دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

زینب بنت علی سلام اللہ علیہا

(تحریر:محمدلطیف مطہری کچوروی)

کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لیا اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے:

میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری

میرا ہونا غلام حضرت شبیر ہونا ہے

کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام ،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیھا السلام ، ام کلثوم علیھا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔یہ وہ کردار کے نمونے ہیں جنھوں نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو اس عظیم درسگاہ سے فیضیاب کرایا ۔لیکن کربلا کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنےوظیفے پر عمل کیا تو وہاں آخری باری علی علیہ السلام کی شیر دل بیٹی کی آئی اس لئے واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم علیہما السلام کی ذمہ داری تھی علی علیہ السلام کی شیردل بیٹی نے اپنے آنکھوں سےبھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفے میں کوتاہی نہیں کی ،اسی لئے کربلا ، کربلا کےمیدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری علیھا السلام نے ظالم کوشکست دی اور لوگوں تک اپنے خطبوں کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا قیامت تک سرخرو ہو گئے شاعرکہتا ہے:

حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق

یکے حسین رقم کرد و دیگرے زینب

عشق حقیقی کے یہ کردار دوافراد نے انجام دیے ایک حسین ابن علی علیہ السلام نے دوسرا علی علیہ السلام کی بہادور بیٹی زینب کبری علیہا السلام نے اگر کربلا میں حضرت زینب علیہا السلام کا کردار نہیں ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔

اس مختصر مقالہ میں ہم حضرت زینب کبری علیہا السلام کو بعنوان پیامبر کربلا معرفی کرنے کی کوشش کرینگے لیکن حقیقت ہے کہ سینکڑوں سال ہزاروں محقیقین اور علماء حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے بارے میں کتابیں لکھتے آرہے ہیں لیکن یہ ایک بیکران سمندر ہے جس میں جتنا بھی غوطہ ور ہاتھ پائوں چلائیں انتہا کو پہنچنا ناممکن ہے۔

ہم اس مقالے میں مختصرا چندپہلوؤں پر بحث کریں گے۔

۱۔ولادت باسعادت:

امام علی علیہ السلام اور حضرت زہرا ء سلام اللہ علیہا کی پانچ اولادیں تھیں امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ السلام حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا و حضرت محسن علیہ السلام ۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۵ جمادی اول ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال یا شعبان کے مہینے میں ہجرت کے چھ سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور ۱۵ رجب ۶۲ ہجری میں ۵۶ یا ۵۷ سال کی عمر میں رحلت کر گئیں۔

بعض لوگ ان کی سال وفات کو ۶۵ ہجری بتاتے ہیں اس اعتبار سےآپ۶۰ سال کی عمر میں وفات پا گئیں ۔آپکی آرمگاہ کے بارے میں محقیقین کے درمیان اختلافات ہیں لیکن معروف ترین قول دمشق ہے ،جہاں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف جگہوں سے حاضر ہوتے ہیں اور ان کی بارگاہ اقدس سے مستفیض ہوتے ہیں ۔ محمد بحر العلوم کہتا ہے :اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سورج کہاں غروب ہو جائے ، جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہےکہ اس سورج کی شعائیں جو روشنی بخش ہیں اور قیامت تک غروب نہیں ہو گی ، اس کی روشنی سے دنیا کے لوگ ان شعاعوں سے مستفیذ ہوتے آرہے ہیں ۔ ان کا مشہور ترین نام زینب ہے جو لغت میں "نیک منظر درخت” کے معنی میں آیا ہے[2] اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب” یعنی "باپ کی زینت” کے ہیں۔متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا؛ البتہ آپؐ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ زہراعلیہما السلام کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔[3] جب رسول اللہ(ص) نے ولادت کے بعد انہیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا:میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری(س) سے مشابہت رکھتی ہے۔[4]

