دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

فلسفۂ محرم الحرام ؛قسط دوم

(سید شاہد جمال رضوی)

محرم؛ تحریک امام کے احیاء کا زمینہ
محرم ایک انقلابی مہینہ ہے ، ہلال محرم کے دیدار کے بعد ہر شخص یہ خیال کرتاہے کہ اب وہ مہینہ شروع ہوگیا جس مہینے میں خون کو تلوار پر کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی ، جس مہینے میں تاریخ کے ہر دور کی نسلوں کو شمشیر کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کا سلیقہ سکھایاگیا ، اس مہینے میں عدل نے ظلم اور حق نے باطل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوکر یہ ثابت کردیا کہ تاریخ کے ہر موڑ پر حق ہمیشہ باطل کے مقابلے میں کامیاب و کامران رہاہے ، اس میں مجاہدوں کے قیمتی خون کے ذریعہ اسلام کو نئی زندگی نصیب ہوئی ہے اور اسے تخریب کار عناصر اور حکومت بنی امیہ کی سازش سے نجات ملی جس نے اسلام کو نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کردیاتھا۔
٦١ھ کے واقعات جب نگاہ تصور میں گردش کرتے ہیں تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، کیسے عجیب و غریب حالات تھے ، کس قدر ناگفتہ بہ ماحول تھا ، کیا وہ اسلام کی تقویت کے لئے موافق تھا ، دین الٰہی ایسے حالات و ماحول کا سزاوار تھا …؟اگر غائرانہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یزید کی ظالمانہ حکومت اسلام کے نورانی چہرے پر سرخ لکیر کھینچ کر چاہتی تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے خون پسینے کی محنت ، طاقت فرسا زحمت اور ایثار و قربانی کو طاق نسیاں کے سپرد کرکے اسلام کو بے اثر بنادے ، چاروں طرف جہالت کا گہار چھا جائے ، اسلام نے بنی نوع انسان کو جس زندگی و بندگی کی نوید دی تھی وہ سرے سے ختم ہوجائے۔شراب خواری ، قمار بازی ، یاوہ گوئی ، دشنام طرازی ، چوری ، رہزنی اور دروغ و سفسطہ گوئی اس طرح عام ہوجائے کہ صدق و صفا اور اخلاق و مروت کا نام و نشان تک نہ رہے ۔ اور یقینا یزید ملعون اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب ہوجاتا اگر حسینؑ بن علی علیہما السلام صحرائے کربلا میں اپنا اور اپنے عزیزوں کا قیمتی خون دے کر دین الٰہی ، حق و صداقت اور حریت کی حفاظت نہ کرتے ، آپ نے اپنے خون سے حرمت اسلام کو پوری طرح بچایا اور اسے نئی زندگی دی :

شاہ است حسینؑ ، بادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ ، دین پناہ است حسینؑ

امام حسینؑ کی اس تحریک کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور فرمائیے کہ کیا امام کی اس تحریک اور اقدام کو صرف اسی دور کے لئے محدود کیاجاسکتاہے ؟ نہیں قطعی نہیں ، آپ کا اقدام صرف اسی دور کے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے نہیں تھا ، آپ کی تحریک کا مقصدصرف موجودہ دور کے انسانوں کو راہ مستقیم دکھانا نہیں تھا بلکہ آپ نے عالمی پیمانے پر شہادت پیش کی تھی ، اسے واقعی طورپر آفاقی اور دائمی ہونا چاہئے تھا، آنے والی ہر نسل انسانی کی سماعت میں اقدام امام کے اصلاحی نقوش کی بازگشت ضروری تھی ۔
اس تناظر میں اگر فلسفۂ محرم پر غور وفکر کیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ محرم الحرام کی عزاداری تحریک امام حسینؑ کی زندگی اور اقدام اصحاب حسینؑی کی حیات کا ذریعہ ہے ، اگر واقعات کربلا کے بعد محرم الحرام کا ایک اٹل دستورالعمل نہ ہوتا تو کائنات کے دوسرے غم کی طرح کربلا کا عظیم الشان غم بھی حوادث زمانہ کی نذر ہوکر بالکل محوہوجاتا؛ اس لئے کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ کسی بھی غم و اندوہ کی تازگی ایک مدت تک باقی رہتی ہے لیکن جیسے جیسے زندگی کے ہنگامے بڑھتے ہیں اور زمانہ آگے بڑھتا ہے اس کی تازگی مدھم پڑجاتی ہے۔ ظاہر ہے وقفے وقفے سے واقعات کی یاد دہانی سے غم میں تازگی برقرار رہتی ہے اور اس واقعہ کے اثرات دلوں میں تازہ رہتے ہیں۔

