دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

قیام حسینی کے اسباب

(سید ظہیر عباس رضوی الہٰ بادی)

عالم کائنات کے اندر وجود میں آنے والے تمام قیام کسی نہ کسی اسباب و عوامل کے ماتحت ہوتے ہیںخواہ وہ علل واسباب الٰہی ہوں یا شیطانی ، انسانی ہوں یا حیوانی ، مادی ہوں یا معنوی ….
لہٰذا ہر مفکر اپنی فکری طاقت اور ہر صاحب قلم اپنی قلمی قوت کو بروئے کار لا کر کسی قیام کے علل و اسباب کو صفحہ قرطاس کے حوالے کرتا ہے ۔
لیکن ہم اپنی نادانی و ناتوانی ، بے بضاعتی و کم علمی کے اعتراف کے ساتھ قیام حسینی کے اسباب و عوامل کو حسینی افکارو نظریات اور زبان و بیان کے سانچہ میں ڈھالنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے ۔
چونکہ امام حسین کا مقدس قیام ، قرآنی و الٰہی قیام کا آئینہ دار ہے( اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنَیٰ وَ فُرَادَیٰ)(١)بلکہ قیام حسینی قرب خداوندی کے حصول کے لیے ہے چونکہ نیت خالص اور ارادہ پاک تھا المختصر نیت ہی عبادت کو عادت اور عادت کو عبادت کے سانچہ میں ڈھالتی ہے ”انما االاعمال بالنّیات و انما لکل امرء ما نویٰ ”(٢)
حسینی قیام جاہ و حشم ، اقتدار و مقام ، مال و منال کے لیے نہیں تھاچونکہ امام حسین علیہ السلام اس علی علیہ السلام کے فرزند ہیں کہ جنہوں نے مسئلہ خلافت کے حصول کے مقاصد بارگاہ خداوندی میں یوں بیان کئے :” اللھم انک تعلم …”(٣)
خدایا! تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو قدم اٹھایا ہے اس میں نہ تو سلطنت کا لالچ تھی نہ ہی مال دنیا کی ہوس میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچاؤں اور شہروں میں اصلاح پیدا کروں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں ” (٤)
وقت قیام جنت فردوس نہیں بلکہ مشیت خدا، رضایت الٰہی ونبوی نگاہوں میں تھی: ” ان اللہ تعالیٰ شاء ان یراک قتیلا … اخترت لی ما ھو لک رضا ً و لرسولک رضاً” (٥)
قیام حسینی بغاوت وخودخواہی اور انتشار وتباہی کے لئے نہ تھا بلکہ قیام حسینی کا اصل مقصد امت جد کی اصلاح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، احیائے سیرت نبوی و علوی تھا: ”انی لم اخرج اشرا ولابطرا ولا مفسدا و لاظالما، انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، ارید ان آمر بالمعروف انھیٰ عن المنکر واسیر بسیرة جدی وابی علی ابن ابیطالب”(٦)

