دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

امر بالمعروف و نہی عن المنکر؛امام حسینؑ کی نظر میں

(سید غافر حسن رضوی)

موضوع میں داخل ہونے سے پہلے ،عنوان سخن کی وضاحت ضروری سمجھتاہوںلہٰذا لغات و قوامیس کی جانب رخ کرتے ہیں:”امر بالمعروف و نھی عن المنکر” دونوں ہی عربی الفاظ ہیں ”امر”یعنی حکم دینا(١)
”معروف”یعنی نیکی(٢)
اگر دونوں کو ایک ساتھ ملاکر معنی کیا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے:”نیکی کا حکم دینا”۔
اسی طرح ”نھی عن المنکر” کو بھی دیکھئے”نھی ” یعنی منع کرنا(روکنا)(٣) اور ”منکر”یعنی برائی۔(٤)
اگر ان دونوں کو ملاکر مطلب حاصل کیاجائے تو اس کا مطلب ہوگا: ”برائی سے روکنا”۔
”امر بالمعروف و نھی عن المنکر” فروع دین میں سے دو رکن ہیں، فروع؛ فرع کی جمع ہے اور فرع کے معنی ہیں شاخ، اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شجر بغیر شاخوں کے وجود میں آسکتاہے؟ کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چونکہ جس تنہ پر شاخیں نہ ہوں وہ درخت نہیں کہلاتا ،لہٰذا اگر دین کے شجر کو بارآور دیکھنا ہے تو ہمیں اس درخت کی شاخوں کی حفاظت میں کوشاں رہنا پڑے گا،اور ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا کہ کہیں کسی جانب سے کسی دشمن کا حربہ کارگر نہ ہوجائے اور اس مبارک درخت کی شاخوں کو نہ کاٹ ڈالے، اگر درخت کی شاخیں موجود ہوںگی تو پھر درخت کے سائے میں مزہ سے بیٹھا جاسکتا ہے ،اس کی ہوائوں سے لطف اندوز ہواجاسکتا ہے اور وقت آنے پر اس کے ثمر کا حصول بھی ممکن ہوگا،یہ دونوں شاخیں (امر بالمعروف ونہی عن المنکر)؛دین کی اہم شاخیں ہیں، جس طرح نماز واجب ہے ،روزہ واجب ہے، زکات و خمس و جہاد وغیرہ واجب ہیں اسی طرح”نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ” بھی واجب ہے (یہ بحث الگ ہے کہ دس عدد فروع دین میں سے کون کون سے واجب عینی ہیں اور کون کون سے واجب کفائی؟ ) اور یہ دونوں کام کسی ایک خاص شخص سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ ہر ایک مسلمان کا فریضہ ہے کہ اگر کسی کو غلط راستے پر گامزن دیکھے تو اسے اس راہ سے ہٹاکر اچھائی کے راستے کی جانب ہدایت کرے، یہ بہت ہی جاہلانہ فکر ہے کہ یہ کام یعنی ”نیکیوں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا”صرف علماء حضرات کی ذمہ داری ہے،نہیں عزیزو! یہ دونوں کام ہر مسلمان پر واجب ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اسی خوش فہمی میں خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہیں اور محشر کے ہنگام ،معلوم ہو کہ ہم سے تو بہت بڑی غلطی ہوگئی ، اے کاش! ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور آج اس پریشانی سے دوچار نہ ہونا پڑتاکہ ہمارا شمار ناکام افراد کی صفوں میں ہونے لگا، اگر ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے تو آج کامیاب و کامران افراد کی صفوں میں کھڑے ہوتے ،اے کاش ! ہمیں شیطان نے نہ بہکایا ہوتا تو ہم بھی صالحین کے ہمراہ ہوتے،لیکن اس پچھتاوے کا ماحصل کچھ نہیں ہوگا چونکہ باب اعمال مسدود ہوچکا ہے ،اور باب جزا کھلا ہوا ہے اب تو دنیا میں واپسی ممکن ہی نہیںہے ۔
یہ دونوں امور ایسے اہم امور میں سے ہیں کہ خداوند عالم نے متعدد مقامات پر ان کی تاکید فرمائی ہے ،ان مقامات میں سے چند مقامات کا تذکرہ کرنا مناسب ہے:
خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے: (ِنَّ اﷲَ یَْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالِحْسَانِ وَِیتَائِ ذِی الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنْ الْفَحْشَائِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون)(٥)
ترجمہ: بے شک خداوندعالم،پند و نصیحت کے عنوان سے عدل ونیکی اوراعزاء و اقارب کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے،اور بری باتوں سے روکتا ہے، شاید کہ تم یاد کرنے والوں کی صفوں میں آجائو۔
اس آیت سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ اگر کسی سے گفتگو کرو تو نصیحت آمیز لہجہ میں گفتگو کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کو امر بالمعروف کر رہے ہو وہ غلط نتیجہ نکال کر اور بھی زیادہ برائی کی جانب رغبت پیدا کرلے ،چونکہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر اپنی پرانی دشمنیاں نکالنے کا نام نہیں ہے بلکہ گمراہ کو راہ راست پر لگانے کا نام ہے۔ ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے اعزاء و اقارب کے حقوق پامال نہ کریں چونکہ اس صورت میں امر باالمعروف و نھی عن المنکر ،پانی پر لکیر کی مانند ہوجائیں گے یعنی ہماری تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، ہماری نصیحتیں سننے والا ہماری نصیحتوں کو ایک کان سے سنے گا اور دوسرے کان سے اُڑا دے گا۔
دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے: (وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ ُمَّة یَدْعُونَ ِلَی الْخَیْرِ وَیَْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ) (٦)
ترجمہ: تم میں سے(کم سے کم)بعض لوگ (تو) ایسے ہوجائو کہ جو داعی الیٰ الخیر ہوں، وہ لوگوں کو نیکیوں کاحکم دیتے ہوں اور برائیوں سے روکتے ہوں اور(جان لوکہ)ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
اس آیت میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اگر تمہاری پوری امت اس فریضہ (امر بالمعروف و نھی عن المنکر)کی ادائیگی کو اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرر ہی ہے تو کم سے کم کچھ لوگ ہی سہی، لیکن اس مفہوم کو یتیم کی مانند تنہا مت چھوڑو کہ جس کے ماں باپ مرگئے ہوں اور اس دنیا میں خدا کے سوا اس کا کوئی بھی مونس و مددگار نہ ہو۔
ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہورہا ہے: (یُؤْمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَُوْلَئِکَ مِنَ الصَّالِحِین)(٧)
ترجمہ: وہ لوگ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور وہ لوگ صالح افراد میں سے ہیں۔
خداوندعالم مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مومنین کی شان یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، روز حشر کی بابت ان کے یقین کو کوئی بھی زلزلہ منہدم نہیں کرسکتا،یہ لوگ نیک کاموں میں پیچھے نہیں رہتے بلکہ ہمیشہ سب سے آگے نظر آتے ہیں اور اس میں نیک کام کی کوئی قید نہیں ہے کہ کونسا کام؟ ان کے نزدیک جو کام بھی خیر و نیکی کا حامل ہوگا اس کام میں آگے نظر آئیںگے۔
خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: (الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الُْمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالِْنجِیلِ یَْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنْ الْمُنکَرِ …)(٨)
