دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

منازل امام حسین علیہ السلام کا اجمالی تعارف

(سید راقب حسین)

امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے کربلائے معلی تک جو سفر، استحکام اور تکمیل دین اسلام کی خاطر اختیار کیا تھا اس میں حضرت نے کئی منازل پر نزول فرمایا تھا ۔ ان منازل کے نام،تعداد، ترتیب اور واقعات کے متعلق علمائے تاریخ میں اختلاف ہے۔
فہرست منازل سفر امام حسین علیہ السلام بمطابق مقتل ابی مخنف مندرجہ ذیل ہے: ١۔مکہ ٢۔مدینہ ٣۔ذات عرق ٤۔ بطن رملہ کا مقام جنایہ ٥۔منزل زبالہ ٦۔ثعلبیہ ٧۔عذیب الحجانات ٨۔قصر بنی مقاتل ٩۔کربلا۔
جب کہ علامہ مجلسی نے جلاء العیون میں منازل کی تعداد ١٣ بتائی ہے جو درج ذیل ہیں:
١۔مکہ ٢۔تنعیم ٣۔مقام ثعلبیہ ٤۔ مقام عذیب ٥۔ مقام رہمیہ ٦۔مقام حاجز ٧۔مقام خزیمہ ٨۔مقام زبالہ ٩۔مقام بطن عقبہ ١٠۔مقام اشراف ١١۔قصر بنی مقاتل ١٢۔ قطقطانیہ ١٣۔کربلائے معلی۔
ہم یہاں پر چند منازل اور وہاں پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ وہ منازل ہیں جن کو علامہ مجلسی نے اپنی کتاب جلاء العیون میں نقل کیا ہے۔

مکہ:
فرزدق سے روایت ہے کہ میں ٦٠ھ میں حج کرنے کے ارادے سے اپنی ماں کے ساتھ مکہ معظمہ جارہا تھا۔ میں اپنی ماں کے اونٹ کو ہانک رہا تھا۔ اسی اثنا میں جب میں حرم میں داخل ہوا. میں نے دیکھا ایک قافلہ ہے جو مکہ سے باہر جارہا ہے ۔ میں نے دریافت کیا یہ کس کا قافلہ ہے جو اس وقت مکہ سے باہر جارہا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا یہ قافلہ حسین ابن علی علیہما السلام کا ہے۔ اس کے بعد میں مولا کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کرنے کے بعد میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے مکہ سے باہر کیوںتشریف لے جارہے ہیں؟ امام نے جواب دیا: اگر میں باہر نہ جاتاتو خانہ خدا کی حرمت کے پامال ہوجانے کا خطرہ تھا۔ پھر حضرت نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: عرب کا رہنے والا ہوں اسکے بعد حضرت نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔ صرف اتنا کہا کہ مجھے ان لوگوں کے حالات سے مطلع کرو جن کو تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ میں نے کہا: ایک با خبر آدمی سے پتہ چلا ہے کہ ان لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں، امام نے جواب میں فرمایا: تم نے سچ کہا اگر قضائے خدا ہماری تمنا کے مطابق نازل ہوئی تو اللہ کی نعمتوں پر ہم اس کا شکریہ ادا کریں گے۔ اگر قضائے الٰہی مخالف ہوئی تو وہ شخص اپنے مقصد سے دور نہیںرہ سکتا جس کی نیت حق ہو اور تقویٰ اس کی سپر ہو۔(١)

وادی تنعیم:
جب سلطان دنیا و آخرت کا سعادت مند قافلہ مکہ معظمہ سے روانہ ہوا تو وادی تنعیم میں پہنچا۔ تنعیم ایک جگہ ہے جو مکہ سے تین یا چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔(٢)
منزل تنعیم پر حضرت امام حسین علیہ السلام ایک قافلہ سے ملے جو یمن سے آرہا تھا حضرت نے کئی اونٹ اس قافلہ سے اپنے اسباب اور اصحاب کے لئے کرایہ پر لئے امام حسین علیہ السلام نے شتربانوں سے کہا: جو شخص ہمارے ساتھ عراق چلے گا ہم اس کا پورا خرچ برداشت کریں گے اور جو شخص اثنائے راہ میں ہم سے جدا ہوجائے گا اسے طے کردہ مسافت کے مطابق اخراجات دیں گے۔