مطالبہ بیعت
مرگ معاویہ کے بعد یزیدنے خلافت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کے نام خط لکھا کہ: ”خذ البیعة علیٰ اہل المدینة و خذ الحسین… بیعة شدیدا” اہل مدینہ بالخصوص حسین سے بیعت لے لو اور اگر بیعت نہیں کرتے تو سر قلم کرکے بھیج دو(٧)
ولید نے حسین ابن علی کو دربار میں طلب کیااور آپ کے سامنے بیعت یزید کی پیشکش رکھی امام حسین نے قدرے تیکھا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”مثلی لایبایع سرا”(٨)
مجھ جیسا انسان یزید کی مخفیانہ بیعت نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اعلانیہ بیعت کرے یہ سن کر ولید کی بولتی بند ہو گئی مگر اتنے میں مروان بول پڑا: ولید! حسین سے بیعت لے لے یا گردن اڑا دے ، ابھی مروان کے جملے ناتمام تھے کہ امام حسین نے قدرے سخت لہجے میں کہا: ”یابن الزرقائ!” اے فاحشہ کے بیٹے !تیری یہ مجال… موقع ملتے ہی امام حسین نے مخالفت بیعت کے راز کو بیان کرنا شروع کیا: ہم معدن رسالت ، محل رفت وآمد ملائکہ اور نزول رحمت الٰہی کامخزن ہیں؛ اور یزید شرابی و قاتل،فاسق و فاجر انسان ہے،ایک بار پھر کان کھول کر سن لے… ”مثلی یا یبایع مثلہ”مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔(٩)
امام حسین نے محمد حنفیہ کو مخاطب کر کے فرمایا : میرے بھائی ! اگر دار دنیا میں حسین بن علی کے لئے کوئی پناہ گاہ اور ٹھکانہ نہ بھی ہو تب بھی میں یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دوں گا :” یا اخی لو لم یکن الدنیا ملجأ و لا مأویٰ فلا بایعت یزید بن معاویة ”(١٠)ور کیسے حسین یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے جو کہ شیطانی صفات کا مجسمہ ، نمرودی اوصاف کا نمونہ ، قارونی عادات کا جرثومہ اور فرعونی مزاج کا پتلہ تھا جبکہ حسین صفات خداوندی کے مظہر ، اخلاق نبوی کے پیکر ، آثار علوی و ایثار فاطمی کے خوگر تھے لہٰذا حسین نے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کوترجیح دی اوراسی کو سربلندی کا معیار سمجھا اور اپنے عملی قیام کے ذریعہ رہتی دنیا کو بتلا دیا کہ حسینی مکتب میں باطل کے سامنے سر جھکانے کی کوئی سیرت نہیں پائی جاتی ہے ۔

دعوت اہل کوفہ
اہل کوفہ کے مسلسل اصرار اور پے در پے ملنے والے خطوط کی بنا پر آپ نے اپنے چچا زاد بھائی جناب مسلم بن عقیل کو سفیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ کوفہ کے حالات سے باخبر کریں جناب مسلم نے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے حسین بن علی کو کوفہ تشریف لانے کا مشورہ دیا آپ مکہ چھوڑنے سے قبل اہل کوفہ کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے مسلم بن عقیل کا ارسال کردہ خط ملا جس میں تم نے ہماری نصرت کے لیے اظہار آمادگی کیا ہے ۔۔۔ اگرچہ کوفیوں کی دعوت نے حسین بن علی کے ظاہری راستے کو معین کیا تھا مگر باطنی سفر کا آغاز پہلے ہی ہو چکا تھا اگربالفرض اہل کوفہ دعوت نہ بھی دیتے تو بھی تحریک حسینی نہ رکتی ۔
ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ جب دوران سفرامام حسین علیہ السلام کو جناب مسلم کی شہادت کی خبر مل گئی توامام حسین نے راستہ کیوں نہیں بدلا ؟ تو جواباً عرض ہے کہ کوفیوں کی دعوت نے امام پر حجت تمام کر دی تھی لہٰذا اگرامام حسین منزل ” زُرود ” سے راستہ بدل دیتے تو اہل کوفہ کو بہانہ مل جاتا کہ جب آپ نے ہماری دعوت پر لبیک ہی نہ کہا تو ہم آپ کی نصرت کیسے کرتے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب منزل ” شُراف ” پرلشکر حر سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا : میں خود نہیں آیا ہوں تم لوگوں نے مجھے خط بھیج کر بلا یا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ ہمارے پاس کوئی امام نہیں ہے ہمیں امام اور پیشوا کی ضرورت ہے… لیکن اگر میرا آنا تمہارے لئے ناگوار ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ (١١)
لہٰذا یہ قبول کرنا پڑے گا کہ حسینی تحریک و قیام کا بنیادی کردار اہل کوفہ کے خطوط اور ان کے دعوت نامے ہیں چونکہ امام حجت تمام کرنا چاہتے تھے ۔

