دانشکدہقرآن و سنتمقالات

قرآن ؛ نہج البلاغہ کے آئینہ میں

(آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی)

الف) قرآن کریم کی اہمیت وموقعیت

1۔ اس وقت فقط قرآن کریم ہی ایک آسمانی کتاب ہے جوانسان کی دسترس میں ہے۔
نہج البلاغہ میں بیس سے زیادہ خطبات ہیں جن میں قرآن مجیدکاتعارف اور اس کی اہمیت وموقعیت بیان ہوئی ہے بعض اوقات آدھے سے زیادہ خطبے میں قرآن کریم کی اہمیت، مسلمانوں کی زندگی میں اس کی موقعیت اوراس کے مقابل مسلمانوں کے فرائض بیان ہوئے ہیں۔ یہاں ہم صرف بعض جملوں کوتوضیح وتشریح پہ اکتفا کریں گے۔
امیرالمومنین(علیہ السلام) خطبہ ۱۳۳میں ارشادفرماتے ہیں ”وکتاب اللہ بین اظہرکم ناطق لایعیی لسانہ“۔
ترجمہ: اوراللہ کی کتاب تمہاری دسترس میں ہے جوقوت گویائی رکھتی ہے اور اس کی زبان گنگ نہیں ۔
قرآن آسمانی کتابوں تورات وانجیل ووزبورکے برخلاف تمہاری دسترس میں ہے۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ تورات گذشتہ امتوں امتوں خصوصا یہوداوربنی اسرائیل کے عوام کے پاس نہ تھی بلکہ اس کے کچھ نسخے علمائے یہودکے پاس تھے یعنی عامة الناس کے لئے تورات کی طرف رجوع کرنے کاامکان نہ تھا۔انجیل کے بارے میں تووضیعت اس سے زیادہ پریشان کنندہ ہے کیونکہ وہ انجیل جوآج عیسائیوں کے پاس ہے یہ وہ انجیل نہیں جوحضرت عیسی علیہ السلام پرنازل ہوئی تھی بلکہ مختلف افرادکے جمع شدہ مطالب ہیں اور چار اناجیل کے طور پرمعروف ہیں۔ پس گذشتہ امتیں آسمانی کتابوں تک دسترسی نہ رکھتی تھیں۔
لیکن قرآن کریم کو خداوند متعال نے ایسے نازل فرمایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے انسانوں تک ایسے پہنچایاکہ آج لوگ بڑی آسانی سے اسے سیکھ اورحفظ کرسکتے ہیں۔
اس آسمانی کتاب کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ خداوندمتعال نے امت مسلمہ پریہ احسان فرمایاہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خوداپنے ذمہ لی ہے کہ یہ کتاب ہرطرح کے انحراف یامقابلہ آرائی سے محفوظ رہے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سیکھنے اور اس کی آیات کے حفظ کرنے کی مسلمانوں کواس قدرتاکیدفرمائی کہ بہت سارے مسلمان آپ کے زمانے میں ہی حافظ قرآن تھے جوآیات تدریجانازل ہوتی تھیں توحضرت(ص) مسلمانوں کے لئے بیان فرماتے تھے اس طرح مسلمان ان کوحفظ کرتے، لکھتے، اوران کوآگے بیان کرتے۔ اس طریقے سے قرآن پوری دنیامیں پھیلتاگیا۔ مولائے کائنات فرماتے ہیں: اللہ کی کتاب تمہارے درمیان اورتمہارے اختیارمیں ہے۔ ضرورت ہے کہ اس جملے میں ہم زیادہ غورکریں ”ناطق لایعیی لسانہ“ یہ کتاب بولنے والی ہے اوراس کی زبان کبھی گنگ یاکندنہیں ہوئی۔ یہ بولنے سے خستگی کااحساس نہیں کرتی اورنہ کبھی اس میں لکنت پیداہوئی ہے اس کے بعدآپ ارشادفرماتے ہیں ”وبیت لاتھدم ارکانہ وعزلا تھزم اعوانہ“ یہ ایساگھرہے جس کے ستون کبھی منہدم ہونے والے نہیں ہیں اورایسی عزت وسربلندی ہے جس کے یار و انصار کبھی شکست نہیں کھاتے۔