محرم کی مصروفیتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر یہ مشغولیتیں نہ ہوتیں تو آج کے اس پر آشوب دور میں واقعات کربلا کی وہ تازگی نہ ہوتی جو چودہ صدیاں گزرنے کے بعد اب بھی برقرار ہے۔اور جب وہ یہ تازگی نہ ہوتی تو وہ اصلاحی نقوش اور حق کی زریں کرنیں جنہیں امام حسینؑ نے ہوائوں کے دوش پر ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ، وہ بھی محوہوجاتی ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام مظلوم اپنی آفاقی اور جاودانی تحریک کے احیاء کے لئے ہماری عزاداری کے محتاج ہیں یا واقعہ کربلا کی شہرت ،ہماری مصروفیتوں کی محتاج ہے ، نہیں ! بلکہ یہ غم تو اسی وقت شہرۂ آفاق ہوچکاتھا جب امام حسینؑ علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اعزہ و اقارب کی شہادت پیش کی تھی ۔

حقیقت یہ ہے کہ خود اسلام اور بنی نوع انسان کو عزاداری اور محرم کے دستور العمل کی ضرورت ہے ، اگر یہ عزاداری نہ ہوتی اور عزاداری کے نام پر حقیقی مسلمان حساس نہ ہوتا تو کربلا کب کا ظالم حکومت کے بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا۔ بنی امیہ اور بنی عباس کی ظالم حکومتوں نے جس انداز سے کربلا کے واقعات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اس میں وہ یقیناً کامیاب ہوجاتے ؛ اس لئے کہ جس حکومت میں امام حسین علیہ السلام کا نام لینا عظیم جرم قرار دے دیاجائے ، کربلا کے شہیدوں اور اسیروں کی آخری آرامگاہ کی زیارت سیاسی عتاب کا موجب بن جائے ، اس میں مصائب کربلا بیان کرنے کی کس میں ہمت تھی ، ہاں !قید خانہ تھا اور ہر کربلائی قیدی ۔ لیکن اللہ رے شہادت امام حسینؑ کی حرارت ، اتنے قید و بند اور سختیوں کے باوجود تاریخ کے جھروکوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب بھی عربستان کے دو آدمی سر جوڑ کر بیٹھتے تھے تو حسینؑ مظلوم کے زریں کارنامے دہرائے جاتے اور ان واقعات کو تسلسل دیا جاتا جو کربلا کے خونیں میدان میں رونما ہوئے ۔

ظاہر ہے ظالم لاکھ مضبوط اور قوی سہی لیکن آہ مظلوم کی آگ میں وہ تپش ہوتی ہے کہ ظالم اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ نیست و نابود ہوجاتاہے :

مری سلگتی نگاہوں سے پوچھ لے کوئی
دھڑکتے دل کی کراہوں سے پوچھ لے کوئی

یہ آبِ چشم حقیقت میں آگ بھی ہیں شعور
غمِ حسینؑ کی آہوں سے پوچھ لے کوئی

آہستہ آہستہ سید الشہداء کی چھوٹی چھوٹی عزاداری نے وہ انقلاب برپاکیا کہ حکومتیں ختم ہوگئیں لیکن صدیوں بعد کربلا آج بھی ایک ابدی حقیقت بن کر زندہ ہے اور اس کے اصلاحی نقوش و پیغامات انسانوں کے لئے مشعل راہ بنے ہوئے ہیں …اور اگر محرم الحرام کا دستور العمل بہتر سے بہتر ہوتارہا تو آئندہ بھی کربلا کا عظیم معرکہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ افق کائنات پر چھایارہے گا ۔

Related Articles

Back to top button