امت محمدی کی اصلاح
اصلاحی مراحل میں انبیاء اور اولیاء پیش پیش نظر آتے ہیں چنانچہ جناب شعیب اصلاح کو اپنی اصلی ذمہ داری سمجھتے ہیں:” ان ارید الا الاصلاح”(١٢)اصل اصلاح قوم کی فکری اور ذہنی تربیت ہے (١٣) لہٰذا مصلح قوم الٰہی اجر و ثواب کا مستحق ہے (١٤) اور قابل تعریف و تمجید بھی (١٥)
لہٰذا مصلح امت کا صالح ہونا لازم ہے ، لوگوں کی اصلاح کرنے سے پہلے ہر مصلح کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے ورنہ جس نے اپنے نفس کی اصلاح نہیں کی ہو وہ دوسروں کی کیا اصلاح کرے گا :” کیف یصلح غیرہ من لا یصلح نفسہ ”(١٦)
گویا ہر اصلاحی قیام و تحریک کے لئے ایک صالح و مصلح رہبرکی ضرورت ہے کہ جوکم سے کم مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو ۔
١۔ مصلح اپنی اصلاحی تحریک کے اثرات و نتائج سے بخوبی آشنا ہو ورنہ امت مشکل میں گرفتار ہو جائے گی:”عشرہ یفتنون انفسھم و غیرھم یرید الصلاح و لیس بعالم” دس میں سے ایک مصلح ناداں ہے جو خود کو اور دوسروں کو گرفتاری میں ڈال دیتا ہے (١٧) لہٰذا مصلح دانا ، طبیب توانا کی طرح پہلے درد کو سمجھے پھر درمان کرے ۔
٢۔ مصلح حق طلب و حق پسند ہو تاکہ اس کی ساری اصلاحی تحریکیں حق و حقانیت کی بنا پراستوار ہوں ۔ نفس کا بندہ ، مال کا خواہاں اور دنیا کا دلدادہ نہ ہو تاکہ ” کسی کی بزرگی بھی نفاذ حق کے لئے رکاوٹ نہ بن سکے (١٨) حق طلب نے باطل پسند کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے للکارا : ” ألا ترون ان الحق لا یعمل بہ و ان الباطل لا یتناھی عنہ”(١٩) بالکل اندھے ہو گئے جبکہ حق پامال ہو رہا ہے اور باطل سر اٹھا رہا ہے۔
٣۔ مصلح کے لئے لازم ہے کہ وہ صادق و مخلص ہو ۔ دل میں کھوٹ اور زبان پر جھوٹ نہ ہو اصلاحی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے نتیجہ کی فکر نہ کرے بلکہ خدا پر چھوڑ دے : ”الٰھی رضاً بقضائک و تسلیما لامرک” (٢٠)
حسینی قیام کے اہم عناصر میں سے دو عنصر” حاکم اور عوام کی اصلاح”ہے ۔
١۔ نا اہل حاکم بر سر اقتدار نہ آئے ۔
٢۔ نادان عوام ، سنت و بدعت ، خیر و شر ، نیک و بد… سے بے خبر نہ رہیں ؛ اب حسین اصلاح امت محمدی کے لئے نکلے: ”انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی” (٢١)
سر زمین منیٰ پر پہنچ کر اپنے ایک خطبہ میںاصلاحی قیام کے چاراہم اہداف ومقاصد کی جانب اشارہ کیا:
١۔ منزلت دین : دین کے آثار کو منزل مقصود تک پہنچانا ۔ ” لنرو المعالم من دینک ”۔
٢۔ تربیت قوم :اصلاحی ضابطہ اور ڈھانچہ قوم کے سپر د کرنا ” و نظہر الاصلاح فی بلادک ”۔
٣۔ امنیت جان : مظلوموں کو ظالم کے خونی پنجوں سے زندہ و سلامت نکالنا ” فیا من المظلوم من عبادک ”۔
٤۔ دعوت عمل : بے عمل لوگوں کو فرائض و سنن نیز احکام الٰہی پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دینا ” و یعمل بفرائضک وسنتک و احکامک” (٢٢)
حسین کی اصلاحی تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ یزید اور یزیدی افراد”مفسد فی الارض” کی عملی تفسیر ہیں اور حسین و حسینی افراد ”مصلح علی الارض ”کے مصداق کامل ہیں کہ جنہوں نے خواب غفلت میںپڑے ہوئے لوگوں کو بیداری ، مردہ ضمیروں کو زندگی اور غفلت زدہ افراد کو تازگی بخشی ۔