ترجمہ: (عیسائی اور یہودیوں میں سے)جو لوگ اس رسول کی پیروی کریں کہ جس کا اسم مبارک خود ان کی توریت و انجیل میں تحریر ہے تو بے شک وہ اس رسول کو” آمر بالمعروف” اور ”ناہی عن المنکر” پائیںگے(یعنی اس رسول کو بہترین ہادی کی شکل میں دیکھیںگے)۔
اس آیت میں انتہائی تبلیغ آشکار ہورہی ہے کہ امر بالمعروف و نھی عن المنکرایسی عظیم صفات ہیں کہ اگر یہودی اور عیسائی جیسے گمراہ خیالات پر بھی آزمایا جائے تو وہ بھی ہدایت یافتہ ہوجائیں۔
اسی طرح ایک اور مقام پر آیت قرآنی ہے: (الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یَْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ َیْدِیَہُمْ نَسُوا اﷲَ فَنَسِیَہُمْ …)(٩)
ترجمہ:(منافقوں کی صفت یہ ہے کہ) منافق افراد میں سے بعض لوگ،بعض کو برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھائیوں سے روکتے ہیں اور ان کے ہاتھ باندھ دیتے ہیں،وہ اللہ کو بھول گئے (جس کے نتیجہ میں)انھیں اللہ بھی بھول گیا۔
یا اس آیت کے بالکل برخلاف ایک دوسری آیت ہے کہ جس میں مومن کی صفت بیان کی جارہی ہے: (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ َوْلِیَائُ بَعْضٍ یَْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَیُطِیعُونَ اﷲَ وَرَسُولَہُ ُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُہُمْ اﷲُ … )(١٠)
ترجمہ:(مومنوں کی شان یہ ہے کہ) مومنین میں سے بعض افراد، بعض دوسرے افراد کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرتے ہیں، وہ لوگ نماز برپا کرتے ہیں،زکات اداکرتے ہیں،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں،یہی لوگ رحمت الٰہی کے سائے میں رہیںگے۔
ان دو آیتوں میں دو چہروں کی شناخت کرائی گئی ہے ،ایک تو چہرۂ منافق ہے اور دوسرا مومن کا چہرہ ہے،اب انصاف خود انسان کے ہاتھ میں ہے کہ اس کی عقل کیا فیصلہ کرتی ہے،وہ مومن کا ساتھ دینا چاہتی ہے یا منافق کا؟ان آیتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ منافق، ہمیشہ مومن کے برعکس چلتا ہے، اگر مومن نیکی کا حکم دے گا تو منافق نیکی سے روکے گا، اگر مومن برائی سے روکے گا تو منافق اس کی جانب رغبت دلائے گا،مومن اطاعت الٰہی انجام دے گا تو منافق خدا کو بھول بیٹھے گا،ان آیتوں میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امر بالمعروف و نھی عن المنکرمومن کی پسندیدہ صفات ہیں لیکن یہی صفات منافق کے لئے نشتر سے کم نہیں ہیں لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ منافق کے سینے کو ان نشتروں سے اس طرح چھلنی کردیں کہ اس کے زخموں کا مداویٰ بھی نہ ہوسکے۔
ایک اور مقام پر رب الارباب کا ارشاد گرامی ہورہا ہے: (الَّذِینَ ِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِی الَْرْضِ َقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ وََمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنْ الْمُنْکَرِ )(١١)
ترجمہ: (جو لوگ خدا کے مطیع و فرمانبردار بندے ہیں)اگر انھیں فرش زمین پر اقتدار حاصل ہوجائے تو وہ لوگ نماز برپا کرتے ہیں زکات ادا کرتے ہیں اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دیتے ہیں۔
