دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

اہل بیت علیہم السلام نہج البلاغہ کی روشنی میں

(تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی)

کائنات میں اس عصر میں تین ایسی کتابیں ہیں جن کی کوئی مثل نہیں اور جن کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان میں سے اول نمبر پہ قرآن کریم، دوسری نہج البلاغہ اور تیسری صحیفہ سجادیہ ہے، نہج البلاغہ جو مدینۃ العلم کے ان خطبات و مکتوبات اور حکمت کے گوہر پاروں پر مشتمل ہے جسے سید رضی نے فصاحت و بلاغت کے شہ پارے اور صراط مستقیم کے طور پر انتخاب کیا ہے۔ اسی لئے ہر عصر اور ہر دور کے نامور ادیب اور عالم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ یہ مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے کیوں نہ ہو چونکہ یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس نے ببانگ دھل یہ اعلان کر دیا جو پوچھنا ہو پوچھ لو علی ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا تعارف آیت تطہیر اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث میں آیا ہے اور جنہیں ہر قسم کی خطاوٴں اور جملہ گناہوں سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ ہم یہاں حضرت علی علیہ السلام کے فرامین اور افکار سے آشنا ہوتے ہیں جو در علم نبی اور حق و باطل کی شناخت کا معیار ہیں۔

آپؑ اہل بیت علیہم السلام کے مقام و منزلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:{هم عیش العلم و موت الجهل.. …لا یخالفون الحق ولا یختلفون فیه هم دعائم الاسلام و ولائج الاعتصام، بهم عاد الحق فی نصابه و انزح الباطل عن مقامه …….}۱ "یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں۔ یہ اسلام کے ستون اور حفاظت کے مراکز ہیں۔ انہی کے ذریعے حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف سننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اور اس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں” ۔۲۔ ایک اور مقام پر آپ ؑفرماتے ہیں: {فاین یتاه بکم و کیف تعمهون و بینکم عترة نبیکم و هم أزمة الحق و اعلام الدین وألسنة الصدق فانزلوهم باحسن منازل القرآن وردوهم ورود الهیم العطاش}۳۔ "تمہیں بھٹکایا جا رہا ہے اور تم بھٹکے جا رہے ہو۔ دیکھو تمہارے درمیان تمہارے نبی کی عترت موجود ہے۔ یہ سب حق کے زمام دار، دین کے پرچم اور صداقت کے ترجمان ہیں۔ انہیں قرآن کریم کی بہترین منازل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح سے وارد ہو جس طرح سے پیاسے اونٹ چشمے پر وارد ہوتے ہیں”۔۴

ابن ابی الحدید حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، اگر کہا جائے کہ امام کا یہ کلام اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر دلالت کرتا ہے تو آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ اس کے بعد جواب دیتے ہیں کہ ابو محمد بن متوبہ نے الکفایۃ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام معصوم ہیں، اگرچہ ہم امام کی حیثیت سے ان کی عصمت کو واجب نہیں سمجھتے کیونکہ عصمت امامت کی شرائط میں شامل نہیں ہے، جبکہ نصوص آپ ؑ کے معصوم ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلےمیں یہ صفت آپ کی ذاتی خصوصیت شمار ہوتی ہے۔۵۔ اسی طرح ایک اور مقام پر آپؑ ا رشاد فرماتے ہیں:{انْظُرُوا أَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ فَلَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ یُعِیدُوکُمْ فِی رَدًى، فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَاتَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِکُوا.}۔۶۔ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام پر نگاہ مرکوز رکھو اور ان کے راستےکو اختیار کرو۔ ان کے نقش قدم پر چلتے رہو کہ وہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے جائیں گے اور نہ ہلاکت میں پلٹ کر جانے دیں گے۔ وہ ٹھہر جائیں تو ٹھہر جاوٴ اور اٹھ کھڑے ہوں تو کھڑے ہو جاوٴ۔ خبردار ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جاوٴ گے اور ان سےپیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جاوٴ گے۔ امام علی علیہ السلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:{آل النبي عليه الصلاة و السلام هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَأُ أَمْرِهِ وَ عَيْبَةُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُكْمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِينِهِ بِهِمْ أَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهْرِهِ وَ أَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَا یُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ(ص) مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَحَدٌ وَ لَا یُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَیْهِ أَبَدا،ً هُمْ أَسَاسُ الدِّینِ وَ عِمَادُ الْیَقِینِ، إِلَیْهِمْ یَفِی‏ءُ الْغَالِی وَ بِهِمْ یُلْحَقُ التَّالِی وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَایَةِ وَ فِیهِمُ الْوَصِیَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ، الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِهِ وَ نُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِهِ}۷۔ وہ سر خدا کے امین اور اس دین کی پناہ ہیں۔ علم الٰہی کے محزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں، کتب آسمانی کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں، انہی کے ذریعہ اللہ نے اس کی پشت کا خم سیدھا کیا اور اس کے پہلووں سے ضعف کی گھبراہٹ کو دور کی۔۔۔اس امت میں کسی کو آل محمدؐ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہیں وہ ان کے برابرنہیں ہو سکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کیلئے ہیں اور انہیں کے بارےمیں پیغمبرؐکی وصیت اور انہی کے لئے نبی کی وراثت ہے۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: {بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وَ تَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَةَ الْعَلْيَاءِ وَ بِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ} ۸۔ ہماری وجہ سے تم نے گمراہی کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی ،اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کی اندھیاریوں سے صبح (ہدایت )کے اجالوں میں آ گئے۔ وحی الٰہی اس گھرانے میں نازل ہوئی اور انہوں نے دین کی تعلیمات خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کی ہیں۔ اسی لئے اہل بیت علیہم السلام دین کی بنیاد اور علم و حکمت کا دروازہ ہے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{تَاللَّهِ لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّسَالَاتِ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْکلِمَاتِ وَ عِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُکمِ وَ ضِيَاءُ الْأَمْرِ}۹۔ خدا کی قسم مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیت {نبوت} کے پاس علم و معرفت کے دروازے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں۔ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام تمام لغزشوں سے پاک و منزہ اور فتنوں سے دور ہیں۔ اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: {نَحْنُ أَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ وَ لَسْنَا فِیهَا بِدُعَاةٍ.}۱0۔ ہم {اہل بیت رسول} ان فتنہ انگیزیوں کے {گناہ} سے بچے ہوں گے اور انکی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ایک اور مقام پر اہلبیت علیہم السلام کو علم کا معدن اور حکمت کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: {نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ وَ يَنَابِيعُ الْحُكْمِ نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَة}۔ ۱۱۔ ہم نبوت کا شجرہ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن اور حکمت کا سرچشمہ ہیں۔ ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کے لئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر الٰہی کا منتظر رہنا چاہیئے۔