احیائے سیرت نبوی و علوی
مجسمہ فضائل و کمالات حسین بن علی کا قیام رذائل کے پیکریزید بن معاویہ کے مقابلہ میں تھا جو اپنے باپ دادا کی سیرت کا علمبردار تھا جو اموی و سفیانی سیرت کو زندہ رکھنے اور سیرت نبوی و علوی کو پس پشت ڈالنے کی سعی میں مشغول تھا لیکن وارث سیرت نبوی وعلوی نے اٹھ کے بتلایا کہ ہم ذلت کو قبول کرنے والے نہیں ہیں: ”ھیھات منا الذلة”(٢٣) بلکہ عزت ہمارا حق اوروطیرہ ہے :” للہ العزة و لرسولہ و للمؤمنین” (٢٤)
لہٰذا فرمایا : قسم بخدا ! نہ ذلیل لوگوں کے مثل بیعت کروں گا نہ غلاموں کی مانند راہ فرار اختیار کروں گا: ” لا و اللہ لا اعطیھم بیدی اعطاء الذلیل و لا افرّ منھم فرار العبید” (٢٥)عزت کی موت مر جانا ذلت کی زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے :”الموت فی عز خیر من حیاة فی ذل” (٢٦)
اگر مسلمانوں کا رہبر یزید جیسا فا سق و فاجر شخص ہو تو ایسے اسلام کو دور سے سلام ہو ” و علی الاسلام السلام” (٢٧) ہمیں ایسا اسلام نہیں چاہیئے جس میں شراب و کباب ، فسق و فجور ، اورچوری وغیرہ ہو اور جس کا حاکم شرابی و جواری ، فاسق و فاجر ہو۔

