دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

فلسفۂ محرم الحرام ؛قسط پنجم

(سید شاہد جمال رضوی)

محرم؛اتحاد و اتفاق کا بہترین ذ ریعہ
اتحاد کائنات کی سب سے مضبوط رسی ہے جس سے انسان کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کی سلامتی وابستہ ہے ،ایک سالم معاشرے کے لئے بنیادی طور پر باہمی اعتماد اور اتحاد کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن اسی کے برعکس جب لوگوں کے فکر و خیال ، آسائش حیات اور طریقۂ زندگی میں رشتۂ اتحاد و اتفاق برقرار نہ ہو اور لوگ چھوٹی چھوٹی باتوںپر اختلاف کے شکار نظر آئیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہیں سے معاشرے کی تنزلی کا آغاز ہو چکا ہے ،معاشرہ خوش بختی کی قدروں سے آہستہ آہستہ دور ہو رہاہے اور اس کی بنیادیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔

خدا وندعالم نے وحدت و اتحاد کو معاشرے کی رشد و ترقی میں اہم ترین کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے افراد معاشرہ کو باہم متحد رہنے کی خصوصی تاکید کی ہے : (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا)” اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو”۔

"محرم الحرام”افراد معاشرہ کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا بہترین اور موثر ترین ذریعہ ہے اس لئے کہ ادھر افق پر محرم کا چاند نمودار ہوتاہے اور ادھر امام حسینؑ کی محبت و الفت کا دم بھرنے والے اپنی ذاتی پرخاشیں بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے لگتے ہیں ، عزاداری امام حسینؑ میں شریک ہوکر اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں،مجلسوں اور جلوس عزا میں پابرہنہ شرکت کرکے حقیقی مودت اہل بیت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، امام مظلوم کے اعزہ و اصحاب اور معصوم بچوں کی پیاس کی یاد میں سبیلیں لگا کر دوست و دشمن سبھی کو سیراب کرتے ہیں۔

در اصل عزداروں نے اس اتحاد کا درس اصحاب حسینی سے سیکھا ہے ، جنہوں نے میدان زندگی کے ہر شعبے میں اپنی قلت کے باوجود اتحاد و اتفاق کی بہترین مثال قائم کی ہے ۔ ذرا نگاہ تصور اٹھا کر کربلا کے خونیں میدان کا جائزہ لیجئے جہاں حق پرستوں کی جماعت کیفیت کے اعتبار سے آدم و عالم سے گراں تر تھی لیکن کمیت کے اعتبار سے بہت مختصر بلکہ انتہائی مختصر تھی ، چھ ہزار ، تیس ہزار یا چھ لاکھ کے مقابلے میں صرف بہتر یا سو سے کچھ اوپر کی تعداد تھی جو تحفظ غدیر کا ناقابل تسخیر عزم لئے میدان کربلا میں موجود تھی ، ان کے پاس ہتھیار بھی بہت مختصر اور اکثر کے پاس سواری بھی نہ تھی لیکن اس اختصار کے باوجود انہوں نے ہر ہر قدم پر اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کیا ، امام حسینؑ اور اہل حرم کی حفاظت کا جذبہ ہو یا دین پر مر مٹنے کا عزم مصمم ، دشمنوں سے نفرت اور اظہار بیزاری ہو یا امام عالی مقام سے بے لوث دوستی محبت ، عبادت و بندگی اور خدا سے راز و نیاز ہو یا آخرت پر بھرپور عقیدہ ،وفاداری اور وفا شعاری ہو یا دور اندیشی اور بصیرت … اصحاب حسینی ہر میدان میں اتحاد کی منھ بولتی تصویر نظر آئے ، ان کے فکر و خیال میں بھی اس قدر یکسانیت اور ہماہنگی تھی کہ لشکر اعداء اس ہماہنگی اور اتحاد کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے ۔

امام حسینؑ علیہ السلام کے عزادار ، محرم الحرام کا چاند دیکھتے ہی اصحاب حسینؑی کے انقلاب آفریں اتحاد کی یاد دلوں میں تازہ کرتے ہیں اور اس مہینہ میں امام مظلوم پر گریہ و بکاء کرکے امام عالی مقام کی تحریک میں شرکت کرتے ہیں ، استاد شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں : شہید پر گریہ و زاری ، اس کی تحریک میں شرکت کی علامت ہے ۔

امام خمینی علیہ الرحمہ نے محرم الحرام کے اجتماع اور اتحاد کو دشمن کی سرنگونی اور اسلام کی سربلندی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : "ہم سیاسی گریہ کی قوم ہیں ، اسی اشک کے ذریعہ سیلاب لاتے ہیں اور اسلام کے مقابل کھڑے ہونے والوں کا تیاپانچہ کردیتے ہیں ، اسی گریہ سے بہت سے دینی کام انجام پذیر ہوتے ہیں اور ہمارا یہی اجتماع اور اتحاد ہے جو لوگوں کو بیدار رکھتاہے” ۔

