حضرت محمد مصطفیٰ (ص)دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

اخوت؛ سیرت رسولؐ کے آئینہ میں

(سید شاہد جمال رضوی )

اخوت کی اہمیت
ایک بھائی کی زندگی میں دوسرے بھائی کی بہت زیادہ اہمیت ہے ،ایک اچھا اور دردمند بھائی دنیاوی اور مادی امور میں تو معاون ثابت ہوتاہی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنے نیک مشوروں اور اچھے اعمال و کردار سے اس کے دینی اور اخروی امور کو بھی بہتر سے بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کرتاہے ،حقیقت یہ ہے کہ ایک بھائی انسان کا قوت بازو اور اس کی مضبوط پناہ گاہ ہوتاہے،امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:جان لوکہ وہ (بھائی )تمہارا ہاتھ ہے جسے تم پھیلاتے ہو ،تمہاری پناہ گاہ ہے جس سے تم پناہ حاصل کرتے ہو، وہ تمہاری عزت ہے کہ جس کے اوپر تم اعتماد کرتے ہو اور وہ تمہاری قدرت اور قوت بازو ہے جس کے ذریعہ تم اپنے مقصود تک رسائی حاصل کرتے ہو” ۔(١)
بھائی ایسی قوت کا نام ہے جس کی ضرورت انبیاء کرام کو بھی قدم قدم پر محسوس ہوئی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تبلیغی دور میں جناب ہارونؑ نے کتنا اہم کردار ادا کیا اس کا اندازہ اس جہت سے لگایا جاسکتاہے کہ جب خداوندعالم نے جناب موسیؑ کو حکم دیا: "فرعون کے پاس جاؤ کہ اس نے نافرمانی کی ہے”۔ (٢)اس حکم کے بعد جناب موسی علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں جو دعائیں کی ہیں ان میں آپ کی یہ دعا کافی اہمیت کی حامل ہے :” معبود !میرے خاندان میں سے میرے لئے ایک وزیر قرار دے ،ہارون کوجو میرا بھائی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اور اسے میرے کام میں شریک بنادے” ۔(٣)
خداوندعالم نے جناب موسیؑ کے تبلیغی دور کی مشکلات کو پیش نظررکھ کر بھائی کی اس اہم ضرورت کو پورا کیا ،خدا فرماتاہے : ہم تمہارے بازوؤں کو تمہارے بھائی سے مضبوط کر دیں گے ۔(٤ )
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام کی بھی خاص اہمیت تھی اس اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے آپ نے کئی جگہوں پرحضرت علی علیہ السلام کو اپنے بھائی ہونے کی حیثیت سے اعلان فرمایا ۔
آپ نے تبلیغی مراحل کی بے پناہ سختیوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں دست دعا بلند فرمایا:خدایا !جب تونے میرے بھائی موسی کو تبلیغ پر مامور کیا توانہوں نے چند خواہشیں کیں جن میں سے ایک خواہش یہ تھی کہ میرے بھائی ہارون کو میرے لئے ناصر و مددگار قرار دے ،میں پیامبر خاتم اور تیرا بندہ بھی چاہتاہوں کہ موسی کی طرح میرے بھائی علی بن ابی طالب کو میرا ناصر و مددگار قرار دے ۔(٥)
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ اس اخوت کے ذریعہ آنے والے ہر انسان کوباور کرارہے تھے کہ کسی بھی کام میں ایک بھائی کی کتنی اہمیت ہے اور اپنی زندگی کی مشکلات کو برطرف کرنے میں ایک انسان کو بھائی کی کتنی ضرورت محسوس ہوتی ہے ،حتی ایک اولوا العزم پیغمبر ہی کیوںنہ ہو وہ بھی ایک بھائی کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا ۔
معاشرے میں ایک بھائی کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے صرف صلبی اور پدری بھائیوں تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اس کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے ایک مومن کو دوسرے مومن کا بھائی قرار دیاگیاہے ،خداوندعالم کا ارشاد ہے :”مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے دو بھائیوں میں صلح کروادو اور اللہ سے ڈرو شاید تم پر رحم کیاجائے "۔(٦)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے دائرۂ اخوت کو مزید وسعت دیتے ہوئے فرمایا:”مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتاہے اور نہ اسے حوادث کے حوالے کرتاہے”۔(٧)
اصل میں اسلام نے اس کے ذریعہ سے تمام افراد کو متحد کیاہے اور افتراق و اختلاف کی زنجیر کو کاٹ دیاہے ،وحدت و یگانگت کی بنیادوں کومضبوط بنانے کے لئے ایمانی معاشرے کے افراد کوبھائی بھائی قرار دیاہے ،اس لئے کہ انسانوں کے درمیان اخوت و برادری سے زیادہ کوئی اور مضبوط رشتہ نہیں ہے ،باپ بیٹے کا رشتہ اگر چہ بھائی کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے مگر باپ بیٹے میں کامل مساوات نہیں ہے ،احترام و شخصیت کے لحاظ سے ان میں برابری مفقود ہے یہ بات توصرف برادری کے اندر ہے اور یہی وہ رشتہ ہے جو دو انسان میں ایک ہی سطح پر اور ایک ہی افق زندگی میں شدید دل بستگی اور کمال علاقہ مندی کا اظہار کرتاہے ،اسی لئے قرآن مجید محبت کے عالی ترین مرتبہ کوقائم کرتے ہوئے ہر مسلمان کو ایک دوسرے کا بھائی کہتاہے اور اس تعبیر سے اسلامی معاشرے کے افراد میں لطیف ترین دوستی اور بہترین مساوات کی راہ نمائی کرتاہے ۔