2۔ یہ کتاب ناطق بھی ہے اورصامت بھی ۔
حضرت (ع) ایک طرف توفرماتے ہیں کہ یہ کتاب ناطق ہے جب کہ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں یہ کتاب صامت ہے ناطق نہیں اس کوبولنے پہ آمادہ کرناچاہئے اوریہ میں ہوں جو قرآن کوتمہارے لئے بیان کرتاہوں۔ خطبہ ۱۴۷میں یہ تعبیر استعمال ہوئی ہے ”صامت ناطق“ یعنی قرآن ساکت وخاموش ہے درآن حالیکہ ناطق وگفتگوکرنے والاہے پس اس کا کیا معنی ہوا؟
غالبا قرآن حکیم کے بارے میں یہ دونکتہ نظرہیں۔ ایک یہ کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے لیکن خاموش، گوشہ نشین، جس کاکسی سے کوئی رابطہ نہیں اورنہ ہی یہ کتاب کسی سے ہم کلام ہوتی ہے۔ اس کے مقابل دوسرازاویہ نگاہ ہے جس کے مطابق یہ کتاب ناطق وگویاہے جوسب انسانوں سے مخاطب ہے اوراپنی پیروی واتباع کاحکم دیتی ہے اپنے ماننے والوں کوخوشبختی اورسعادت کاپیغام دیتی ہے۔
پس اگراس کتاب کوہم فقط مقدس تصورکریں تواس کامطلب یہ ہے کہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے کلمات، جملے اورآیات صفحہ قرطاس پرنقش باندھے ہوئے ہیں جن کا مسلمان بہت احترام کرتے ہیں۔ اسکوبوسے دیتے ہیں اورگھرمیں انتہائی بہترین جگہ پر اس کورکھتے ہیں۔ بعض اوقات اپنی مجالس ومحافل میں اس کی حقیقت ومعانی پر غور و فکرتامل کئے بغیر تلاوت کرتے ہیں ایک ایسی خاموش کتاب ہے جوکسی محسوس و ملموس آوازسے گفتگو نہیں کرتی جواس نظرئیے کاقائل ہے وہ ہرگزقرآن کریم سے ہم کلام نہیں ہوسکتا، قرآن کی آواز کونہیں سن سکتااورقرآن مجیدبھی اس کی کسی مشکل کوحل نہیں فرماتا۔
بنابر این ہمارافریضہ ہے کہ ہم قرآن کوکی کتاب سمجھیں اور خداوند عالم کے حضور انتہائی خشوع وخضوع اور جذبہ تسلیم ورضاکے ساتھ اس کتاب سے کلام سننے کے لئے اپنے آپ کوآمادہ کریں۔ یہ کتاب سراسرآئین زندگی ہے۔ اس صورت میں یہ کتاب ناطق بھی ہے قوت گویائی بھی رکھتی ہے انسانوں سے ہم کلام بھی ہوتی ہے اورزندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی بھی کرتی ہے۔
ان دونکتہ ہائے نظرکے علاوہ قرآن کے صامت وناطق ہونے کاایک تیسرامعنی بھی ہے جواس سے زیادہ گہرااورعمیق ہے اورحضرت کامنظور نظربھی یہی معنی ہے وہ معنی یہ ہے کہ قرآن ساکت وصامت ہے اس کوگفتگوپہ آمادہ کرناچاہئے اوریہ میں ہوں جو قرآن کوتمہارے لئے بیان کرتاہوں گویااکرچہ قرآن کریم خداوندمتعال کاکلام ہے اوراس کلام الہٰی کے صدورنزول کی حقیقت اس طرح ہے کہ ہم انسانوں کے لئے قابل شناخت نہیں جبکہ دوسری طرف نزول قرآن کاہدف انسانوں کی ہدایت ہے تویہ کلام کلمات، جملوں اورآیات کی صورت میں اس طرح سے نازل ہواکہ بشرکے لئے پڑھنے اورسننے کے قابل ہوجائے اس کے با وجود ایسانہیں ہے کہ تمام ترآیات کے مضامین ومفاہیم عام انسانوں کے لئے قابل فہم ہوں۔ پس لوگ بھی پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، آئمہ ہدی، (علیہم السلام) اورراسخون فی العلم کی تفسیروتشریح کے بغیرآیات کے مقاصدکونہیں پاسکتے۔