مقام ثعلبیہ:
ثعلبیہ مکہ کے راستہ میں ایک منزل ہے، یہ ایک گائوں تھا جو ویران ہو گیا تھا اور ثعلبیہ کے نام سے ہی مشہور تھا۔ ثعلبیہ کا حرف”ث” زبر کے ساتھ پڑھا جائے گا (٣)
امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب بابا حسین علیہ السلام مقام ثعلبیہ پر پہنچے تو بشیر بن غالب نے آکر عرض کیا: یابن رسول اللہ آیہ ” یوم ندعوا کل اناس بامامھم” کی تفسیر بیان فرمائیں۔ بابا نے جواب میں فرمایا: ایک امام وہ ہے کہ جس نے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کی اور لوگوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا۔ اور ایک وہ امام ہے جس نے لوگوں کو گمراہی کی طرف دعوت دی اور لوگوں نے اس کی پیروی کی۔ جو گروہ اپنے لئے جس امام کاانتخاب کرے گا وہ اسی کے ساتھ طلب کیا جائے گا۔ مطیع ا ور ہدایت یافتہ لوگوں کو بہشت کی جانب لے جایا جائے گا اور گمراہوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ خداوند متعال کا ارشادہے: (فریق فی الجنة و فریق فی السعیر) ایک گروہ جنت میں اور دوسرا جہنم میں ہے۔
ایک دوسری روایت میں ملتا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام منزل ثعلبیہ پر پہونچے تو ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں آکر سلام کیا۔ حضرت نے فرمایا: کہاں رہتے ہو؟ اس نے عرض کی: میں کوفہ میں رہتا ہوں، حضرت نے فرمایا: اگر مدینہ میں آتے تو میں تم کو اپنے مکان میں جبرئیل کے آثار اور نشانیوں کو دکھاتا کہ کس طرح وہ ہمارے گھر میں داخل ہوتے تھے اور کس طرح ہمارے نانا کو وحی الٰہی پہونچاتے تھے یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ علوم الٰہی جانیں اور ہم اہل بیت ان سے ناواقف ہوں!۔

مقام عذیب:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب سید الشہداء چشمہ عذیب کے کنارے پر پہونچے تو وہاں قیام کیا اور قیلولہ فرماکر خواب سے گریہ کناں بیدار ہوئے۔
حضرت علی اکبر نے پوچھا:آپ کے رونے کا سبب کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا: اے فرزند! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک ہاتف نے مجھے آوازدی کہ موت اس قافلہ کے پیچھے پیچھے جارہی ہے حضرت علی اکبر نے پوچھا: اے میرے پدربزرگوار!کیا ہم حق پر نہیں ہے اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ حضرت نے فرمایا: اے میرے بیٹے! میں اس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس کی طرف پلٹ کر سب کو جانا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارے دشمن باطل پر ہیں۔ حضرت علی اکبر نے عرض کی: پھر ہمیں موت اور شہید ہوجانے کی کیا پرواہ ہے۔

مقام ہیمیہ:
جب حضرت امام حسین علیہ السلام مقام ہیمیہ پر پہنچے توکوفہ کاایک شخص ملا جس کو تاریخ نے ابو ہریرہ کے نام سے یاد کیا ہے،اس نے سلام کرکے عرض کی: اے فرزند رسول! آپ حرم خدا اور حرم رسول خدا سے کیوںچلے آئے۔
امام نے فرمایا:اے ابو ہریرہ! بنی امیہ نے میرا مال لے لیامیں نے صبر کیا،. میری ہتک حرمت کی پھر بھی میں نے صبر کیا، اور جب انھوں نے چاہا مجھے شہید کریں تو اس وقت میں نے ترک وطن کیا، خدا کی قسم ایک باغی گروہ مجھے شہید کرے گا اور خداوند عالم ان ظالموں کو ذلت اور رسوائی کا لباس پہنائے گا اور ان پر اس شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں قوم سبا سے زیادہ ذلیل کرے گا کہ ایک عورت ان پر حاکم تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق فرمایا :اہل کوفہ نے مجھے خطوط لکھ کر بلایا ہے اور یہی لوگ مجھے شہید کریںگے۔ اور خدا ان پر ایک شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں ذلت و خواری کا لباس پہنائے گا۔

منزل حاجز:
جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے منزل حاجز سے کوفہ کی جانب جانے کا ارادہ کیا اور ایک تالاب کے کنارے پہونچے جہاں عبداللہ بن مطیع کا خیمہ تھا، عبداللہ کی نظر جب آپ کے حسن و جمال پر پڑی تو آپ کے استقبال میں دوڑا اور عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: مجھے اہل عراق نے بلایا ہے عبداللہ نے کہا: خدا کی قسم آپ ہرگز کوفہ نہ جائیں.لیکن حضرت نے اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ دی اور جس کام پر مامور تھے خدا کی خوشنودی کے لئے نکل پڑے۔
ایک دوسری روایت میں ملتا ہے کہ زہیر ابن قین بجلی مکہ سے مراجعت کے وقت تمام منزلوں پرا مام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے اور حضرت سے بہت دور اترتے تھے تاکہ آپ کو ہماری خبر نہ ہو سکے۔ لیکن دوپہر کے وقت جب دستک ہوئی اور آواز آئی کہ میں حسین کا قاصد ہوں تو ہاتھوں سے لقمہ گرپڑا.بیوی نے کہا: فرزند رسول بلارہے ہیں اور تم تأمل کررہے ہو!، زہیر گئے اور چند لمحوں کے بعدجب پلٹے تو شاد و خرم تھے، اس کے بعد خیمہ کو حسین بن علی کے خیمہ کے قریب نصب کیا۔ اور ہر مصیبت میں حسین کے ساتھ تھے یہاں تک کہ روز عاشور درجۂ شہادت پر فائز ہو گئے۔