اہل بیت علیہ السلام علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:{۔۔۔۔۔فَإنّهم عيش العلم، و موت الجهل، هم الذين يُخبركم حُكمُهم عن علمهم، وصَمتُهم عن منطقهم، و ظاهرهُم عن باطنهم، لا يخالفون الدين، ولا يختلفون فيه، فهو بينهم شاهدُ صادق، و صامت ناطق}۔۱۲۔ جو ہدایت والے ہیں انہی (اہل بیت علیہ السلام ) سے ہدایت طلب کرو، وہی علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا {دیا ہوا} ہر حکم ان کے علم کا اور ان کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہے وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں، دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ہے اور ایک ایسا بے زبان ہے جو بول رہا ہے۔ اہلبیت علیہم السلام آسمان امامت و ولایت کے درخشان ستارے ہیں جن کی عالمانہ و حکیمانہ رہنمائی اور ہدایت کی وجہ سے ہی انسان دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{أَلَا إِنَّ مَثَلَ آلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله علیه وآله) كَمَثَلِ نُجُومِ السَّمَاءِ، إِذَا خَوَى نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ، فَكَأَنَّكُمْ قَدْ تَكَامَلَتْ مِنَ اللَّهِ فِيكُمُ الصَّنَائِعُ وَ أَرَاكُمْ مَا كُنْتُمْ تَأْمُلُون}۱۳۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آل محمد (ع) آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں جب ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھر آتا ہے۔ گویا تم پر اللہ کی نعمتیں مکمل ہو گئی ہیں اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے وہ اللہ نے تمہیں دکھا دیا ہے۔

اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہی قرآن کی نفیس آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ اس بارے میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:{نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الأصْحَابُ وَ الْخَزَنَهُ وَ الأبوَابُ وَ لا تُؤْتَى الْبُیُوتُ إِلّا مِنْ أَبْوَابهَا فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَیْرِ أَبْوَابهَا سُمِّیَ سَارِقاً فِیهمْ کَرَائِمُ الْقُرْآنِ وَ هُمْ کُنُوزُ الرَّحْمَنِ إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ یُسْبَقُوا}۔ ۱۴۔ ہم قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی اور خزانہ دار اور دروازے ہیں اور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتا ہے۔{آل محمد ع} انہیں کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں۔ اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اور اگرخاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں۔ آئمہ اہلبیت علیہم السلام راسخون فی العلم ہیں۔ ہدایت کی طلب اور گمراہی سے نجات کی خواہش صرف انہیں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ امامت ان کے علاوہ کسی اور کو زیب نہیں دیتی اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اس عظیم منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: {اَیْنَ الَّذِینَ زَعَمُوا اَنَّهُمُ الرّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ دُونَنا کَذِباً وَ بَغْیاً عَلَیْنا، اَنْرَفَعَنَا اللهُ وَ وَضَعَهُمْ وَ اَعْطانا وَ حَرَمَهُمْ وَ اَدْخَلَنا وَ اَخْرَجَهُمْ، بِنا یُسْتَعْطَى الْهُدى وَ یُسْتَجْلَى الْعَمى، اِنَّ الاَئِمَّهَ مِنْ قُرَیْش غُرِسُوا فِی هذَا الْبَطْنِ مِنْ هاشِم، لا تَصْلُحُ عَلى سِواهُمْ وَ لا تَصْلُحُ الْوُلاهُ مِنْ غَیْرِهِمْ}۱۵۔ کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم۔ چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اور انہیں گرایا ہے اور ہمیں منصب امامت دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اور ہمیں {منزل علم میں} داخل کیا ہے اور انہیں دور کر دیا ہے، ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ اس کا اہل ہو سکتا ہے۔