جی ہاں ! اسی عظیم فلسفہ کی بناء پر محرم الحرام میں ہمارا دینی اتحاد و اتفاق دشمنوں کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ، وہ اپنا سارا زور صرف دیتے ہیں کہ کسی طرح یہ اتحاد پارہ پارہ ہوجائے ،تاریخ گواہ ہے کہ استعمار اور سیاسی حکومتوں نے محرم الحرام کے عظیم مقاصد اور امام حسینؑ کے پیغام شہادت پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی ، کبھی عقیدۂ جبر کے ذریعہ مسلمانوں کو کربلا فہمی سے روکا تو کبھی انتقام خون حسینؑ کا نعرہ لگا کر اس کے رنگ کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ۔لیکن کربلا آج بھی ایک ابدی حقیقت بن کر زندہ ہے ،کیوں ؟ اس لئے کہ اسے زندہ رکھنے کے ذرائع انمول اور انتہائی منفرد ہیں ۔یعنی محرم الحرام میں عزاداری اور سوگواری ۔

آج اسی لئے عزادری کی مرکزیت اور اس کی کلیدی حیثیت کو دیکھتے ہوئے دشمن نے اپنی ساری توانائیاں اس کی شکل بگاڑنے اور اس کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے میںصرف کردی ہے۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ دشمن تو دشمن کبھی کبھی نادان دوست بھی وہی کام انجانے میں کرجاتے ہیں جو دشمن کی مسرتوں کا باعث ہوتاہے ورنہ ایک ہی امام کے ماننے والے ایک ہی عقیدے کے حامل ایک ہی جذبہ دل میں رکھنے والے ایک ہی ہدف کے تحت خلق کئے جانے والے کیونکر اسی مسئلہ میں اختلاف کا شکار ہوسکتے ہیں جس میں ایک دوسرے کے ساتھ انہیں مشترک ہونا چاہئے ، ایک ایسے مسئلہ کو لے کر اختلاف کے کیا معنی ہیں کہ جس پر سب کا اتحاد قطعی اور فیصلہ کن امر ہے ۔

آج جس عزاداری کو ہمارے اتحاد کی پہچان ہونا چاہئے اسی کے اندر اختلاف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اپنے جذبوں میں صادق ہونے کے باوجود کہیں نہ کہیں ہم سے کوئی بھول ضرور ہوئی ہے ۔

آج جہاں بعض جذباتی اور ضعیف الارادہ لوگ عزاداری کے سلسلے میں قائم ہونے والے ہر چھوٹے سے چھوٹے سوال کو بھی توہین ولایت کا مسئلہ بناکر اس پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور کسی بھی قسم کی کوئی بات سننے کو اپنے عقیدے کے خلاف سمجھتے ہیں وہیں کچھ جذبات و احساسات سے عاری افراد ہر چیز کو اپنی ناقص عقلوں کے میزان پر یوں تولتے ہیں کہ عقل بھی ان کے اس کام پر خنداں نظر آتی ہے ، وہ تقاضائے مصلحت کو پرے دھکیل کر دوٹوک الفاظ میں کوئی بھی احمقانہ فیصلہ کرنے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ یہ عقل کا فیصلہ ہے ۔حد یہ ہے کہ اب تو خود امام حسینؑ کی عزاداری میں اختلاف کیاجارہاہے ، یہ ہمارے یہاں کی مجلس ہے اور یہ تمہارے یہاں کی ، یہ ہمارا جلوس ہے اس لئے اس میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ، یہ ان کا جلوس ہے لہذا اسے خراب کرنے کی پوری کوشش کریں گے، ہماری مجلس پہلے شروع ہوگی ، ان کی مجلس بعد میں شروع ہوگی ۔ ذاتی اختلاف کی وجہ سے ایک محلہ اورگائوں کے لوگ دوسرے محلے اور گائوں کی مجلس میں شرکت نہیں کرتے اور وہاں والے اس محلے میں آنے سے اجتناب کرتے ہیں۔اب تو عالم یہ ہے کہ ایک ہی شہر اور گائوں کے لوگ سال بھر ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن محرم الحرام کا چاند نمودار ہوتے ہی ان کے درمیان اختلاف شروع ہوجاتاہے …. خدا کے واسطہ آپ اپنی ذات کا جائزہ لیجئے اور اپنے آپ سے ایک سوال کیجئے کہ کیا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے ایسی عزداری کی تمنا کی تھی ، کیا امام حسینؑ ایک لمحہ کے لئے ایسی عزداری سے خوش ہوں گے اور کیا فاطمہ زہراء روز محشر ایسے عزداروں کی شفاعت فرمائے گیں…؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی آپسی چیقلش کی وجہ سے قوم منسجم ہونے کے بجائے بکھر رہی ہے اور اتحاد کے بجائے اس کے اندر اختلاف پیدا ہورہاہے ۔

عزیزو، دوستو ، امام حسینؑ علیہ السلام کی محبت و الفت کا دم بھرنے والو!ہمیں اس بات پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ کہیں ہمارے دشمن ہمارے درمیان اختلاف کا بیج ڈال کر محرم الحرام کے عظیم فلسفے میں رخنہ ڈالنے کی کوشش تو نہیں کررہے ہیں ، عزیزو!آج ہر طرف سے ہماری عزاداری پر حملہ کیاجارہاہے لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس عزاداری کا تحفظ کریں ، اسے زیادہ سے زیادہ دنیا کے گوشہ و کنار میں عام کریں اور مل جل کر اس کے داخلی اور خارجی رکاوٹوں کا سد باب کریں ۔ اس کی آفاقیت کو اپنے ذاتی اختلاف سے کم نہ ہونے دیں بلکہ اپنے اختلاف کو اس کی آفاقیت پر قربان کردیں تاکہ یہ عزداری جو تشیع کا امتیاز اور تشخص ہے ، وہ دوسروں کے لئے مشعل ہدایت بن سکے ۔

Related Articles

Back to top button