منزل خزیمہ:
جب امام حسین علیہ السلام منزل خزیمہ پر پہونچے تو رات کو اسی مقام پر آرام فرمایا، جب صبح نمودار ہوئی تو جناب زینب اپنے بھائی حسین کے پاس آئیںاور فرمایا: میں نے رات میں کسی کو کہتے ہوئے سناہے کہ ان آنکھوں کو پوری طرح آنسو بہانے دو ، میرے بعد ان شہداء پر کون روئے گا، ان کو موت ایک قوم کی طرف لے جارہی ہے، یہ میرا وعدہ پورا کرنے کے لئے جارہے ہیں ۔ (٤)

مقام زبالہ:
یہ وہ مقام ہے جہاں امام حسین علیہ السلام کو جناب مسلم کی شہادت کی خبر ملی۔(٥)
جب امام حسین علیہ السلام نے یہ خبر سنی تو آپ کے دیدۂ مبارک سے اشک جاری ہو گئے اور اپنے چاہنے والوں سے فرمایا :جیسا کہ تم لوگوںنے خبر شہادت سنی اب تم میں سے جو کوئی بھی جانا چاہتا ہے چلا جائے میں تم لوگوں سے اپنی بیعت کو اٹھائے لیتا ہوں۔
شیخ مفید نے لکھا کہ اس جملہ کے بعد کچھ لوگ دائیں جانب اور کچھ بائیں جانب منتشر ہو گئے۔ صرف آپ کے ساتھ وہی لوگ تھے جو مدینہ سے آپ کے ہمراہ تھے یا پھر وہ افراد تھے جو درمیان راہ میں آپ کے ساتھ ہوگئے تھے۔

بطن عقبہ:
جب امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت و اصحاب مقام بطن عقبہ میں اترے تو بنی عکرمہ میں سے ایک بوڑھا شخص جسے عمر وبن لوذان کہا جاتا تھا ، حضرت سے ملاقات کی اور پوچھا: آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ امام نے فرمایا: میں کوفہ جا رہا ہوں، اس شخص نے کہا واللہ آپ نیزوں اور تلواروں کی طرف جارہے ہیں امام نے فرمایا: اے بندۂ خدا !تو جو کہتا ہے وہ مجھ سے مخفی نہیں ہے لیکن اللہ ہر امر پر قادر و غالب ہے اس کے بعد امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ قوم اس وقت تک مجھ سے دستبردار نہیں ہو گی جب تک کہ میرا خون نہ بہادے۔

مقام اشراف:

بطن عقبہ سے روانہ ہونے کے بعد منزل اشراف میں قیام کیا اور جب صبح نمودار ہوئی تو اصحاب کو زیادہ مقدار میں پانی ساتھ لینے کا حکم دیا۔یہی وہ پانی کی مقدار تھی جس کے ذریعہ حر کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو بھی سیراب کیا۔

قصر بنی مقاتل:
جب امام حسین علیہ السلام قصر بنی مقاتل میں اترے تو دیکھاکہ ایک خیمہ نصب ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ کس کا خیمہ ہے؟ کسی نے جواب دیا: عبیداللہ بن حر جعفی کا خیمہ ہے، آپ نے کہا: اسے میرے پاس لائو، حسین کا قاصد پہونچا اور کہا: آپ کو آقا حسین یاد فرما رہے ہیں، عبیداللہ نے کہا:” انا للّٰہ و انا الیہ راجعون” خدا کی قسم میں کوفہ سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں کوفہ میں رہوں اور کہیں حسین آنہ جائیں، قاصد نے جاکر یہ حال سنایا امام حسین علیہ السلام اٹھے اور خود گئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی اس نے جو بات پہلے کہی تھی اسی کو پھر دہرایا، امام نے فرمایا: اگر تو ہماری نصرت نہیں کرتا تو ہمارے قاتلوں کے ساتھ شریک ہونے میں خدا سے ڈر۔ جو شخص ہماری نصرت نہیںکرے گا اور ہماری فریاد کو نہیں سنے گا توجہنم اس کا مقدر بن جائے گا ۔

قطقطانیہ:
بروایت علامہ مجلسی یہ وہ آخری منزل ہے جس کے بعد امام حسین علیہ السلام کربلا میں داخل ہوئے ہیں۔بجز علامہ مجلسی کسی نے اس مقام کو اپنی کتاب میں ذکرنہیں کیا ہے الغرض امام حسین علیہ السلام یہاں سے رخصت ہوئے اوربدھ کے روز کربلا میں وارد ہوئے۔ جہاں مولا حسین علیہ السلام پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے، آپ شہید ہوگئے لیکن خداوند عالم نے آپ کے نام کو رہتی دنیا تک کے لئے زبان زد خاص وعام کردیا اور یزید و یزیدیت کو دنیا میں ذلیل و رسوا کیا اور آخرت میں عذاب دائمی کا حقدار بنا دیا۔

حوالہ جات:
١۔ارشاد شیخ مفیدج٢ ص ٩۔
٢۔ترجمہ ارشاد:ص ٦٩۔
٣۔ناسخ التوایخ ج ٦ ص ٢١٤۔
٤۔جلاء العیون۔ص٢٧٢۔

Related Articles

Back to top button