3۔ مفسرین وحی الہی کی ضرورت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک ذمہ داری امت مسلمہ کے لئے آیات الہی کی تفسیر و تشریح ہے جیساکہ ارشادہوتاہے :
”وانزلناالیک الذکرلتبین للناس مانزل الیہم“ نحل۴۴۔
ترجمہ: ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیاتاکہ آپ لوگوں کے لئے جوکچھ نازل ہواہے بیان کریں۔ پس قرآن کریم کے عظیم معارف کے بیان کی ذمہ داری پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرہے کیونکہ اس کے معارف ا س قدرعمیق اورگہرے ہیں کہ تمام لوگ اس کاادارک نہیں کرسکتے۔
حضرت خطبہ ۱۵۸میں ارشادفرماتے ہیں :
”ذلک القرآن فاستنطقوہ ولن ینطق ولکن اخبرکم عنہ الاان فیہ علم مایاتی والحدیث عن الماضی ودواء دائکم ونظم مابینکم“۔
ترجمہ: اس قرآن سے چاہوکہ تم سے کلام کرے اوریہ ہرگزتم سے ہم کلام نہیں ہوگا لیکن میں تمہیں اس سے آگاہ کروں گایادرکھویقینااس میں مستقبل کے علوم اور ماضی کے حالات ہیں اورتمہاری امراض کی دواہے اورجوکچھ تمہارے مابین ہے اس کے بارے میں نظم وضبط کی راہنمائی پائی جاتی ہے۔
پس معصومین (علیہم السلام) کی زبان مبارک سے اس کے بارے میں آشنائی حاصل کرنی چاہئے۔ علوم قرآن کوان سے حاصل کرناچاہئے۔ قرآن کریم الہی معارف کاسمندرہے اس بحربیکراں میں غوطہ زنی اورانسان سازی کے نایاب گوہروں کی تلاش کرناان ہستیوں کے بس کی بات ہے جوعالم غیب سے دائمی طورپرپرارتباط میں ہیں۔ خداوند قدوس نے بھی یہی چاہاہے کہ ان ہستیوں سے رابطہ اورتوسل کے ذریعہ اوران کی راہنمائی کے توسط سے قرآنی علوم ومعارف سے راہنمائی حاصل کرو۔

ب) قرآن کریم کامعاشرتی زندگی میں اہم کردار

1۔ قرآن کریم ہر درد کی دواہے
حضرت تمام مشکلات کے حل کے لئے قرآن کریم کاتعارف فرماتے ہیں۔ قرآن ہی وہ شفابخش دواہے جوتمام دردوں کادرمان اورپریشانیوں کے لئے مرحم ہے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ دردکی شناخت اوراحساس کے بغیرعلاج یادرمان کی بات کرنابے فائدہ ہے ۔ پس ابتدائی طورپرضروری ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں گہرے غوروفکرکے ساتھ انفرادی اورمعاشرتی دردوں کی شناخت اور مطالعہ کیاجائے اسکے بعد اس شفابخش نسخہ کیمیاپہ عمل کیاجائے۔
خطبہ ۱۹۸۔ میں فرماتے ہیں: ”ودواء لیس بعدہ داء“ یعنی قرآن مجیدایسی دواہے کہ جس کے بعدکوئی درد، رہ نہیں جاتایہ دوابھی یقینااس وقت اپنااثر دکھائے گی جب حضرت (ع) کے اس فرمان اورقرآن حکیم کے شفابخش ہونے پرایمان ہوباالفاظ دیگرہمیں اپنے پورے وجودکے ساتھ باورکرناچاہئے کہ ہماراتمام تر انفرادی واجتماعی دردوں اورمشکلات کاحقیقی علاج قرآن حکیم میں ہے۔ شایدہمارے معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یہی ایمان کی کمزوری ہے کہ ابھی تک بہت ساری مشکلات باقی ہیں۔

