فلسفۂ محرم الحرام ؛قسط چہارم

(سید شاہد جمال رضوی)
محرم؛مظلوم کی حمایت کا وسیلہ
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشادہے کہ جو شخص امام حسین علیہ السلام پر روئے ، رلائے یا رونے والوں کی صورت بنائے اس پر جنت واجب ہے ۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امام پر گریہ کا واقعی ہدف صرف اور صرف جنت کا حصول ہے اور کچھ نہیں…؟نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ گریہ و زاری کے ذریعہ بنی نوع انسان کو یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ ایک قطرۂ اشک بلکہ رونے والوں جیسی صورت ہی سے جنت کا عظیم اجر اس لئے دیاگیا ہے تاکہ یہ قوم ایک لمحے کے لئے بھی گریہ و زاری سے غافل نہ رہے ۔
اصل میں ” رونا اور گریہ کرنا” مظلوم کربلا کی حمایت میں ایک مہذب آواز احتجاج ہے ، اسلامی سال کا آغاز گریہ و زاری سے ہوتاہے اور اس گریہ و زاری کی صورت میں سال کے آغاز میں لوگوں کو بتایاجاتاہے کہ کربلا کے میدان میں جو عظیم جنگ رونماہوئی اس میں کون ظالم تھا اور کون مظلوم … نیز ظالم کے ظلم کا مقصد کیاتھا اور مظلوم کی مظلومیت کا واقعی ہدف کیاتھا ۔
یوں تو سال بھر مظلوم کی حمایت کا اظہار و اعلان ہوتا ہے اور سال کی چھوٹی بڑی مجلسوں میں واقعہ کربلا پر سرسری نگاہ ڈال کر ظالم و مظلوم کو کائنات کے سامنے پیش کیاجاتاہے تاکہ کربلا کے اصلاحی نقوش اور پیغامات ایک لمحے کے لئے فراموشی کے شکار نہ ہوں اور ظالم سے بیزاری اور مظلوم کی حمایت کا تسلسل برقرار رہے لیکن اس حمایت کا اعلی پیرایۂ اظہار ہلال محرم کے دیدار کے بعد نظر آتاہے ۔ ادھر ہلال محرم نمودار ہوا اور ادھر ہر آنکھ میں آنسوئوں کی نمی دکھائی دینے لگی پھر تو ہر قدم پر ایک عظیم اہتمام نظر آتاہے ، ہر گھر ماتم کدہ بن جاتاہے ، فرش عزا پر مجلسوں ، نوحوں اور ماتم کی صدائوں سے اعلی پیمانہ پر مظلوم کی حمایت ہوتی ہے ، سڑکوں پر جلوس کی کی رونق اس لئے ہوتی ہے تاکہ لوگوں کی آنکھوں میں حق کی تصویر مجسم ہوجائے اور عالمی پیمانے پر مظلوم کی حمایت ہوسکے ۔


