دانشکدہمقالات

سرداب غیبت

سرداب غیبت اس مقام کو کہا جاتا ہے جو عراق کے شہر سامرا میں روضۂامام علی نقی اور امام حسن عسکری کے شمال غرب میں موجود ہے ۔ اس مقام کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ جگہ گرمی کے موسم میں امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے رہنے اور عبادت کرنے کی جگہ تھی ۔روایات کے مطابق امام مہدی کو انکے والد کے زمانے میں اور انکے بعد اس جگہ دیکھا گیا ۔اسی وجہ سے اسے سرداب غیبت کا نام دیا گیا۔

بعض اہل سنت مؤلفین ادعا کرتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ مہدی پیدائش کے بعد اسی تہہ خانہ میں مخفی ہوئے اور اسی جگہ سے انکی غیبت کا دور شروع ہوا اور غیبت کے زمانے میں بھی اسی جگہ رہتے ہیں نیز اسی تہہ خانے سے وہ ظہور کرے گا لیکن شیعہ کے مآخذوں میں ایسا اعتقاد مذکور نہیں ہے ۔

سرداب غیبت

تاریخچہ

سرداب میں امام زمانہ کی غیبت سے متعلق خبر کا قدیمی ترین مآخذ بلخی (گذشتہ ۶۵۸ق) کا قول مذکور ہے۔لیکن اس نے اس کے نقل کا مآخذ ذکر نہیں کیا ۔زیادہ احتمال یہ ہے کہ علمائے اہل سنت میں سے ذہبی(۷۴۸ق) نے لکھا : فرزند امام عسکری(ع) نو سال کی عمر یا اس سے کم سن میں سال۲۶۵ق. کو غائب ہوا، اس زمانے میں وہ سامرا کی سرداب میں داخل ہوا پھر اسکے بعد اسے دیکھا نہیں گیا ۔ذہبی نے عام لوگوں کے امامیہ کے بارھویں امام کے سرداب میں غائب ہونے کے اعتقاد کی بنا پر اس خبر کو نقل کیا ہے ۔ یہ عقیده پانچویں صدی کے بعد شائع ہوا اور اسکے بعد ابن خلدون جیسے اہل سنت کے بعض دانشمندوں کے توسط سے شائع ہوا.[1]

پہلی مرتبہ خلفائے عباسی میں سے الناصر لدین الله کے توسط سے اس سرداب میں مرمت کا کام انجام پایا اور یہاں منصوب کتبے پر شیعوں کے بارہ آئمہ کے اسما تحریر لکھوائے ۔[2]

محل وقوع

سرداب میں داخلے کا منظر

یہ سرادب حرم عسکریین(ع) کے صحن کی مغرب کی طرف سمت شمال میں واقع ہے اور طول تاریخ میں یہاں کئی مرتبہ تعمیرات کا کام ہوا بلکہ حرم عسکریین(ع) کی تعمیر و مرمت کے موقع پر اس میں ہمیشہ یہاں تعمرات ہوئیں ۔گذشتہ زمانے میں حضرت نرجس خاتون کے مرقد کے پاس سے سرداب کو جاتے تھے یہ صورت حال سال ۱۲۰۲ ق. تک باقی رہی ۔ مذکورہ سن میں احمد خان دنبلی نے سرداب میں جانے کیلئے ایک جدا راستہ شمال کی طرف سے بنوایا ،روضۂ عسکریین سے جانے والے راستے کو بند کروایا اور سرداب کا ایک علیحدہ صحن بنوایا جس کا طول و عرض ۶۰ میٹر اور ۲۰ میٹر تھا ۔

بہرحال یہ سرداب طول تاریخ میں اس قدر لوگوں کے درمیان ایک قابل اہمیت کے طور پر مورد توجہ رہی کہ ہنرمندوں نے آئینہ بندی اور قیمتی و نفیس لکڑی کے ذریعے آراستہ و پیراستہ کیا کہ جس کے آثار دوران عباسیوں کی خلافت تک باقی رہے ۔

کنواں

تہہ خانے میں موجود چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں کنواں موجود ہے کہ جس کے متعلق شیعہ معتبر منابع میں کنویں یا امام مہدی کے مقام غیبت کے طور پر کسی قسم کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی شیعہ بزرگ علما اس کے متعلق کوئی اعتقاد رکھتے ہیں ۔

اس مقام پر امام علی نقی اور امام عسکری کے وضو کرنے کا ایک حوض موجود تھا اور شیعہ زائرین اس مقام سے بطور تبرک اس جگہ مٹی اٹھاتے تھے جو آہستہ آہستہ گہرا ہوتا گیا یہی مقام بعد میں غیبت کے کنویں کے نام سے معروف ہو گیا ۔