2۔ معاشرتی مشکلات کابہترین حل
اس سلسلے میں حضرت(ع) پیغمبر گرامی اسلام کاقول نقل فرماتے ہیں کہ آ پ نے فرمایا:
”اذا التبست علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن“ (بحارالانوار ج۹۲ص۱۷)۔
ترجمہ: جب کبھی سیاہ رات کی مانندتمہیں فتنے گھیرلیں توقرآن کادامن تھامنا۔
پس اضطراب، پریشان، مشکلات، ناہم آہنگیاں اوربے سروسامانیاں تمہارے معاشرے پرجب سیاہ رات کی مانندسایہ افگن ہوں توان کے حل کے لئے کہیں اور نہ جانابلکہ قرآن سے رجوع کرنااس کی نجات بخش راہنمائی کومعیار وکسوٹی قراردینا۔ قرآن کے امید بخش فرامین مشکلات پرقابوپاتے اوردلوں میں خوشبختی وسعادت کی امید کوزندہ کرتے ہیں۔ البتہ یہ واضح ہے کہ ہرکامیابی کے پیچھے انسانی کوشش اور جدوجہدکابنیادی کردارہے۔ پس اگرہم چاہتے ہیں کہ اپنی آزادی اوراستقلال کی حفاظت کریں اورخدائے ذوالجلال کے سایہ رحمت وپناہ میں ہرسازش سے محفوظ رہیں توچارہ ہی نہیں کہ اپنے خالق اورقرآن کریم کے نجات بخش احکام کی طرف لوٹ جائیں اس سلسلے میں آج تک جس ناشکری اوربی احترامی کے مرتکب ہوئے ہیں اس پہ توبہ وندامت کی راہ لیں۔

3۔ معاشرتی امورمیں نظم وضبط
حضرت فرماتے ہیں: نظم مابینکم“ یعنی مسلمانوں کے مابین روابط اورنظم و ضبط کو سر و سامانی بخشنے والا قرآن حکیم ہے ہرسیاسی نظم وضبط میں بڑاہدف معاشرتی نظم وضبط اور امن وامان کاقائم کرناہوتاہے اوریہ بات قطعا قابل انکارنہیں ہے۔ البتہ سماجی ومعاشرتی زندگی میں ہدف کی اہمیت بھی اساسی ہے کیونکہ یہی ہدف ہے جوخاص طرح کے اعمال وکردار کاتقاضاکرتاہے۔ ہرمعاشرے کے افراداپنے اعمال وکردارسے اسی ہدف کوپاناچاہتے ہیں۔یہ امربھی نہایت روشن ہے کہ ہدف کاسرچشمہ اس معاشرے کے تمدن، ثقافت، تاریخ اور لوگوں کے عقائدہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ استعماری قوتیں ملتوں کے اصلی اور حقیقی ثقافت وتمدن کوچھین کر یا کھوکھلا کرکے ان کواپنے اہداف واغراض اورمفادات کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔
دینی ثقافت یاتمدن کاسرچشمہ قرآن حکیم اور توحیدی نظریہ کائنات ہے یہ تمدن ایک ایسے نظم اور سیاست کا تقاضا کرتاہے جس میں خلقت کے ہدف کاحصول اورانسان کی دنیا وآخرت میں سعادت وخوشبختی کارفرماہو۔
باعث افسوس ہے کہ بعض مغرب زدہ روشن فکر مسلمان معاشرتی نظم کوفقط مغربی جمہوریت میں دیکھتے ہیں جب کہ اس کی بنیاد لا دینیت کاعقیدہ ہے۔ پس دینی اور قرآنی تمدن میں انسان کی نہ فقط مادی رفاہ اورفلاح شامل بلکہ اخروی سعادت و تکامل بھی مورد توجہ واہمیت ہے اس امرکی طرف توجہ بہت ضروری ہے کہ قرآن کریم اس صورت میں شفابخش ہے جب اس کی ہدایت اور فرامین کومحض اخلاقی نصیحتیں تصور نہ کیاجائے بلکہ تمام تر معاشرے اور حکومت کی کلی سیاست، عمل اورپروگراموں میں قرآن کریم کی ہدایات کو نافذ العمل کیاجائے۔