اسلامی معاشرہ میں اخوت کا فقدان
عہد حاضر میں علمی و صنعتی ترقی نے حیات بشر کو بدل کر رکھ دیاہے ،زندگی کے تمام شعبوں میں جو صنعتی تکامل اور عجیب و غریب تحول پیدا ہوگیاہے اس نے تاریکیوں کو روشن اور مشکلات کو آسان بنادیاہے ،آج کا انسان کبھی دریاؤں کی بے پناہ گہرائیوں سے زندگی کے لئے در نایاب حاصل کررہاہے تو کبھی آسمانوں کی بلندی پر پہنچ کر چاندتاروں میں بسنے کی باتیں کرتاہے لیکن ان تمام تر ترقیوں نے انسانوںکو ایمان و تقوی کی سرحدوں سے کافی دور پہنچادیاہے،انسانی افکار وخیالات مادی مسائل میں اس طرح مرکوز ہوچکے ہیں کہ روحانی اور معنوی مسائل کو ایک نظر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں۔ہر شخص اپنی ایک الگ دنیا بسانے کے فراق میں رات دن محنت کا مظاہرہ کررہاہے ۔اس کا نظریہ ہے کہ دنیا جائے بھاڑ میں ،بس اپناالو سیدھا ہونا چاہئے۔نتیجہ کے طور پر وہ آئے دن جرم و گناہ کے دلدل میں دھنستا جارہاہے ۔
ہم دنیا والوں پر کیاآنسو بہائیں! خود مسلمانوں کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ اپنی دنیا سے نکل کر اپنے ارد گرد ہزاروں،لاکھوں تڑپتے، سسکتے، بے حال مسلمانوں کو ایک نظر دیکھ لیں،ان سے رابطہ بڑھاکر ہمدردی کا مظاہرہ کریں،ان کے دکھ سکھ کومحسوس کریں اور حتی الامکان ان کی زندگی کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
آج کا مسلمان جیسے جیسے مادی امور کی طرف آگے بڑھ رہاہے اسکے اندر سے اخوت ،بھائی چارگی ،دوستی اور مہر ومحبت کے جذبات بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔
اسلامی اخوت تو دور کی بات ہے خود حقیقی بھائیوں میں اخوت مفقود ہے ،آج دو حقیقی بھائیوں کے درمیان چند مادی چیزوں کے لئے اختلاف ہے ،زمین ،جائیداد ،گھر اور دولت و ثروت کی وجہ سے بڑھتے ہوئے یہ اختلاف کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے،کبھی کبھی تو یہ اختلاف اتنا شدید ہوجاتاہے کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور بالآخر اپنے منحوس مقصد میں کامیاب ہوکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں،ان لمحاتی خوشی صرف اسی کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ وہ معاشرہ بھی اس کے منفی اور نقصان دہ اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتا جس میں وہ زندگی گذاررہاہوتاہے ۔
کہاں گیا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کاوہ درس اخوت ۔جس نے کل کے ضدی عرب بدوؤں کو ایک اچھی زندگی کی نوید دی تھی ،جس نے عربوں کے خون میں وہ حرارت پیدا کردی تھی کہ مٹھی بھر آدمیوں نے دیکھتے دیکھتے آدھی دنیا کو مسخر کر کے اپنے خاک نشین کملی والے تاج دار کے قدموں میں لاکر ڈال دیاتھا…؟