احیائے کتاب و سنت
دور یزید میں حاکم سے لے کر عوام تک کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں کتاب و سنت کا مذا ق اڑا یا جا رہاتھا جب کہ قرآنی اعلان کے مطابق ایک فرد کی زندگی ، معاشرہ کی زندگی ہے 🙁 من احیاھا فکانّما احیا الناس جمیعا) (٢٨)جبکہ معاشرہ کی زندگی احکام الٰہی کے نفاذ میں ہے: ( وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاة)(٢٩)پھر خدا و رسول کی دعوت پر استجابت حیات ابدی کا باعث ہے:( یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ) (٣٠)
حسینی قیام ، امت اسلامی کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور کتاب و سنت کو معاشرہ میں زندہ کرنے کے لیے تھا۔
لہٰذا اہل بصرہ کے نام لکھے گئے خط میں امام نے انہیں کتاب الٰہی و سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی کیوں ؟ چونکہ اس وقت سنت حسنہ مردہ نیز بدعت و جاہلیت کی رسومات کو زندہ کیاجا رہا تھا ”و انا ادعوکم الیٰ کتاب اللہ و سنة نبیہ فان السنة قد امیتت و ان البدعة قد احییت”(٣١)
اہل کوفہ کی دعوت پر لبیک کہنے کا حسینی مقصد ، آثار حق کو احیاء اور بدعت کو مردہ بنانا تھا :”ان اقدم علیھم لما رجوا من احیاء معالم الحق و اماتة البدعة” (٣٢)راہ احیاء کتاب و سنت پر حسین بن علی نے بغیر کسی شک و تردید کے قدم آگے بڑھایا چونکہ احیائے حق اور اماتِ باطل کے لیے قیام کرنا دینی فریضہ ہے تبھی تو فرمایا : ”ما اھون الموت علی سبیل نیل العز و احیاء الحق”(٣٣)
٦۔ احیائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر : جب وقت کا شیطانی نمائندہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنانے پر تلا تھا تو تب الٰہی نمائندہ نے منشور قیام کی تسبیح میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دلکش دانہ پروتے ہوئے فرمایا :” ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر”(٣٤)میں امر بہ معروف و نہی از منکر کے ارادہ سے اٹھا ہوں اور یاد رکھو قرآن کی روشنی میں ”امت خیر ”وہی ہے جو لوگوں کو نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے (کُنْتُمْ خَیْرَ ُمَّةٍ ُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ)(٣٥)
اور یہی گروہ نجات یافتہ ہے ۔ (وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ ُمَّة یَدْعُونَ ِلَی الْخَیْرِ وَیَْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ)(٣٦)اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو نظر انداز کر دیا گیا تو پھر تو برائیاں عام ہوجائیں گی اور نیکیوںکو پس پشت ڈال دیا جائے گا ” انّ الدنیا قد تغیرت و تنکرت و ادبر معروفھا ” دور یزید میں بدلے ہوئے افکار و عقائد کا اندازہ اسوقت کی بد اعمالیوں سے لگایا جا سکتا ہے جب حلال خداوندی کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال قراردیا جا رہا تھا :” و احلّہ حرام اللّٰہ و حرّموا حلالہ” (٣٧)
ایسے پر خطر ماحول اور پر آشوب حالات میں صرف قلبی اور زبانی مخالفت کافی نہیں تھی بلکہ عملی میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت تھی اور یہ وہی کر سکتا ہے جو نیکیوںکو دوست اور برائیوں کو دشمن سمجھتا ہو :” اللھم انّی احب المعروف و انکر المنکر” (٣٨)
ورنہ دشمنان دین نے دنیا پرستی اور عیش پسندی کی خاطر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا گلا گھونٹ دیا تھا مگر نگہبان دین نے اسے دوبارہ حیات عطا کی ۔
اور یہ اعلان کر دیا کہ احیائے امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی راہ میں موت بھی سعادت ہے ”انّی لا اری الموت الّا سعادة”اور ظالموں کے ساتھ حیات میں بھی ذلت و ملامت ہے ”و لا ا لحیا ة مع الظّالمین الّا برماً ”(٣٩)
امر بہ معروف و نہی عن المنکر ہر دور میں بشریت کی نجات کاضامن رہا ہے اگر کوئی کشتی سوار ، کشتی میں سوراخ کرنے لگے تو کشتی میں بیٹھا ہوا ہر ایک شخص اسے روکے گا کہ سوراخ نہ کرو ورنہ ہم سب ڈوب جائیں گے اگر وہ جسورشخص جواباًکہے کہ میں تو اپنی جگہ پر سوراخ کر رہا ہوں آپ لوگ کون ہوتے ہیں ؟ یہ کہہ کہ پھر اپنی تخریب کاری میں لگ جائے تو کشتی کا نا خدا اٹھے گا اور اس کے دست ظلم کو کاٹ دے گا ۔
یہی کچھ حسین بن علی کے ساتھ ہوا یزید کشتی اسلام میں سوراخ کرنا چاہتا تھا تاکہ امت اسلامی ڈوب جائے مگر مصداق ”سفینة النجاة”(٤٠)نے بر وقت قیام کر کے تخت یزیدی کو پلٹ کر کشتی نجات پر سوار امت اسلامیہ کو ڈوبنے سے بچا لیا ۔