۴۔ قرآن کریم سے وابستگی بے نیازی کاباعث ہے۔
اسی خطبے میں حضرت(ع) ارشاد فرماتے ہیں: ”یقین کروقرآن ایسانصیحت کرنے والا اور موعظہ کرنے والاہے جواپنے پیروکاروں سے خیانت نہیں کرتا ایساہادی ہے جوگمراہ نہیں کرتاایساکلام کرنے والاہے جوجھوٹ نہیں بولتا اور جوکوئی بھی قرآن کاہم نشین ہو اور اس میں تدبروتفکرکرے توجب اٹھے گاتواس کی ہدایت وسعادت میں اضافہ ہوجب کہ کہ اسکی گمراہی میں کمی واقع ہوگی“۔
اس کے بعدارشادفرماتے ہیں :
”واعملواانہ لیس علی احدبعدالقرآن من فاقة ولالاحدقبل القرآن من غنی فاستشفوہ من ادوائکم واستعینوابہ علی لاوائکم فان فیہ شفاء من اکبرالداء وہوالکفروالنفاق والغی والضلال“۔
ترجمہ: یقین کے ساتھ جان لوکہ کوئی بھی قرآن کے بعد فاقہ کشی نہیں اور اس سے قبل کوئی بھی غنی نہیں پس اپنے امراض کی شفااس سے طلب کرو اور اپنے ٹھکانوں اورپناہ گاہوں کے لئے اس سے مددطلب کروپس یقیناًاس میں سب سے بڑے امراض کی شفاہے اور وہ کفر، نفاق، جہالت، اورضلالت وگمراہی ہے۔ معاشرے میں قرآن کی حاکمیت کے ہوتے ہوئے انسان کی کوئی ایسی ضرورت نہیں جوپوری نہ ہو کیونکہ خداوندمتعال نے توحیدپرستوں کی دنیاوآخرت میں سعادت کی ضمانت دی ہے۔ پس قرآن کونمونہ عمل قراردینے سے اسلامی معاشرہ ہرچیزاورہرکس وناکس سے بے نیازہوجائے گا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ حضرت(ع) ایک سنجیدہ مطلب کی طرف اشارہ فرماتے ہیں: ”ولا لاحد قبل القران من غنی“ یعنی کوئی بھی قرآن کے بغیربے نیازنہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ اگرانسان کے علوم وتجربے میں جتنابھی اضافہ ہوجائے معاشرتی مشکلات اورکمیاں دورکرنے کے جتنے بھی فارمولے تیارکرلے، عدل وانصاف کے تقاضوں کوجتنابھی پوراکرلے اور اخلاقی وانسانی اقدارکورائج کرے لیکن قرآن کے بغیران امورسے عہدہ برآنہیں ہوسکتا یعنی یہ کہ انسان قرآن سے بے نیازنہیں ہوسکتاہرعاقل اس کااقرارکرتاہے کہ انسان کی تمام ترعلمی ترقی اس کے مجہولات کے سمندرکے مقابلے میں قطرے سے زیادہ نہیں۔