یہ بھی مومنین کی ایک خاص صفت ہے جو ہر کس و ناکس کو حاصل نہیں ہوتی،چونکہ کوئی عہدہ ملنے سے پہلے ہی انسان کے دل میں اس کی برسوں پرانی تمنائیں انگڑائی لینے لگتی ہیں اور وہ یہ سوچتا ہے کہ اب میرا نصیب جاگے گا ،مجھے ایک عرصۂ دراز سے یہ تمنا تھی کہ ایسا بنگلا بنائوں، فلاں گاڑی خریدوں، یہ کروں اوروہ کروں… لیکن یہ مومن ہے کہ اگر اسے پوری دنیا کی حکومت بھی مل جائے تب بھی وہ خدا کو فراموشی کی نذر نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کی یاد میں غرق رہتا ہے، نماز بجالاتا ہے، زکات دیتا ہے اوردوسرے افراد کو امر بالمعروف و نھی عن المنکر کرتا ہے،چونکہ اگر یہ بھی عام انسانوں کی مانند ہوجائے تو پھر اس میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا! مومن و منافق کے مابین یہی تو طرّۂ امتیاز ہے کہ منافق ایک چھوٹا سا عہدہ ملتے ہی خدا کو بھول بیٹھتا ہے لیکن مومن ، شاہِ جہاں ہونے کے باوجود بھی اپنے دل میں خدا کی یاد کو تازہ رکھتا ہے۔
قرآن کریم جناب لقمان کی نصیحت کو نقل کرتا ہے کہ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: ( یَابُنَیَّ َقِمْ الصَّلَاةَ وَْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنْ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا َصَابَکَ ِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الُْمُورِ)(١٢)
ترجمہ:اے میرے لال! نماز قائم کرو،امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دو اور امر بالمعروف و نھی عن المنکرکی راہ میں جتنی بھی اذیتوں کا سامنا ہو اس پر صبر و تحمل کرو کہ بے شک یہی صبر و تحمل ، امور کو مستحکم کرنے کا باعث ہے۔
اس آیت میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو کتنی زیادہ ترجیح دی گئی ہے؟ کہ دیکھو خبردار! امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے نظریں نہ چرانا چاہے اس کام میں کتنی ہی مصبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔
ان آیات الٰہی کے مد نظر،ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ امر بالمعروف و نھی عن المنکرکی ذمہ داری کو انجام دے ورنہ محشر میں جواب دینے کے لئے آمادہ رہے کہ ان کے بارے میں بہت سخت باز پرس ہوگی۔
کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو فرزند رسولۖ،دلبند علی و بتول ٪ حضرت امام حسین ـ جان سے زیادہ عزیز نانا کے مدینہ کو کسی بھی حالت میں خیر باد نہیں کہتے، امام حسین ـ کو یہ معلوم تھا کہ اب مدینہ میں واپس نہیں آپائیںگے لیکن پھر بھی مدینہ کو ترک کرکے کربلا کے لئے روانہ ہوگئے چونکہ آپ کو آیات الٰہی کو عملی جامہ پہناناتھا۔
جب امام حسین ـ نے کربلا کے قصد سے اپنا رخت سفر باندھا تو آپ نے کچھ افراد کے ماتھوں کی لکیروں کو پڑھ لیا اور ان کے ذہنوں میں ابھرتے ہوئے شرآلود سوال کا گلا گھونٹ دیا، آپ نے فرمایا:کیا تم حسین کو ایک عام انسان سمجھ رہے ہو؟ نہیں اپنی اس غلط فہمی کو دور کرلو، میں دلبند علی و بتول ہوں، میں فرزندرسول صلی اللہ علیہ وآلہ ہوں،میں حسن ـ کا بھائی ہوں، کیا میرے بزرگوں میں سے کسی نے کبھی دولت و ثروت چاہی ہے؟ کیا میرے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے حکومت کی خواہش ظاہر کی؟ کیا میرے بابا علی مرتضی ـنے کبھی نظام حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی تمنا کی؟کیا میرے بھائی حسن مجتبی ـنے صلح نہیں کی؟ تو پھر تم میرے بارے میں یہ کیسے سوچ سکتے ہو کہ میں (حسین ) تخت و تاج کی لالچ میں مدینہ چھوڑ کر کربلا کی جانب جا رہا ہوں!؟