2۔شریک حیات اور اولاد

شرم و حیا عبداللہ بن جعفر کی راہ میں رکاوٹ تھی اور وہ حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرنے کے ارادہ ظاہر نہیں کرسکتے تھے؛ بالآخر ایک شخص نے عبداللہ کا پیغام حضرت علی علیہ السلا م کو پہنچایا اور کہا: رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعفر بن ابی طالب سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ایک روز آپؐ جعفر طیار کے بچوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: "ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے ہیں؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی بیٹی زینب(سلام اللہ علیہا ) کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے کرائیں اور بیٹی کا مہر ان کی والدہ حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا ) کے مہر کے برابر 470 درہم قرار دیں۔ علی(ع) نے رشتہ قبول کیا اور یہ رشتہ اور نکاح سنہ 17ہجری کو انجام پایا اور بہت جلد عبداللہ بن جعفر علی(ع) کی دعا سے فراواں مال و دولت کے مالک ہوئے اور جود و سخا کی بنا پر جواد کریم کے لقب سے مشہور ہوئے”۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے شرط لگائی کہ آپ حسین(علیہ السلام) سے شدید محبت کی بنا پر ہر روز آپ کا دیدار کرنے جائیں گی اور سفر کی صورت میں بھائی کے ہمراہ جائیں گی اور عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں۔[5] خدا نے حضرت زینب(سلام اللہ علیہا ) اور عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں: چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی (ام کلثوم)۔[ 6]

3۔فضائل :

خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام میں پلنے والے تمام مرد و عورت صاحب فضیلت ہیں اور ہر ایک دوسروں کے لئے نمونہ ہیں ان افراد میں سے ایک زینب کبری ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام و زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں پرورش پائی ان کی فضیلت اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نہیں لیکن کچھ فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

1۔:علم

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔ [7]علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينبسلام اللہ علیہا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ [8]حضرت زينب سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زہراءعلیہما السلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[9]

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے حضرات معصومین علیہم السلام سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسول(ص) کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ۔

2۔ فصاحت و بلاغت:

حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ان کے خطبوں سے نظر آتا ہے مخصوصا جو خطبہ ابن زیاد کی مجلس میں آپ نے دیا اس سے اسی وقت کے لوگ بھی انگشت بہ دنداں ہوئے تھے اور یہ کہتے ہوئے نظر آرہے تھے کی آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام زندہ ہو کر خطبہ دے رہا ہے ،آپ فصاحت اور بلاغت میں عرب میں مشہور تھی۔ سی اثناء میں ایک ماہ و سال دیدہ مرد نے روتے ہوئے کہا: میرے ماں باپ فدا ہوں ان پر جن کے بوڑھے بہترین بوڑھے، ان کے اطفال بہترین اطفال اور ان کی خواتین بہترین خواتین اور ان کی نسل تمام نسلوں سے والاتر و برتر ہیں۔[10}

3۔زہد و عبادت:

حضرت زینب كبری سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔[11] آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا کہتی ہیں:شب عاشور پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔ [12] خدا کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل”۔ (ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا ۔ [13 }

4۔تدبیر اور مدیریت:

کاروان حسینی کی مدیریت و سرپرستی واقعہ عاشورا کے بعد آپ کے ذمہ پر ہی تھی اور امام حسین علیہ السلام نے آخری وداع میں اسی صلاحیت اور مدیریت کے پیش نظر اہل حرم کو آپ کے سپرد کیا تھا۔

5۔شجاعت و حماسہ:

اس بات کی شاہد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وہ مقاومت ہے جو حیوان صفت دشمنوں کے مقابلے میں آپ نے کی تھیں ۔

6۔صبر و استقامت:

آپ کی صبر واستقامت کو ملا حظہ کر نے کے لئے وہی حوادث و مشکلات کافی ہیں جو عاشورا کے دن پیش آئے آپ صبر و ایثار کی پیکر تھیں ایک لطیف روحیہ کے مالک ہونے کے باوجود حریم رسول کا آپ نے بہترین دفاع کیا دوسری طرف بہتر ۷۲ عزیزوں کو کھو چکی ہیں عزیز افراد کے بدن کو قطع قطع کیا گیا ہے اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے اسیروں ،بیماروں اور یتیموں کی ذمہ داریاں بھی آپ پر تھیں ،ان تمام سختیوں کے باوجود بھائی کے ناتمام کردار کو تکمیل تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت زینب(سلام اللہ علیہا ) صبر و استقامت کی وادی میں بےمثل شہسوار تھیں۔ جب بھائی حسین(علیہ السلام) کے خون میں ڈوبے ہوئے جسم کے سامنے پہنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا:بار خدایا! اس چھوٹی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول(ص) سے قبول فرما۔[14}

ایک محقق کا کہنا ہے کہ: زینب(س) کے القاب میں سے ایک "الراضية بالقدر والقضاء” ہے اور اس مخدَّرہ نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہوجاتے، لیکن یہ مظلومہ بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں "كالجبل الراسخ…” (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔[15}

آپ نے بارہا امام سجّادعلیہ السلام کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ابن زیاد کی مجلس میں، جب امام سجّادعلیہ السلام نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس اثناء میں حضرت زینب(س) نے اپنے ہاتھ بھتیجے کی گردن میں ڈال دیئے اور فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں تم کو، انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔[16]