رسول اعظمؐ اور ترویج اخوت و برادری
اسلام اخوت اور باہمی الفت کا دین ہے اور ایسے تعلقات کا بہترین نمونہ ہے کہ جن پر سچے بھائی چارے کی بنیاد قائم ہے ،اسی لئے رہبران دین و شریعت نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس اسلامی اخوت کی طرف توجہ دلائی ہے، خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صدر اسلام میں مسلمانوں کے درمیان رشتۂ اخوت برقرار کرکے اگر ایک طرف مسلمانوں کے بازوئوں کو مضبوط کیا تو دوسری طرف اس اخوت کے وسیلہ سے دین اسلام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا۔رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کا رشتۂ اخوت وبرادری بر قرار کرنا کسی ایک دور سے مخصوص نہیں تھا بلکہ آپ نے قیامت تک کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیاہے اور اس کے ذریعہ ہر دور کے مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔آج جب کہ زمانہ ترقی کی اونچی اڑان اڑرہاہے تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کا وہ درس اخوت ہمیں بار بار آواز دے رہاہے کہ تمہارے صرف مادری و پدری بھائی نہیں ہیں،تم صرف اپنے رشتہ دار بھائیوں کو اپنا بھائی تسلیم نہ کروبلکہ تمہارے ہمراہ معاشرے میں زندگی گذارنے والا ہر مومن اور مسلمان تمہارا بھائی ہے جس طرح تم اپنے حقیقی بھائیوں کی ضروتیں پوری کرنے میں اپنی تمام تر کوششوں کا مظاہرہ کرتے ہو ،ایک مومن کی ضرورتیں بھی پوری کرو اس لئے کہ وہ تمہارا بھائی ہے ۔
چونکہ اسلام میں اخوت کا اصل معیار باہمی حقوق کی رعایت ہے اس لئے حقوق کے سلسلے میں کسی قسم کی سستی رابطۂ اخوت پر منفی اثر ڈالتی ہے جس کا لازمی نتیجہ طرفین کے تعلقات کا خراب ہونا ہے بلکہ بسا اوقات یہ دشمنی روح میں پیوست ہوجاتی ہے جس کااثر قطع تعلقی اور ظلم و جفا پر جاکر تمام ہوتاہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اخوت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک بھائی کے حقوق کو پورا کرنے کی بھرپور تاکید کی ہے ،آپ حضرت علی کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:لا تضیعن حق اخیک اتکالا علی مابینک و بینہ فانہ لیس لک باخ من اضقت حقہ”دوستی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کا حق ضایع نہ کرو ،وہ تمہارا بھائی نہیں جس کا تم حق ضایع کرو”۔(٨)
آپ اپنی زندگی میں ایک دینی بھائی کے حقوق کی رعایت کرنے میں کافی حساس تھے،چنانچہ آپ کا معمول تھا کہ اگر ایک دن تک اپنے دینی بھائی کو نہیں دیکھتے تو اس کے متعلق سوال کرتے تھے اگر وہ غائب ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے اور اگر موجود ہوتا تو اس سے ملنے کے لئے جاتے تھے یا اگر بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کرتے ۔(٩)
جو لوگ ایک مومن بھائی سے قطع رابطہ کرکے اس کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے ان کے متعلق رسول اسلامۖ فرماتے ہیں:اگر دو مسلمان ایک دوسرے سے دوری اختیار کرلیں اور یہ مفارقت تین دنوںتک جارہی رہے اور وہ دونوںآپس میں صلح و آشتی نہ کریں تو وہ لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں،ان کے درمیان سے دوستی کا رشتہ ختم ہوجاتاہے ۔اور اگران میں سے کوئی ایک رابطہ برقرار کرنے میں سبقت کرے تو ایسا شخص قیامت میں بھی بہشت میں جانے میں مقدم ہوگا ۔(١٠)
آپ نے قیامت تک کے مسلمانوں کے درمیان رشتۂ اخوت برقرار رکھنے کے لئے کچھ ایسے عوامل کی نشاندہی کی ہے جن کی بھرپور رعایت کرنے سے لوگوںکا رشتۂ اخوت سالم رہ سکتاہے ،جن کو اختصار کے ساتھ یہاںتحریر کیاجارہاہے ۔

١۔ اخلاق حسنہ
اخلاق حسنہ کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی بعثت کا ہدف اخلاقیات کی ترویج و تکمیل قرار دیاہے ،آپ فرماتے ہیں:انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ (١١)
اس اخلاق حسنہ کے اہم ترین فوائد میں سے ایک یہ ہے اس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان شدید دوستی اور برادری کا جذبہ پیدا ہوتاہے ،رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:حسن الخلق یثبت المودة”اچھا اخلاق دوستی اور محبت استوار کرتا ہے”۔ (١٢)