آپ نے اپنے مقصد قیام کو کچھ اس طرح واضح کیا: ”ألا ترون الیٰ الحق لا یعمل بہ و الیٰ الباطل لا یتناھیٰ عنہ لیرغب المومن فی لقاء اللہ فأنی لا أریٰ الموت الا سعادة والحیاة مع الظالمین الا برما” (١٣)
ترجمہ: کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے دستبرداری نہیں ہو رہی ہے ؟ایسے میں مومن موت کی تمنا کر تا ہے ، لہٰذا میں موت کو سعادت اور ظالموں کی ہمراہی میں زندہ رہنے کو ذلت و بد بختی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا۔
اپنے بھائی محمد حنفیہ کو وصیت تحریر کرتے ہوئے امام حسین اپنے مقصد قیام کو کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں :”أنی لم اخرج اشراًولا بطراً ولا مفسداًولا ظالماً وأنما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید ان آمر با لمعروف وانھیٰ عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی ابن ابی طالب علیھما السلام ”(١٤)
میں تفریح ،خود غرضی،فساداور ستم کی خاطر نہیں جا رہا ہوں بلکہ میرے قیام کا مقصد، اپنے نانا جان کی امت کی اصلاح ہے اور میں امر بالمعروف و نھی عن المنکرکرنے جا رہا ہوں اور اپنے نانا نبی ۖاور اپنے بابا علی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے جا رہا ہوں۔
مکہ سے خارج ہونے سے پہلے اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :”من باذلاًفینا مھجتہ و موطناً علیٰ لقاء اللہ نفسہ فلیر حل فأ نی راحل مصبحاً انشاء اللہ” (١٥)
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنا خون مجھ پر بہائے وہ ہمارے ساتھ نکلے کہ میںانشاء اللہ کل صبح خدا کی راہ پر گامزن ہوں گا۔
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو آفتاب سے بھی زیادہ نمایاں ہے،اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امام حسین نے امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی فضیلت کے مدنظر ،ان امور سے متعلق آیات الٰہی کو میدان کربلا کی تپتی ہوئی ریت پرعملی جامہ پہنایا تو پھر ہم یہ کام کیوںانجام نہیں دیتے، امام حسین نے امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی خاطر اپنا پورا گھر لٹادیا، ششماہہ مجاہد کو بھی عزیز نہ سمجھا،اٹھّارہ سال کے جوان سے ہاتھ دھونا پڑا یعنی حسین ـ کی ساری کائنات لٹ گئی لیکن آپ نے دین حق کی راہ سے اپنے قدموں کو نہ لرزنے دیا،ہم حسینی ہیں لہٰذاحسینی ہونے کے ناطے ہمارا فریضہ ہے کہ اگر ہماری عقلیں آیات الٰہی کوسمجھنے سے قاصر ہیں تو کم سے کم حسین ـ کی قربانیوں کو ہی نظر میںرکھ کر اس امر کو آگے بڑھائیںچونکہ حسین ـکی قربانیاں تو غورطلب نہیں ہیں! پالنے والے ہم حسینیوں کو نقش قدم حسینی پر گامزن ہونے کی توفیق عنایت فرما۔(آمین)
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

حوالہ جات:
١۔المنجد عربی فارسی،ج١،مادہ الف،م،ر۔
٢۔ المنجد عربی فارسی،ج١، مادہ ع،ر،ف۔
٣۔ المنجد عربی فارسی،ج٢، مادہ ن،ھ،ی۔
٤۔ المنجد عربی فارسی،ج٢، مادہ ن،ک،ر۔
٥۔ سورۂ نحل٩٠۔ ٦۔ سورۂ آل عمران١٠٤۔
٧۔ سورۂ آل عمران١١٤۔ ٨۔ سورۂ اعراف١٥٧۔
٩۔ سورۂ توبہ٦٧۔ ١٠۔ سورۂ توبہ٧١۔
١١۔ سورۂ حج٤١۔
١٢۔ سورۂ لقمان١٧۔
١٣۔ سوگنامۂ آل محمد:ص٢٠٣۔ مثیر الاحزان:ص٤٤ حلیة الاولیائ: ج٢، ص٣٩ ۔ الحسین:ص٨٩،٩٠۔
١٤۔مقتل ابو مخنف(ترجمہ فارسی)ص٢٤ ۔ سخنان حسین بن علی :ص٣٦ ۔ وصیتنامہ چھاردہ معصوم :ص٧٨۔
١٥۔ سوگنامۂ کربلا(ترجمہ لھوف)ص١١٤ ۔ سوگنامۂ آل محمد:ص١٩٩ ۔ مثیر الاحزان:ص٤١۔

Related Articles

Back to top button