۵۔ قرآن کریم آفتاب کی طرح عالمتاب ہے
خطبہ ۱۹۸میں اسلام اور پیغمبر اسلام(ص) کے اوصاف بیان فرمانے کے بعدفرماتے ہیں :
”ثم انزل علیہ الکتاب نورا لا تطفاء مصابیحہ وسراجا لا یخبو توقدہ وبحرا لایدرک قعرہ“
ترجمہ: پروردگارنے قرآن کواس صورت میں اپنے حبیب پرنازل فرمایاکہ یہ ایک نورہے جس کے چراغ ہرگزبجھنے والے نہیں، ایساآفتاب ہے جس کی روشنی کبھی ختم ہونے والی نہیں اور ایک ایساگہراسمندرجس کی گہرائی کوکوئی پانہیں سکتا۔
اس خطبے میں قرآن کریم کے لئے آپ نے تین تشبیہات استعمال فرمائی ہیں سب سے پہلے توقرآن کی عظمت سے مسلمانوں کے قلوب کوآشنافرماتے ہیں پھراس عظیم سرمایہ الہی کی طرف متوجہ فرماتے ہیں جومسلمانوں کے پاس ہے فرماتے ہیں درحالیکہ قرآن نورہے اللہ تعالی نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرنازل فرمایالیکن یہ نور باقی انوارسے مختلف ہے اس خصوصیت کے ساتھ کہ اس کے نورپھیلانے والے چراغ ہرگزنہ بجھیں گے۔ اس کی تابش کبھی ختم نہ ہوگی جوانسانوں کو، انسانی سماج، سعادت کے متلاشیوں کوخوشبختی کے راہیوں کومنحرف راستوں، سقوط ہولناک دروں سے نجات دلائے گی۔ پس راہ حق ہمیشہ کے لئے مستقیم اورروشن ہے ۔ ایک اورمقام پر حضرت ارشادفرماتے ہیں کہ تاریکی اس کے مقابلے میں ٹہرنہیں سکتی کیونکہ اس کے چراغ ہمیشہ راہ سعادت وہدایت کوروشن رکھتے ہیں یہ چراغ اورمفسران وحی الہی آئمہ اطہار(علیہم السلام) ہیں۔

۶۔ قرآنی آئینے اور چراغ
حدیث ثقلین کی روشنی میں ”قرآن اورعترت“ ایسے دوالہی عطیے ہیں جوایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔
حکمت وروش الہی اس طرح قرارپائی ہے کہ لوگ اہل بیت(علیہم السلام) کے ذریعہ سے معارف قرآن سے آشناہوں۔ بنابراین اللہ تعالی نے طالبان سعادت کے لئے امامت کاایک دائمی راستہ مقررفرمایا۔ قرآنی معارف اس قدرگہرے وسیع وعمیق ہیں انسان جس قدراہل بیت(ع) کے علوم میں تفکروتدبر کرے اتناہی قرآن کی عظمت اورمعرفت وعرفان کے چشمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہیں۔
توحید کے اس بحرزخارسے جتناپیتے جائیں توسیراب ہونے کی بجائے انسان تشنہ ترہوتاجاتاہے۔

۷۔ قرآن کریم کے پیروکارکے لئے اصلاح وسعادت
یہ زندگی چونکہ آخرت کی کھیتی ہے۔ لہذاانسان کاتمام ہم وغم آخرت کی سعادت ہوناچاہئے۔ بس اگرانسان اپنے اعمال وکردارکوقرآن کریم اوراہل بیت علیہم السلام کے معارف وعلوم کے مطابق بنائے تودنیاوآخرت کی عزت سربلندی حاصل کر سکتاہے۔
امام علیہ السلام خطبہ ۱۷۶میں ارشادفرماتے ہیں :
”فاسالوا اللہ بہ وتوجھوا الیہ بحبہ ولاتسالوا بہ خلقہ انہ ماتوجہ العبادالی اللہ بمثلہ واعلموا انہ شافع مشفع وقائل مصدق وانہ من شفع لہ القرآن یوم القیامةشفع فیہ ومن محل بہ القرآن یوم القیامة صدق علیہ“۔
ترجمہ: اللہ تعالی سے قرآن کے ذریعے سوال کرواورپروردگارکی طرف اس کی محبت کے ذریعے سے متوجہ ہوجاؤاورمخلوق خداسے مانگنے کے لئے قرآن کوذریعہ قرار نہ دوکیونکہ انسان بھی اپنے اورخداکے مابین قرآن جیساواسطہ نہیں رکھتے۔یقین کے ساتھ جان لوکہ قرآن ایساشفاعت کرنے والاہے جس کی شفاعت قبول شدہ ہے یہ ایسابولنے والاہے جس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ قیامت کے دن جس کی شفاعت قرآن نے کی تویہ شفاعت اس کے حق میں قبول کی جائے گی اورقیامت کے دن جس کی مذمت قرآن نے کی تومعاملہ اس کے نقصان میں ہوگا۔