حسن ختام
معارف الٰہی کا خلاصہ عقائد و اخلاق و احکام میں ہوتا ہے ۔
عقیدہ کے اعتبار سے یزید کی حکومت قابل قبول نہیں تھی چونکہ یزید کی حاکمیت پر ولایت الٰہی کی مہر تصدیق ثبت نہیں تھی بلکہ اسکی ولایت شیطانی کی مصداق کامل تھی ۔
اخلاقی نکتہ نظر سے یزید پلید ، نجاست و خباثت فسق و فجور کا مجسمہ تھا جبکہ امام حسین طہارت و نجابت ، اخلاص و ایثار کا مجسمہ تھے امام حسین یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کے احمقانہ و غیر عاقلانہ کاموں کی تائید و تصدیق نہیں کر سکتے تھے احکام عملی کی رو سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اصلاح امت محمدی اور احیائے سیرت نبوی و علوی حسین کاایک الٰہی فریضہ تھا۔

حوالہ جات:
١۔سورۂ سبا ٤٦۔
٢۔ صحیح بخاری: ج١، ص ١٧، ١٨ باب کیف کان بدء الوحی۔
٣نہج البلاغہ:خطبہ ١٣١ ۔
٤َ۔ہج البلاغہ ترجمہ علامہ جوادی :ص ٢٥٣۔
٥۔رہ توشہ ویژہ محرم ١٤٢٠ :ص ١٣٤۔
٦۔بحارالانوار: ج ٤٤، ص ٣٢٩ ۔
٧۔ مقتل مقرم :ص ١٢٨۔
٨۔ مقتل مقرم: ص١٣٠۔
٩۔ بحارالانوار: ج ٤٤، ص ٣١٢ ۔
١٠۔مقتل مقرم: ص ١٣٥
١١۔مقتل مقرم :ص ١٨٣ ۔ بحارالانوار: ٤٤ ،ص ٣٧٦۔
١٢۔سورۂ ھود ٨٨۔
١٣۔سورۂ ہود ١١٧۔
١٤۔ سورۂ اعراف ١٧٠۔
١٥۔سورۂ بقرہ ١٦٠ ۔ سورۂ عمران ٨٩۔سورۂ نسائ ١٤٦ ۔سورۂ نحل ١١٩۔ سورۂ نور ٥۔
١٦۔میزان الحکمة: ج ١٠، ص ١٤٦۔
١٧۔الحیاة: ج ١، ص ٣٧ ۔
١٨۔ غرر الحکم :ج١، ص ٣٢٨۔
١٩۔لھوف: ص٣٥۔
٢٠۔از مباہلہ تا عاشورا :ص١٣٥۔
٢١۔ بحارالانوار:ج ٤٤۔ ص ٣٢٩۔
٢٢۔فرہنگ جامع سخنان امام حسین : ص ٣١٢۔
٢٣۔ مقتل مقرم: ٨٤۔
٢٤۔سورۂ منافقون ٨۔
٢٥۔مقتل مقرم: ٢٢٩ ۔ بحارالانوار: ج ٤٤، ص ١٩١۔
٢٦۔مناقب ابن شہر آشوب: ج ٤، ص ٦٨۔
٢٧۔ مقتل مقرم: ١٣٣۔
٢٨۔سورۂ مائدہ ٣٢۔
٢٩۔سورۂ بقرہ ١٧٩۔
٣٠۔سورۂ انفال ٢٤۔
٣١۔تاریخ طبری :ج ٥، ص ٣٥٧ ۔
٣٢۔اخبار الطوال: ص ٣٤٦۔
٣٣۔اعیان الشیعہ: ج١، ص ٥٨١۔
٣٤۔بحار: ٤٤ ،ص ٢٣٩۔
٣٥۔آل عمران ١١٠۔
٣٦۔سورۂ آل عمران ١٠٤۔
٣٧۔مقتل مقرم ١٨٥
٣٨۔ بحارالانوار: ج٤٤ ،ص ٣٢٨۔
٣٩۔تحف العقول:ص ٢٤٥۔
٤٠۔بحارالانوار: ج ٣٦، ص٢٠٤۔

Related Articles

Back to top button