7۔مالکہ کرامت:

کرامت ایک خدائی عطیہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا :[ولقد کرمنا بنی آدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]اسراء۷۰؛ اس قیمتی خدائی عطیہ کی حفاظت اور کم قیمت میں اسے بھیج نہ دینا ان وظائف میں سے ایک ہے جسے عقل و شرع نے انسان کو ذمہ دار بنایا ہے ۔

عاشور کے دن کرامت و شخصیت انسان کی پاسداری اور شجرہ طیبہ کا دفاع انجام پائے ،واقعہ کربلا کے بعد دشمن نے کوشش کی کہ کاروان حسینی کو تحقیر کرے اور ان کا مذاق اڑائے تا کہ ان سے انتقام لے لیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیھا پیامبر انقلاب و عاشورا نے ان کے اس قصد کو ناکام بنا دیا اور حقیقی معنوں میں شخصیت و کرامت انسانی کی پاسداری کی اور سپاہ یزید میں بارہا آپ نے یہ اعلان کیا اس واقعہ میں ہم نے عزت و کرامت کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔

8۔: حجاب و پاکدامنی

آپ ؑکے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے:جب بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا مسجد النبی(ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقد انور پر حاضری دینا چاہتیں تو امیرالمؤمنین علیہ السلام حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن و حسین علیہما السلام کو ہدایت کرتے تھے کہ بہن کی معیت میں جائیں چنانچہ ایک بھائی آگے ہوتا تھا، ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا بیچ میں ہوتی تھیں۔ ان دو بزرگواروں کو والد بزرگوار کا حکم تھا کہ مرقد النبی(ص) پر لگا ہوا چراغ بھی بجھادیں تاکہ نامحرم کی نگاہ قامت ثانی زہراء سلام اللہ علیہا پر نہ پڑے۔[17}

یحیی مازنی کہتے ہیں: میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ہمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نظر نہ آئیں اور نہی ہی ان کی صدا سنائی دی۔[18}

9۔ روایت حدیث:

اندیشہ اسلامی کی حفظ و انتقال کے اہم کاموں میں سے ایک نقل روایت ہے اور روای حدیث کی خاص شرایط ہوتی ہیں حضرت زینب سلام اللہ علیہا تمام فضائل کے ساتھ اس فضیلت کے بھی حامل تھیں آپ ؑنے اپنی والدہ گرامی سے اور اپنے بابا اور بھا ئیوں سے روایات نقل کی ہیں ۔ آپ ؑ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ ؑروایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔

زینب سلام اللہ علیہا و عاشورا:

حضرت زینب سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی امام حسین علیہ السلام سے خاص محبت رکھتی تھیں اور آخری دم تک آپ نے اس محبت میں کمی آنے نہیں دی یہ محبت یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ تھی۔جب امام حسین علیہ السلام نے عراق کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے شوہر عبد اللہ کے پاس گئیں اور اپنے شوہر سے روتی ہوئی فرمائی :پسر عمو میرے بھائی حسین نے عراق کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا ہے اور تو بخوبی میرے اور میرے بھائی حسین کے درمیان موجود محبت سے واقف ہے اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرے لئے بھائی کی جدائی قابل تحمل نہیں ہے تم سے اجازت لینے آئی ہوں تا کہ اپنے عزیز بھائی کے ہمراہ جاوں لیکن اگر اجازت نہیں دوگے تو یہاں رہوں گی لیکن یہ جان لیں کہ ان کے بغیر میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکوں گی ،جب عبد اللہ بن جعفر نے ان حالات کو دیکھا تو آپ سے مخاطب ہوئے اور کہا :جو کچھ چاہتی ہو اس پر عمل کرو۔

بھائیوں کے ہمراہ دوسری محرم ۶۱ہجری کو وارد کربلا ہوئیں امام حسین علیہ السلام ان سخت اور کٹھن مراحل میں ہمیشہ اپنے خاندان و انصار کو خصوصا حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو صبر و تحمل کی تلقین کرتے تھے۔لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے عورتوں کو کیوں اپنے ساتھ لے گئے ؟کیا یہ اخلاقی طور پر صحیح تھا درحالیکہ ہر قسم کی خطرے موجود تھے۔اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں

۱۔عورتوں کی ہمراہی اجباری نہیں تھی بلکہ اختیاری تھی۔

۲۔امام ؑنے کئی مواقع پر تمام اصحاب و خاندان کو جانے کے لئے فرمایا لیکن جو ہمراہ تھے ان میں سے کوئی جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔

۳۔ان کو اگر لے کر نہیں جاتے تو عصر عاشور کے بعد کردار زینب کو کون اپناتا۔

۴۔عورتوں اور بچوں کے کربلا میں زندہ بچنے کے سبب کربلا تکمیل ہوئی۔

۵۔اہل حرم کو ساتھ لے جانے کی وجہ سے کربلا تمام انسانوں کے لئے بالخصوص عورتوں اور بچوں کے لئے درس گاہ بنی ۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار اور حرکت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی بھی اجتماعی تحریک یا انقلاب اگرچہ فلگ شکن نعروں اور عظیم شعاروں پر تکیہ کیا ہوا کیوں نہ ہو اس کےلئے جس قدر کوشش اور جھاد کیوں نہ ہو وہ انقلاب آنے کے بعد اگر اسے دوسرون تک پہنچانے کے منظم طریقے انتخاب نہ ہو جائے اور اس انقلاب کے خاص پیغامات اور اہداف نہ ہو تو بہت جلد وہ انقلاب و تحریک تاریخ کا حصہ بن کر فراموش ہو جاتے ہیں یا وہ تحریف کا شکار ہو جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کربلا کا یہ انقلاب رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی کردار نے رہتی دنیا تک کربلا کو فرموش اور تحریفہ ہونے سے بچایا۔

بعد از عصر عاشور اورحضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا

عصر عاشور جب سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا ) نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:

{يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟۔ (ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ (امام حسین(ع) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔[19} ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل} (: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)۔[20]حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "بار خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما![21] آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل دوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔

عصر عاشور بڑا حساس اور نہایت سخت وقت تھا عصر عاشور کے بعد تین بنیادی ذمہ داریاں زینب سلام اللہ علیہا کے ذمے تھیں ۔

۱۔وقت کے امام کی حفاظت

۲۔عورتوں اور یتیم بچوں کی حفاظت اور نظارت کاروان حسینی

۳۔پیغا م حسینی کو پہنچانا اور اسکی دفاع کرنا ۔

امام وقت کی حفاظت:

آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔جب امام حسین علیہ السلام نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیمار سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام نے بہن سے خطاب ہو کر فرمایا :بہن میرے عزیز کو سنبھالو کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے ۔حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں اور کہا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ہو جاوں میں اسے قتل ہونے نہیں دوں گی۔جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابن زیاد بس کر جتنے خون تم نے بہایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ؟خدا کی قسم میں ان کو قتل ہونے نہیں دوں گی یہاں تک تومجھے قتل نہ کرے ۔

۲۔ اسیروں کی سرپرستی :

جب دشمنوں نے خیام اہل بیت علیہم السلام پر حملہ کیا یہاں تک کہ فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہا کے کانوں کے گوشوارے بھی چھین لئے گئے اور اس بچی پر خوف سے غش طاری ہوئی زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بچی کے سر کو گود میں رکھ کر ہوش میں لائی اس وقت بچی نے پوچھا کوئی چادر نہیں تا کہ سر کو چھپا لوں تو زینب سلام اللہ علیہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تیری پھوپھی کے سرپر بھی چادر نہیں رہی ہے ۔اسی طرح کوفہ و شام کے سفرمیں اسیروں کو کھانا بہت کم دیتے تھے تو زینب کبری سلام اللہ علیہا اپنے حصے کو محفوظ رکھ دیتی اور جب بچے بھوک کی شکایت کرتے تو ان کو دیتی تھیں اسی وجہ سے بعض اوقات کھڑے ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتی تھیں۔

۳۔پیغام عاشورا کی تبلیغ اور دفاع:

آپ ؑمناسب مواقع پر عاشورا کے پیغام کو پہنچاتیں رہیں اور مردہ ضمیروں کو جنجوڑتی رہی اور سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں رہیں ۔اس حوالے سے آپ نے تین کام انجام دئیے:

۱۔اہل بیت علیہم السلام کا تعارف ۲۔دشمنان اہل البیت علیہم السلام کی تذلیل ۳۔کوفہ والوں کی بےوفائی اور خیانتوں کی مذمت، ان تین کاموں کو آپ سلام اللہ علیھا نے تین وسیلوں کے ذریعے انجام دئیے ۱۔خطبات کے ذریعے ۲ شک و شبھات کو رفع کرتے ہوئے ۳ بحث و مباحثہ کے ذریعے