٢۔ایثا ر وفداکاری
الفت و محبت اور آپسی رابطہ برقرار کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ”ایثار وفداکاری ”ہے ،حضرت علی فرماتے ہیں:بالایثار علی نفسک تملک الرقاب”ایثار اور فداکاری کے ذریعہ دوسروں کو اپنا بندہ بناسکتے ہو”۔(١٣)
ایثار وفداکاری رسول اسلام کی زندگی کا خاصہ تھا ،آپ اپنی واجب ضرورتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے دوسروں کی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور ان کی خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتے تھے ،اس ایثار کا نتیجہ آپ نے دیکھا کہ لوگوں نے اس ایثار کی وجہ سے اپنے دلوں میں رسول اسلام کی قربت و محبت اس طرح محسوس کی کہ اپنا آبائی دین چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔

٣۔زیارت و ملاقات
رشتۂ اخوت کو مستحکم کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ”زیارت اور ملاقات ”ہے ،عام طور سے دیکھا گیاہے کہ دوسروں سے ملاقات کرنے سے جہاںاپنے دل کو خوشی محسوس ہوتی ہے ،وہیں دوسرے کا چہرہ بھی بشاش ہوجاتاہے اور وہ یہ محسوس کرتاہے کہ اس کائنات میں اپنی خیرخیرت پوچھنے والا کوئی ہے ،رسول اسلام کا ارشاد گرامی ہے:الزیارة تنبت المودة”زیارت دوستی اور اخوت میں ترقی کا سبب ہے ”۔(١٤)آپ نے ملاقات کے سلسلے میں اسلامی طریقے کی رعایت کرنے کی خصوصی تاکید کی ہے ،آپ فرماتے ہیں:اگر تم اپنے مسلمان بھائی کو دوست رکھتے ہو تو ملاقات کے وقت اس کا نام ،اس کے والد کا نام ،قوم قبیلہ اور اس کے خاندان کے متعلق سوال کرو کہ یہ واجب حق اور رابطۂ اخوت میں صداقت و استواری برقرار کرنے میں اہم شیٔ ہے ورنہ اس کے بغیر یہ آپسی آشنائی اوراحمقانہ رابطہ ہے کہ دو افراد دوستی کا اظہار کریں لیکن ایک دوسرے سے کوئی اتہ پتہ نہ پوچھیںاور بدیہی امور کے متعلق سوال نہ کریں۔(١٥)
آج کی دنیا میں ہائے ہیلو کا رواج ہے ،لوگ ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے آشنا ہو تے ہیں لیکن آج کے لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ روش بہت پہلے اسلام میں رائج تھی اور اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ خصوصی تاکید فرماتے تھے ،افسوس تو آج کے مسلمانوں پر ہے جو اسلامی روش کو آہستہ آہستہ فراموش کررہے ہیں،آج جب ملتے ہیں تو ہاتھ ہی بہت مشکل سے اٹھاپاتے ہیں چہ جائیکہ ان کی خیر خیریت دریافت کریں ۔آج پھر اس روش کو زندہ کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کے درمیان رشتۂ اخوت مضبوط ہو سکے ۔

٤۔اصلاح
انسان خطا و نسیان کا پیکر ہے اس کی زندگی میں کچھ ایسے موڑ آتے ہیںجہاں وہ غلطی اور خطا کا مرتکب ہوجاتاہے ،دومسلمان بھائی بھی معاشرتی پریشانیوں کی وجہ سے آپسی اختلاف کے شکار ہوجاتے ہیں ایسے عالم میں انہیںان کی حالت پر چھوڑدینا نقصان دہ ہے ان کی اصلاح اور ان کے درمیان صلح و آشتی کرانا ضروری ہے ،خداوندعالم کا ارشادہے :”مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو”۔(١٦)

حوالہ جات
١۔آئینہ ٔ حقوق ص٣٦٣
٢۔طہ٢٤
٣۔طہ ٢٩۔٣٢
٤۔قصص ٣٥
٥۔ برہان ج١ ص٤٨١ ح١٠
٦۔حجرات ١٠
٧۔مہجة البیضاء ج٣ ص ٣٣٢
٨۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٦ص١١٠
٩۔بحارالانوار ج١٦ ص٢٣٣
١٠۔مصادقة الاخوان ص٤٨،نقل از سیری در رسالۂ حقوق امام سجاد ج٢ ص٤١٧
١١۔میزان الحکمة ج١ص٨٠٥
١٢۔میزان الحکمة ج٣ ص ١٥١
١٣۔غرر الحکم ص٣٩٦ ح٩١٦٩
١٤۔بحار الانوار ج٧٤ ص٣٥٥
١٥۔مصادقة الاخوان ص٧٢،نقل از سیری در رسالۂ حقوق امام سجاد ج٢ ص٤١٧
١٦۔حجرات ١٠

Related Articles

Back to top button