۸۔ قرآن خیرخواہ اور نصیحت کرنے والاہے
امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
”فکونوا من حرثتہ واتباعہ واستدلوہ علی ربکم“۔
لوگو! قرآن کے جمع کرنے والوں اورپیروکاروں میں سے ہوجاؤاوراس کواپنے پروردگارکے لئے دلیل قراردو۔
اللہ کواس کے کلام سے پہچانو۔ پروردگارکے اوصاف کوقرآن کے ذریعے پہچانوقرآن ایسا راہنما ہے جوتمہیں اللہ کی طرف راہنمائی کرتاہے۔
اس راہنمائی کے ذریعے اس کے بھیجنے ہوئے رسول کی معرفت حاصل کرواوراس اللہ پرایمان لے آؤجس کاتعارف قرآن کرتاہے۔
”واستنصحوا علی انفسکم“
قرآن کواپناناصح قراردواوراس کی خیرخواہانہ نصیحتوں پرعمل کروکیونکہ تم انسان ایک دل سوز، خیرخواہ کے محتاج ہوجوتمہیں ضروری مقامات پرنصیحت کرے۔ پس قرآن وہ پرسوزدل سوزناصح ہے جوتم سے کبھی خیانت نہیں کرتااورتمہیں انتہائی بہترین انداز سے صراط مستقیم کی ہدایت کرتاہے۔
”ان ھذا القرآن یھدللتی ہی اقوم ویبشر المومنین الذین یعملون الصالحات ان لھم اجرا کبیرا“۔
ترجمہ: بے شک یہ قرآن تمہیں انتہائی مستحکم وپائیدارراستے کی طرف راہنمائی کرتاہے اور جومومنین اعمال صالح بجالاتے ہیں ان کوبشارت دیدوکہ ان کے لئے یقینا بہت بڑا اجرہے۔
یہاں سب سے اہم نکتہ اس آیة مبارکہ کے مضمون پرقلبی اعتقادہے کیونکہ جب تک انسان یہ عقیدہ نہ رکھتاہو، اپنے آپ کومکمل طورپرخداکے حوالے نہ کردے اور خود کو خواہشات نفسانی سے پاک نہ کرے توہروقت یہ خطرہ موجودہے کہ شیطانی وسوسوں کا شکارہوجائے۔ قرآن کریم کاکوئی بھی حکم انسانی حیوانی ونفسانی خواہشات سے سازگار نہیں ہے جوشخص اپنی ہی خواہشات کومدنظررکھتاہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ قرآن بھی اس کے رجحانات، خواہشات کے مطابق کلام کرے اورجیسے ہی کوئی آیت اس کی خواہشات وترغیبات کے مطابق نظرآئے تواس کابھرپوراستقبال کرتاہے پس عقل کاتقاضاہے کہ انسان خالی الذہن اورخالی دامن ہوکرفقط عشق الہی کاجذبہ لے کرقرآن کی بارگاہ میں حاضری دے۔