محدث نوری صاحب مستدرک کہتے ہیں : یہاں پر موجود خدّام نے اپنے ذاتی مادی اور دنیاوی مقاصد کے تحت اس خرافہ کو رواج دیا اور اس مقام کو چاہ غیبت کے نام سے معروف کیا ۔ وہ خادمین یہاں پر آنے والے زائرین سے سے پیسے لے کر اس جگہ کی خاک لے کر انہیں دیتے ۔

شیخ العراقین نے اس نادرست اقدام کو روکنے کیلئے اس کنویں کو پر کروا کر بند کردیا اور اسکے دروازے کو بند کر دیا لیکن خدام نے بعد میں پھر اسے کھول دیا ۔[3]

بم گذاری

۱۳۸۴شمسی کی سوم اسفند(بمطابق 22فروری2006 عیسوی) اور ۱۳۸۶شمسی کی ۲۳ خرداد(بمطابق 13جون2007عیسوی) کو یہاں بم گذاری کی گئی جس کے نتیجے میں سرداب کا ایک حصہ منہدم ہو گیا ۔

اہل سنت کے نزدیک سرداب

اہل سنت کے بعض مؤلفین شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہیں :شیعہ معتقد ہیں کہ مہدی موعود اس سرداب میں پنہاں ہے اسی مقام سے ظہور کرے گا نیز گھڑسواروں کی ایک جماعت یہاں کھڑے ہیں اور مہدی کے باہر آنے کے منتظر ہیں ۔ [4]

علامہ سید مرتضی عسکری اس سرداب غیبت کے متعلق کہتے ہیں : مصری عالم دین شیخ محمود ابوریہ کہ جو کتاب عبدالله سبا کے مطالعے کے بعد شیعہ ہوا تو اس نے مجھے مصر سے خط میں لکھا :تم شیعہ حضرات ہر جمعہ کے عصر کے وقت گھوڑوں پر سوار ہاتھوں میں شمشیر سونتے ہوئے سرداب غیبت کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے ہو کہتے ہو : یابن الحسن! ظہور کرو اور خروج کرو۔میں نے اسکے جواب میں لکھا : میں بغداد میں پیدا ہوا ہوں اور ایک مدت تک سامرا میں مقیم رہا ہوں میں نے تو وہاں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ایسی کوئی بات سچائی پر مبنی نہیں ہے ۔

آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپائگانی نیز اسکے بارے میں لکھتے ہیں ؛این افتراپردازی اور بہتان ابن خلدون اور ابن حجر جیسے اہل سنت کی جانب سے جعل کردہ ہیں اور شیعہ دشمنی ،اہل بیت سے انحراف بنی امیہ اور خاندان رسالت کی طرف جھکاؤ کی بنیاد پر ہیں .یہ اور انکے بعد آنے والے مصنفین شیعہ کتب سے انکے عقائد اور شیعہ نظریات بیان کرنے کی بجائے جعل اور افترا پرادازی کا سہارا لیتے ہیں یا اپنے سے پہلے مؤلفین کی دروغگوئیوں کو شیعوں کی نسبت ملاک اور معیار قرار دیتے ہیں اس طرح خود اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ شیعوں میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا :امام مہدی سامرا کی سرداب میں غائب ہے بلکہ تمام شیعہ تالیفات اور کتب اس واقعے کی تکذیب کرتی ہیں ۔

بلکہ شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قیام امام زمان (عج) مکہ میں کعبہ کے پاس سے ہو گا۔ [5]

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، ص۱۴۶.
  2. اوپر جائیں أعیان الشیعہ، محسن الأمین، ج۲، ص:۵۰۷
  3. اوپر جائیں کشف الاستار، محدث نوری، ص۴۳
  4. اوپر جائیں سیر اعلام النبلاء، ج ۱۳، ص۱۱۹؛ابن خلدون، مقدمہ این خلدون، ص۲۰۷-۲۰۸؛ المہدّیۃ فی الاسلام، ص۱۳۰و۱۲۹؛ الصراع بین الاسلام والوثنیہ، ص۴۲
  5. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، ص۳۱۳، ۳۱۵.

منابع

  • امین، سید محسن، أعیان الشیعہ، دارالتعارف، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • مصطفی قبادی، موعود، آبان ۱۳۸۷، شماره ۹۳.
  • لغتنامہ دہخدا.
  • علامہ مجلسی، بحارالانوار، چاپ اسلامیہ.
  • نوری، میرزاحسین، کشف الأستار، نشر مؤسسہ نور، بیروت، ۱۴۰۸ق.
  • تاریخ ابن خلدون، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۷۵ش.
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، مقدمہ ابن خلدون، کوشش: مصطفی شیخ مصطفی، دمشق، مؤسسہ الرسالہ ناشرون، ۱۴۲۸ق/۲۰۰۷م.
  • شمس الدین ذہبی، سیر اعلام النبلاء، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۷ق.
  • حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، ترجمہ سیدمحمدتقی آیت اللہی، تہران: امیرکبیر، ۱۳۸۶ش.
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، نشر صدوق، تہران، ۱۳۹۷ق.

 

Related Articles

Back to top button