جب قافلہ اسراء کو فہ پہنچا تو تماشائی جمع تھے راوی نقل کرتا ہےکہ میں نے دیکھا کہ زینب کبری سلام اللہ علیھا اس طرح خطبے دے رہی تھی گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رہا ہے ۔آپ خطبہ دیتی جارہی تھی اور فرماتی تھیں : وائے ہو تم پر آیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شھید کیا؟کونسا عہد تم لوگوں نے توڑاا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ہو ؟کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے ؟نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے قدموں سے پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے پہاڑ ریزہ ریزی ہوجائےاور زمین بکھر جائے تمھیں جو مہلت ملی ہے اس سے مغرور نہ ہو چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نہیں انتقام کا وقت آجائے گا۔

آپ ؑنے ایسا دندان شکن تاریخی خطبے دئے کہ روای کہتا ہے : لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رہے تھے گویا حشر کا سماں ہو روای کہتا ہے : ایک بوڑھا ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے یہ کہ رہا تھا آپ کے بزرگان بہترین بزرگان اور عورتیں بہترین عورتین ہیں اور جوان بہترین جوان ہیں آپ کا فضل بہت عظیم ہے ۔ اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سیدۃ زینب سلام اللہ علیھا فرماتی ہے:

تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے جس نے ہمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے شرافت ووکرامت سے نوازا اور ہمیں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھا تم فاسق اور رسوا ہو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے ۔جب ابن زیاد نے پوچھا :آپ اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا ؟علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا :ما رائیت الا جمیلا میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا ،قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ہو گا اور کون ناکام و بد بخت۔

بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:اس دن میں زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: "خاموش ہوجاؤ”، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔[22] حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا مگر اس خطاب نے کوفہ جوش و جذبے کی کیفیت سے دوچار کردیا تھا اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علی علیہ السلام کی بیٹی کے خطبے نے کوفیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔

خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا۔[23]حضرت زینب سلام اللہ علیہا دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زياد کے ساتھ مناظرہ کیا۔[24]حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "فكد كيدك واسع سعيك وناصب جهدك فوالله لا يرحض عنك عار ما اتيت إلينا ابدا والحمد الذي ختم بالسعادة والمغفرة لسادات شبان الجنان فأوجب لهم الجنة اسال الله ان يرفع لهم الدرجات وان يوجب لهم المزيد من فضله فإنه ولي قدير”۔: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔[25]۔

یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے۔[26] اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔[27] آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(علیہ السلام) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا: "يا حسيناه ! يا حبيب رسول الله ! يا ابن مكة ومنى ! يا ابن فاطمة الزهراء سيدة النساء ! يا ابن بنت المصطفى ! قال: فأبكت والله كل من كان في المجلس، ويزيد ساكت ثم جعلت امرأة من بني هاشم في دار يزيد تندب على الحسين عليه السلام وتنادي: واحبيباه ! يا سيد أهل بيتاه ! يا ابن محمداه ! يا ربيع الارامل واليتامى ! يا قتيل أولاد الادعياء ! قال: فأبكت كل من سمعها”۔ ترجمہ: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی’ کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدة نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا۔ [28]

یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی۔[29] اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا۔ صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ سلام اللہ علیہا ) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! ميں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: "أَنْتُما سَيِّدا شَبابِ أهْلِ الْجَنَّةِ، فَقَتَلَ اللهُ قاتِلَكُما وَلَعَنَهُ، وَأَعَدَّ لَهُ جَهَنَّمَ َوساءَتْ مَصيراً”۔: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔ [30] اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:

كاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا۔ ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!۔[31] میں خُندُف[32] کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں۔

اچانک سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا ) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسین(ع) کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا۔

خطبے کے بعض اقتباسات

سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔

اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمائی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ "وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”: اورخبردار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے ۔ہم تو صرف اس لئے دےرہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔[33]۔[34]

اس کے بعد فرمایا :

أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِيُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِيٌّ، وَ كَيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الاَزْكِياءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِحَنِ وَ الاَضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم: لاَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً *** ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللهِ سَيِّدِ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ، تَنْكُتُها بِمِخْصَرَتِكَ، وَ كَيْفَ لا تَقُولُ ذلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ، وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِكَ دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِأَشْياخِكَ، زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنادِيهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ، وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ۔

ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔

اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلب(ع) کا جگر چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔

اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں! اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(ع) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے! اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔

اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا!

أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ يَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ). [35] وَحَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِيماً، وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، "بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً”[33]، وَأَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَأَضْعَفُ جُنْداً۔ [36] اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یه تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟

Related Articles

Back to top button