج، مجموعہ نفیسہ، ص ۲۱-۲۲؛ رک: فخر الدین رازی، الشجرة المبارکہ، ص۷۹، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۹۔
  39. اوپر جائیں مراجعہ کریں: فخرالدین رازی، الشجرة المبارکہ، ص۷۸، پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۹ سے منقول۔
  40. اوپر جائیں مراجعہ کریں: ابن حزم، جمہره انساب العرب، ص۶۱؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱۳، ص۱۲۲، پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۹ سے منقول۔
  41. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۵۹
  42. اوپر جائیں نوبختی، فرق الشیعہ، ص۹۲
  43. اوپر جائیں شيخ صدوق، عيون أخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۳۵؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ ق، ج۳، ص۱۹۸
  44. اوپر جائیں قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۲۵ – ۴۲۶؛ اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۴۲۷ – ۴۲۸؛ ابن حمزه طوسی، الثاقب فی المناقب، ۱۴۱۹ق، ص ۲۱۵
  45. اوپر جائیں طبری، دلائل الامامہ، ج۱، ص۲۲۳۔
  46. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ص۴۹۵۔
  47. اوپر جائیں مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۱۲۔
  48. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۳
  49. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۸
  50. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۹
  51. اوپر جائیں مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۹۴
  52. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل، ج۷، ص۲۳۹-۲۴۰
  53. اوپر جائیں مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸
  54. اوپر جائیں تاریخ طبری، ج۹، ص۴۱۰
  55. اوپر جائیں تفصیل کیلئے دیکھیں : مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸
  56. اوپر جائیں مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸
  57. اوپر جائیں مناقب ابن شہرآشوب، ج۴، ص۴۲۸
  58. اوپر جائیں مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸
  59. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۷۰؛ رجال کشی، ص۵۶۰
  60. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ص۳۸۷۔
  61. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، ج۲، ص ۴۱۳۔
  62. اوپر جائیں راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۳۹۔
  63. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص۴۲۵؛ شیخ طوسی،الغیبہ، ص ۲۱۴۔
  64. اوپر جائیں شیخ طوسی، الغیبہ، ص۲۷۲،بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۲۶۔
  65. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، ص۴۷۵، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۲۶۔
  66. اوپر جائیں پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۲۶۔
  67. اوپر جائیں روضات الجنان، ج۴، ص۲۷۳ و ۲۷۴
  68. اوپر جائیں ابن شہرآشوب، المناقب، ج۴، ص۴۲۵(بیروت)
  69. اوپر جائیں نمونے کے طور پر دیکھیں: مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۷۱
  70. اوپر جائیں ابن بابویہ، کمال الدین، ص۴۳
  71. اوپر جائیں رجال کشی، ص۵۴۱
  72. اوپر جائیں مناقب ابن شہرآشوب، ج۳، ص۵۲۷
  73. اوپر جائیں مثلا مناقب ابن شہرآشوب، ج۳، ص۵۲۶
  74. اوپر جائیں کلینی، کافی، ج۱، ص۱۰۳
  75. اوپر جائیں طریحی، جامع المقال، ص۱۸۵
  76. اوپر جائیں دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، ص۶۳۰
  77. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳.
  78. اوپر جائیں خامه یار، تخریب زیارتگاه‎های اسلامی در کشورهای عربی، ص۲۹ و ۳۰
  79. اوپر جائیں خامه یار، تخریب زیارتگاههای اسلامی در کشورهای عربی، ص۳۰.
  80. اوپر جائیں خبرگزاری ابنا: آخرین وضعیت ساخت ضریح حرمین عسکریینؑ
  81. اوپر جائیں خبرگزاری ایلنا؛ عملیات بازسازی گنبد حرم امامین 

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکریم، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌دار صادر، ۱۳۸۵ق۔ و بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • ابن حزم، جمہرة انساب العرب، بیروت‌:‌ دار الکتب‌ العلمیہ، ۱۴۰۳ق‌۔
  • ابن خلکان، شمس الدین احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، بہ تحقیق احسان عباس، بیروت، دارالثقافہ، [بی تا]۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب، قم، کتاب فروشی مصطفوی و بیروت، دار الاضواء، ۱۴۱۲ق۔
  • ابن طلحہ، محمد، مطالب السؤول، نجف، ۱۳۷۱ق/۱۹۵۱م۔
  • ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، بیروت،‌ دار بیروت للطباعہ و النشر، ۱۳۷۷ق۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، بہ تحقیق سید ہاشم رسولی، تبریز، ۱۳۸۱۔
  • امین، سید محسن، سیره معصومان (ترجمہ اعیان الشیعہ)، مترجم علی حجتی کرمانی، سروش، تہران، ۱۳۷۶ش، چاپ دوم۔
  • پاکتچی، احمد، «حسن عسکریؑ، امام»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۹۱ش۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۹۱ش۔
  • حرانی، ابن شعبہ، تحف العقول عن آل الرسول (ص)، بہ تصحیح و تعلیق علی‌ اکبر غفاری، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش۔
  • حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، نجف، المطبعہ الحیدریہ، ۱۳۶۹ق۔
  • خزعلی، الامام العسکری علیہ السلام، مؤسسہ ولی العصر عجّل الله تعالی فرجہ الشریف، قم، ۱۴۲۶ ق،چاپ اوّل۔
  • خصیبی، حسین، الہدایۃ الکبری، بیروت: ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنان فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، ۱۳۹۰ق۔
  • سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، بہ تحقیق حسین تقی زاده، چ۱، [بی جا]، المجمع العالمی لاہل البیت (علیہم السلام)، ۱۴۲۶ق۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۵۹ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، تہران، مکتبہ نینوی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال، مشہد، دانشگاه مشہد، ۱۳۴۸ش۔
  • شیخ مفید، الارشاد، چ۳، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۹ق۔
  • شیخ مفید، مسار الشیعہ، بہ تحقیق مہدی نجف، چ۱، بیروت،‌دار المفید، ۱۴۱۴ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، بہ تحقیق علی اکبر غفاری، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۳۹۹ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بہ تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، ۱۳۸۷ ق۔ و بیروت، دار سویدان، (بی تا)۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، بعثت، ۱۴۱۳ق۔
  • طبسی، محمد جواد، حیاه الامام العسکریؑ، سوم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
  • طریحی، فخرالدین، جامع المقال فیما یتعلق باحوال الحدیث و الرجال، بہ کوشش محمدکاظم طریحی، تہران، ۱۳۵۵ش۔
  • علامہ مجلسی، بحار الأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطہار، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکنب الاسلامیہ، ۱۳۸۸ق۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، چ۲، قم، دارالہجره، ۱۳۶۳ق۔ و مصر(بی نا)، ۱۳۶۴ق۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیہ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، ۱۴۲۶ق۔
  • نجاشی، ابو العباس، رجال نجاشی، بہ تصحیح آیت الله شبیری زنجانی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۶ق۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، تصحیح سید محمد صادق آل بحر العلوم، نجف، المکتبہ المرتضویہ، ۱۳۵۵ق۔

Related Articles

Back to top button