ج) قرآن کریم کی شناخت اس کے مخالفین کی شناخت میں مضمرہے
گذشتہ گفتگوکی روشنی میں یہ سوال اٹھتاہے کہ کیاقرآن کریم سے استفادہ کاطریقہ کاریہی ہے کہ ہم فقط مذکورہ بالافرامین برعمل کریں؟
اس سوال کے جواب میں اگرہم قرآن مجیدکووسیع نظرسے دیکھیں تواس کے مقابلے میں منحرف افکارنظرآئیں گے۔ ان منحرف افکارنے ہمیشہ سے انسان کوگمراہی اورباطل کی طرف دھکیلاہے۔ پس قرآنی تمدن کونافذکرنے اورمعاشرے میں دینی عقائد و اقدار کو رائج کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مخالفین قرآن کے افکاراوران کی سازشوں سے معرفت حاصل کی جائے جب کہ یہ نکتہ غالباغفلت کاباعث ہوجاتاہے حق وباطل چونکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے بالمقابل رہے ہیں لہذاہمیں حق کی شناخت ومعرفت کے ساتھ ساتھ باطل کی بھی پہچان کرنی چاہئے اس چیزکے پیش نظرامام (ع)فرماتے ہیں:
”واعلموا انکم لن تعرفوا الرشد حتی تعرفوا الذی ترکہ ولن تاخذوا میثاق الکتاب حتی تعرفوا الذی نقضہ“۔
ترجمہ: یقین کے ساتھ جان لوکہ تم راہ ہدایت کو ہرگز نہیں پہچان سکتے جب تک تم اس کونہ پہچانوجس نے ہدایت کوترک کردیاہے اورتم ہرگز پیمان الہی (قرآن) پہ عمل پیرانہیں ہوسکتے جب تک تم پیمان شکن عہدشکن کونہ پہچان لو ۔
یعنی یہ کہ تم قرآن کے حقیقی پیروکاراس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک تم قرآن کی طرف پشت کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو۔ حضرت(ع) کے اس فرمان میں بڑے واضح طور پردشمن شناسی پرزوردیاگیاہے۔ اس سے علمائے علم دین کافریضہ بہت زیادہ سنجیدہ ہوجاتاہے بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ انحرافی افکار اور ملحدین کے شبہات اعوام خصوصا نوجوانوں کوانحرافات کاشکار کررہے۔

حضرت امام علی کی پیشین گوئی اور تنبیہ
اگرچہ حضرت کاموردخطاب عامة الناس ہیں لیکن بہت سارے موارد میں معاشرے کے خاص افراد یاخاص گرہوں کوموردخطاب قراردیتے ہیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جومعاشرے کی تہذیب وثقافت پر اثر اندازہوتے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جواپنے دنیاوی اہداف واغراض کی خاطرخدا اوراس کے رسول کی طرف جھوٹ اوردروغ گوئی کی نسبت دیتے ہیں۔ قرآن اوردین کی تفسیر بالرائے کرتے ہیں اور لوگوں کوگمراہی کی طرف کھینچتے ہیں۔
عوام کے بارے فرماتے ہیں: اس زمانے کے لوگ بھی ایسے ہی ہیں اگر قرآن کریم کی صحیح وحقیقی تفسیر و تشریح ہوتوان کے نزدیک سب سے زیادہ بے قیمت چیزہے لیکن اگران کی نفسانی خواہشات کے مطابق ہوتوایسی تفسیرکے دلدادہ ہیں۔ ایسے زمانے میں شہروں میں دینی والہی اور غیر دینی اقداران کے لئے محبوب ہوں گی اس خطبے کے آخر میں ارشاد فرماتے ہیں:
”فاجتمع القوم علی الفرقة وافترقواعن الجماعة کانہم آئمة الکتاب ولیس الکتاب امامہم“۔
ترجمہ:اس زمانے کے لوگوں نے افتراق واختلاف پراجتماع کرلیاہے انہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیارکرلی ہے یہ لوگ ایسے ہیں جیسے قرآن کے امام ورہبریہ ہوں جب کہ قرآن ان کاامام نہں ہے۔
گویا امام(علیہ السلام) کی مرادیہ ہے کہ انہوں نے اجتماع کرلیاہے کہ قرآن کریم کہ حقیقی مفسرپیداہی نہ ہوں یہ لوگ عالم نماجاہلوں کی پیروی کرتے ہیں جو خود کو قرآن کارہبرجانتے ہیں اورقرآن کی اپنی خواہشات نفسانی کے مطابق تفسیرکرتے ہیں انہوں نے حقیقی مسلمانوں، علماء اورمفسرین سے جدائی اختیارکرلی ہے۔ یہ لوگ عملا قرآن کو اپنارہبر نہیں مانتے بلکہ خودا سکے رہبرہیں۔

Related Articles

Back to top button