کائنات میں امام کی مثال جسم کے لئے قلب و دل کی مثال جیسی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک فرد قیامت تک اس زمین پر حجت الٰہی ہیں اور زمین ابتدائے خلقت سے قیامت تک کبھی بھی حجت الٰہی سے خالی نہیں ہو گی اور اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی۔ اس بارے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: {اَللّهُمَ بَلي لاتَخْلُو الاَرْضُ مِنْ قائِمٍ لِلّه بِحُجَهٍ ، اِمّا ظاهِراً مَشْهوراً وَ اِمّا خائِفاً مَغْمُوراً ، لِئَلاً تَبْطُلَ حُجَجُ اللّهِ وَ بَيِناتُهُ}۱۶۔ ہاں مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے، چاہے وہ ظاہر، وہ مشہور یا خائف وہ پنہان تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام حقیقت میں قرآن کریم اور سنت نبوی کے ترجمان تھے۔ انہوں نے جوکچھ فرمایا ہے وہ قرآن و سنت کی تفسیر ہے۔ جیساکہ قرآن و سنت کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس کا ذکر قرآن کریم اور سنت نبوی میں موجود نہ ہو۔ قرآن کریم اور سنت نبوی میں موجود علوم اور دینی احکام کو راسخون فی العلم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے وارثوں کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: {ذلک القرآن فاستنطقوه،و لن ینطق و لکن اخبرکم عنه ،الا ان فیه علم ما یاتی والحدیث عن الماضی ودواء دائکم، و نظم ما بینکم}۱۷۔ اور وہ یہی قرآن ہے، اسے بلوا کر دیکھو۔ یہ خود نہیں بولے گا لیکن میں اس کی ترجمانی کروں گا، {یعنی حقائق اور معارف کو بیان کروں گا) یاد رکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اور ماضی کی داستان ہے۔ تمہارے درد کی دوا اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے۔ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: {کتاب الله، فیه نبا ما قبلکم و خبرمابعدکم و فصل ما بینکم و نحن نعلمه}۱۸۔ کتاب خدا میں تم سے پہلے اور جو تم سے بعد کی باتیں مذکور ہیں، اس میں تمہارے باہمی نزاعات کا فیصلہ بھی ہے اور ہم ان سب باتوں کو جانتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر آپ ؑفرماتے ہیں: {نحن راسخون فی العلم و نحن نعلم تاویله}۱۹۔ ہم ہی راسخون فی العلم اور ہم ہی تاویل قرآن کے جاننے والے ہیں۔ نیز آپ ؑفرماتے ہیں: {والله انی لاعلم کتاب الله من اوله الی آخره کانه فی کفی فیه خبر السماء و خبر الارض،و خبر ما کان و خبر ما هو کائن قال الله عزوجل :فیه تبیان کل شی}۲۰۔ میں کتاب خدا کا اول سے آخر تک جاننے والا ہوں۔ گویا وہ میری مٹھی میں ہے۔ اس میں آسمان و زمین کی خبر ہے، جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ اس میں مذکور ہے۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے اس میں ہر شئے کا بیان ہے، اس بارےمیں آئمہ اطہار علیہم السلام سے اور بھی بےشمار احادیث نقل ہوئی ہیں۔
حوالہ جات:
۱۔نہج البلاغۃ،خطبہ 239،ص825۔
۲۔ ترجمہ نہج البلاغۃ ،علامہ ذیشان حیدر جوادی ۔
۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ، 87۔
۴۔ترجمہ نہج البلاغۃ ،علامہ ذیشان حیدر جوادی۔
۵۔شرح نہج البلاغۃ ،ابن ابی الحدید، ج4 ،ص 131۔
۶۔نہج البلاغۃ،97۔
۷۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ، ۲۔
۸۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ، ۴۔
۹۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ ۱۲۰
۱۰۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۹۳۔
۱۱۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۰۸
۱۲۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۴۵۔
۱۳۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۹۸۔
۱۴۔ایضا ً،خطبہ 157۔
۱۵۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۴۲۔
۱۶۔ نہج البلاغۃ ،حکمت،۱۴۷۔
۱۷۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۵۲۔
۱۸۔اصول کافی ،ج1،باب الرد الی الکتاب و السنۃ ،حدیث 9۔
۱۹۔ایضا ً،کتاب الحجۃ ،باب راسخین فی العلم ،حدیث4،ص 178۔
۲۰۔ایضا ً،باب ، انہم علمون الکتاب علم الکتاب کلہ،حدیث4،ص178۔

Related Articles

Back to top button